زندہ ادیب، آصف فرخی

Asif Farrukhi dies
آصف فرخی

زندہ ادیب، آصف فرخی

بلوچی متن از، شھاب اکرم

اردو میں ترجمہ، شہزاد اسلم

ادب کی خوب صورتی یہ ہے کہ وہ ہمیں مشغول رکھنے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ تنہائی کا عالَم ہو، یا کوئی مَجمع ہو، ادب ہر وقت ہمارا ہم رکاب ہے۔

کتابوں سے محبت کرنے والوں کی ہر وقت یہی جستجو ہوتی ہے انھیں کوئی ہم خیال رفیق ملے، جن سے وہ مختلف کتابوں کے متعلق گفت و شنید کریں، مطالعہ شدہ کتابوں پر بحث کریں اور ان کے پلاٹ، تکنیک اور دیگر پہلووں پر روشنی ڈالیں۔

جب کبھی بھی کتابوں سے محبت رکھنے والے یعنی (bibliophile) دو شخص مل جائیں تو وہ لمحات یادگار بن جاتے ہیں۔ ادبی مباحثے کا ان لوگوں کے ساتھ مزا ہے جو مختلف ادبی مصادر سے آشنا ہوں، مگر آپ اگر اس کے بَر عکس صرف تھوڑے سے ہی ادبی مواد سے مستفید ہوئے ہوں، مگر پھر بھی آپ قیاس کرتے ہوں کہ آپ نے اپنی بساط کے مطابق کافی مطالعہ کیا ہے، گویا ایسے لوگوں سے کسی قسم کی رنجشیں نہیں پالی جا سکتیں، آصف فرخی انھی لوگوں میں سے ایک ہیں۔

آصف فرخی کے متعلق یہ وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک مخلص اور ذی فہم ادبی شخصیت تھے اور ادب کے تمام تر پہلووں سے آشنا تھے، اور اس چیز کا بھی ادراک رکھتے تھے کہ ادب کا کام ہے کیا، اور ادب زندگی کی توضیع کیسے کرتا ہے!

آصف فرخی پہلے ادیب ہیں جن کے وصال کا دکھ اپنوں کی رحلت سے بھی زیادہ ہو رہا ہے۔ کسی انسان کے وصال سے اگر کم و بیش دس لوگ افسردہ ہوں تو اس کا مطلب سمجھا جاتا ہے کہ وہ صحیح معنوں میں ایک زندہ انسان تھے۔

آصف فرخی کا وصال نے تو ہزاروں ادب سے وابستگی رکھنے والے لوگوں کو رنج میں مبتلا کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے وہ کس قدر اور نوعیت کے ادیب تھے۔

کچھ لوگوں کی تو تصویر کو ہی دیکھ کے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ضرور کوئی غیر معمولی شخصیت کے حامل ہوں گے، ایک مختلف مزاج رکھنے والے ہوں گے اور یہ کہ ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ پڑھنا ہو گا۔

جب نظروں سے نوبل انعام یافتہ ادیب کازوا اِشی گُورو کی تصویر گزری تو اندازہ ہوا کہ وہ میرے پسندیدہ ناول نگار ہو سکتے ہیں۔ یہ بات شاید غیر معقول سی لگے کہ کسی شخص کی ادبی کاوشوں سے شناسائی کے بَہ غیر کوئی اپنی پسندیدگی کا اظہار کر سکے، مگر ان کی کتابوں کی ورق گردانی کے بعد واقعتاً کازوا اِشی گُورو میرے پسندیدہ ناول نگار ثابت ہوئے۔ اس کے بعد ان کے تمام، یعنی ساتوں ناول پڑھے۔

آصف فرخی سے، شناسائی کا واقعہ بھی کچھ اس طرح کا ہی ہے۔ ایک دن آصف فرخی کی تصویر فیس بک پر نظروں سے گزری، اور اپنے ادبی حلقۂِ احباب سے ان کی اردو ادب کے متعلق مدح سراہیاں میری سماعت میں پہلے سے ہی گزر چکی تھیں۔ پھر وہ مجھے بھا گئے۔ ان کی فیس بک کی ہر پوسٹ بھی میں نے پڑھی اور کبھی کبھی فیس بک میں ان سے مکالمہ بھی ہوا۔

یاد پڑتا ہے کہ گوادر میں ایک بک فیسٹیول تھا، اے آر داد، چندن ساچ اور مقبول ناصر بلوچی افسانہ نگاری کے بارے میں خیال آرائی کر رہے تھے۔ اسی دوران اے ار داد نے کسی فلسطینی افسانے کی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا زاد میگزین، جس کے ایڈیٹر آصف فرخی ہیں، اس میں شائع ہوئی ہے۔

میرے لیے دنیا زاد ایک نیا لفظ تھا، لیکن اسی دوران آصف فرخی کا نام میری سماعت میں پڑتا گیا، اور اب وہ میرے پسندیدہ ادیبوں میں شامل تھے۔

ایک دن اے آر داد سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے دریافت کیا کہ دنیا زاد ایک میگزین ہے جس کے ایڈیٹر آصف فرخی ہیں، اور جس کہانی کا ذکر میں گوادر بک فیسٹیول میں کر رہا تھا وہ اسی میگزین کے فلسطین نمبر کا حصہ ہے۔ پھر میں نے آصف فرخی کے بارے میں کافی جان کاری حاصل کی۔

ان کی کتابوں، تراجم اور میگزین کے بارے میں اچھی طرح تحقیق کی اور ان کی کتابیں پڑھنا شروع کیں۔

ایک دن اپنی کچھ نظمیں آصف فرخی کو بھیجیں کہ ان کو وہ اگر اپنی میگزین دنیا زاد میں جگہ دے سکیں۔ کچھ دنوں کے بعد ان کا جواب آیا کہ آپ مجھے فون کریں۔ لیکن میں ایسا نہیں کر پایا، اور انھوں نے بھی کچھ نہیں کہا۔ لیکن فیس بک میں ان کی تمام شیئر کردہ پوسٹس کو پڑھتا رہا۔ اب مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ مجھے ان سے بات کرنا چاہیے تھی۔ لیکن بات کچھ اس طرح تھی:

میں نے سوچ رکھا تھا کہ اسی سال گوادر بک فیسٹیول (جو کرونا وائرس کے سبب ملتوی ہو گیا) اس میں، میں آصف فرخی سے (اگر وہ آئے) ایک ملاقات کروں گا۔ اگر وہ نہیں آئے تو کراچی میں ضرور ان سے ملاقات ہو گی اور پھر میں ان سے دنیا کے ادب کے بارے میں پوچھوں گا۔

مجھے ان کی میگزین سے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ ادب کی گہرائیوں سے کس قدر واقف تھے، اور ان کی اسی قابلیت سے میں بہت impress تھا کہ کوئی ایک شخص کیسے اتنے سارے لکھاریوں کو اپنے اندر بھانپ سکتا ہے، کوئی کیسے اتنے سارے لکھاریوں کو پڑھ سکتا ہے!

خیر اسی انتظار میں تھا کہ کب گوادر کا پروگرام آن پہنچے اور میری آصف فرخی سے ملاقات ہو، کیوں کہ اسی دوران میں نے دنیا زاد کے دس سے زیادہ رسالے پڑھے تھے اور عالمی اور اردو ادب سے میری دل چسپی بڑھ چکی تھی۔

جب میں نے یہ مضامین پڑھے تو اردو ادب کے ساتھ ساتھ مجھے عالمی ادب کے بارے میں بھی ایک جامِع فہم ملا۔ اس میں فہمیدہ ریاض کی غزل پر ایک تنقیدی مضمون اور فہمیدہ کے جواب میں ظفر اقبال اور دوسرے بڑے بڑے شاعروں کے rebuttals لاجواب تھے۔

عربی دنیا کے ادب میں کیا ہو رہا ہے، افریقی ادب میں کون سی پیش رفت ہو رہی ہیں، یا پوری دنیا کے ادیب کیا کیا پیش کر رہے ہیں، یا وہ مضامین جو نیو یارکر اور کسی اور عالمی میگزین میں شائع ہوتے تھے، یہ سارا مواد آصف فرخی کے زیرِ نگرانی دنیا زاد کی توسط سے ہم تک پہنچتی تھے۔

ترجمہ کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے شاعروں کے نایاب اشعار اسی میگزین کی توسط سے مل رہے تھے، جیسا کہ اردو کے بڑے شاعر احمد مشتاق کے نئے اشعار دنیا زاد میں شائع ہوئے تھے۔

اس کے ساتھ ساتھ آصف فرخی کے پیش لفظ میں بیان کردہ الفاظ اپنے آپ میں ایک شمارہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے پیش لفظ سے معلوم ہوتا تھا کہ اس میگزین کا مواد کس قدر اہم ہو سکتا ہے، اور ان کے خود کا لکھنے کا اسلوب ایسا تھا جیسے وہ آپ سے مخاطب ہو کر بات کر رہے ہوں۔ ان کا اندازِ بیان بھی ایسا تھا کہ ان کا پیغام سمجھنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں ہوتی تھی۔

آصف فرخی کا وصال نہ صرف اردو ادب کے لیے ایک نا قابلِ تلافی نقصان ہے بَل کہ بلوچی ادب کے لیے بھی یَک ساں نقصان ہے، کیوں کہ میری دانست میں بلوچی ادب کے نو بلد کسی قدر ان کے ادبی کاموں کے بَہ وجوہ متاثر ہو کر نئی راہیں ہم وار کر چکے ہیں، پھر جا کے عالمی ادب کی طرف گام زن ہوئے ہیں۔