جب گُھلی تیری راہوں میں شام الم

ڈاکٹر صولت ناگی

جب گُھلی تیری راہوں میں شام الم

از، ڈاکٹر صولت ناگی

کچھ یادیں انسانی زندگی میں صلیب غم کی مانند نصب ہو جاتی ہیں۔ آپ خواہ کتنی بھی کوشش کیوں نہ کریں وہ آپ کے ذہن سے محو ہونے کا نام نہیں لیتی اور اگر آپ کسی طور انہیں بھولنے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں تب بھی وہ آپ کے لاشعور میں داخل ہو کر کسی تیغ آب دار کی صورت اسے زخم زخم کرتی رہتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ ان کی دراز دستی سے کبھی بھی نجات حاصل نہیں کر سکتے۔ پچھلے کئی برسوں میں وطن عزیز میں شیخ و وعظ جو کچھ طوفان اٹھائے ہوئے ہیں، وہ کسی بھی حساس دل کو چھلنی کیے دے رہے ہیں اور بازوئے قاتل ہے کہ ٹھہرنے کا نام ہی نہیں لیتا۔

اس کے برعکس کچھ لمحے ایسے ہوتے ہیں جنہیں دوہرائے بغیر حیات کی تشنگی ناتمام رہ جاتی ہے۔ آج میں اپنی یادوں کے گریبانوں کو چاک رفو کرنے میں مصروف ہوں، دیکھیں میری فگار انگلیاں کہاں تک میرا ساتھ دیتی ہیں۔ عرض وطن کی خاک کسے عزیز نہیں ہوتی۔ دیار غیر کا مسافر دشت نوردی کے بعد کبھی نہ کبھی تو لوٹتا ہے۔ خواہ ہجر کا عرصہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو اور فراق کے لمحے کتنے ہی مختصر کیوں نہ ہوں۔

عرصہ دہر کی جھلسی ہوئی ویرانی میں جہان ہر صبح ہر شاہد گل گھر سے بازار کا رخ کرتا ہے وہیں وہ ہر شام اپنی وحشت سے فرصت کا طلب گار بھی ہوتا ہے۔ اگر صحرا میں کوئی دیوار میسر نہ ہو تو وہ سماج کی دی گئی متعین شدہ مسرتوں میں فرار تلاش کرتا ہے، جو زیست کی تلخیوں کو کم کرنے کی بجائے ان میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔

اس نظام میں انسان محض انہی مسرتوں سے بہرہ ور ہو سکتا ہے، جو سرمایہ دار کے سامنے منافع میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ اس برس میری وحشت کے مداوے کا آغاز میرے رفیق اور سابق ایڈیٹر راشد رحمان سے کی گئی ایک ملاقات سے ہوا۔ راشد جو غم ہستی کا درماں کرنے گئے مگر تاریک راہوں میں کھو گئے لکین وہ پنجہ جنوں روکنے والوں میں سے ہرگز نہیں ہیں۔ حصول عشق میں جو دشوار مقام آتے ہیں انہیں وہاں سے گزرنا خوب آتا ہے۔

نجانے انہیں یہ گمان کیوں کر گزرا کہ مجھ ایسا کوتاہ قامت، کج ادا جو اپنی زیست کے گیسو نہ سنوار پایا وہ انسانیت کے جسد میں پھیلے ہوئے زہر امروز میں شیرنی فردا کیوں کر بھر پائے گا۔

ہر صورت انہوں نے ریسرچ اور پبلکیشین سنٹر کے ہال میں منعقدہ ایک تقریب شامل ہونے کا کہا اور اس کے ساتھ یہ شرط بھی عائد کر دی کہ معذرت کی کوئی گنجائش نہ ہو گی۔

میں نے یہ جانتے ہوئے سر جھکا دیا کہ درد کا رشتہ اتنا گہرا ہے کہ حکم تو دور کی بات غم گسار آپ کے نام پے چلا آئے گا۔ یہ 15 دسمبر کی ایک انتہائی سرد رات تھی اور اس پر طرہ یہ کہ تھا کہ سرگشتہ خمار موسم و قیود ذہنوں پر جمے ہوئے کہرے کو پگھلانے کی ہر طور سعی کی جائے گویا قد و گیسو کوبکن کی آزمائش کا آغاز ہو چکا تھا مگر کیا صدیوں کی منجمد کائی لمحوں میں اتاری جا سکتی تھی۔

مارکس جانتے تھے کہ ”کوئی نظام اس وقت تک تمام نہیں ہوتا جب تک وہ ان تمام پیداواری قوتوں کو فروغ نہیں دے دیتا جن کی گنجائش اس میں موجود ہوتی ہے،” اور اگر پیداواری قوتوں کو اس مقام تک پہنچنے ہی نہ دیا جائے جہان وہ اپنی عسرت کی وجہ معلوم کرنے کے ساتھ ساتھ ان طبقات کے بارے میں بھی معلومات حاصل کر پائیں جو ان کی مفلسی کا سبب ہیں تو وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جدوجہد کا آغاز ہی کیوں کر کر پائیں گے۔

ہربرٹ مارکیویز نے کیا خوب کہا تھا کہ “آزادی کی شرط غلامی سے واقفیت ہے“۔ جبکہ اڈورنو کا کہنا تھا کہ “لوگوں کو علم نہیں کہ وہ کتنے عدم آزاد ہیں“۔ بالخصوص ایسے موقعے پر جب وہ خود کو آزاد سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ عدم آزادی کے معنی ان سے چھین  لیے گئے ہیں۔ محنت کشوں کی یہ عدم آزادی اور شعوری نا واقفیت تو بالا دست طبقات کے کے  لیے سب سے موثر ہتھیار ہے اور وہ اور ان کا پالتو میڈیا تو سنگ و خشت کے ہمراہ ذہن کو بھی مقید کر دیتے ہیں اور سنگ تو بہر طور ہر دور میں آزاد ہی رہتے ہیں۔

نجانے سمند فکر کہاں بھٹکا کر کہاں لے گیا زرد پتوں کے موسم سے حرف آغاز ہوا اور جولانی طبع اسے معاشی حالت کی جانب لے آئی اور کیوں نہ لاتی سرمایہ ہی تو الفاظی تعلقات کو متعین کرتا ہے۔ بقول فیض، حضور یار ہوئی دفتر جنوں کی طلب، گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے۔ تو جب میں دفتر جنوں سمیت بزم میں پہنچا تو دیکھا کہ باقی تمام ہستیاں جنہیں دیکھ کر کم مائیگی کا احساس اور بھی فزوں تر ہو گیا، خالی ہاتھ تھے جبکہ میرے ہاتھوں میں کاغذوں کا ایک پلندہ تھا۔

لفظ جن پر ہمارا ایمان ہے یقین نہیں یہ وہ سب کچھ تھا جو میں فاشزم کے بارے میں جانتا تھا اور مجھے اب تک یہ بھی خبر نہ تھی کہ محفل کی زباں ریختہ ٹھہری جبکہ میں نے عادتا سبھی کچھ آنگریزی میں لکھ ڈالا جب محفل کا آغاز ہوا تو وہاں سب سے کم علم میں تھا اور سب سے کم عمر ڈاکٹر تیمور رحمن جو اس کم عمری میں بھی علم سینے میں بلا کا علم مدفون کیے ہوئے ہیں۔ انھیں دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ پاکستان میں مارکسزم کا مستقبل اگر روشن نہیں تو محفوظ ضرور ہے۔

تیمور نے اپنا پہلا وار اردو میں کیا اور میں اس سے شرمسار ہو رہا تھا کہ اگرچہ میرے حروف تو بے شکل نہیں ہیں مگر زبان غیر میں شرحِ آرزو بھلا کیوں کر ممکن ہو سکے گی۔ محفل کی صدارت جناب آئی اے رحمٰن کر رہے تھے جو علم کا ایک بے پایاں سمندر ہیں۔ ان کی ذات ایک انجمن ہے مگر اس کا اظہار وہ خال خال ہی کرتے ہیں۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر مہمان خصوصی تھیں اور شمع محفل راشد رحمٰن خود تھے جنہوں نے ساقی یا ماڈریٹر کا کام سنبھال رکھا تھا۔

اپنی تشنہ کامی کے  لیے ہر کسی کو دس منٹ کا عرصہ ملا تھا لکین نجانے یہ سردی کی شدت تھی یا ہمارے انداز تکلم کی خنکی کہ پہلے تو ڈاکٹر تیمور کو انتظار سے کام لینے کو کہا گیا اور بعد میں عاصمہ نے مجھے یاد دلوایا کہ اور بھی دکھ ہیں زمانے میں لفظوں کے سوا۔

ان کے انداز میں وہی کاٹ تھی جس نے تمام عمر اجنبی ہاتھوں کے گرانبار ستم کو للکارا تھا۔ جانے کیوں مجھے گماں تھا ک شاید حلقہ یاراں میں بریشم کی کسی قدر نرمی مل جائے گی خوئے ستم گر کا بدلنا ذرا دشوار ہی ہوتا ہے۔ محترم آئی اے رحمٰن مزاج کے حسین امتزاج سے اپنا پیغام کچھ اس طرح سے پہچاتے ہیں کہ صف زاہداں ہو کہ صف مے کشاں سبھی نہ صرف بلند مدعا سمجھ لیتے ہیں بلکہ کسی طور ہنگامہ آرائی بھی نہیں کر پاتے۔

عاصمہ جہانگیر نے جو کچھ کہا وہ من و عن درست تھا اگرچہ اس کی تفصیل میں جانا نہ تو موزوں ہو گا اور نہ ہی احسن۔ سچ کی تلخی نوک سنا کی چبھن سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اور اب جب وہ ہمارے درمیان نہیں رہیں تو ان کا سچ سواے اہل ہوس کے غوغا کو آگے بڑھائے کہ شاید اور کوئی بڑا کام سرانجام نہ دے پائے۔ اگرچہ ان کا سوال بہت بامعنی تھا جس کا ذکر میں آیندہ کروں گا۔

ہم ایسے دل فگاروں نے فاشزم کی تاریخ کا آغاز ہٹلر اور مسولینی کے اس عہد سے کیا جرمنی اور اٹلی کے مادی حالات اس قدر دگرگوں تھے کہ سرخ اندھی کا مقابلہ اور آشفتہ سر آشفتہ ہو کیمونسٹوں سے نجات کے ذریعے ہی ممکن تھا۔ ایسے حالات میں قوتوں کا توازن کچھ ایسا ہو کہ دو متحارب قوتیں کسی ایک کو مکمل شکست دینے سے قاصر ہوں تو گرامچی کے” بقول سماجی تعلقات روایتی پارٹیوں سے علیحدہ ہو جاتے ہیں”۔

ایسی حالت بہت خطرناک ہوتی ہے کیونکہ حالات نامعلوم قوتوں کی سرگرمیوں اور تشدد پر مبنی حل کے  لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ جن کی قیادت ”قسمت کا دھنی” خوب صورت شخصیت کا مالک کر رہا ہوتا ہے۔ عام فہم الفاظ میں کہا جائے تو یہ اس حقیقت کا اقرار ہوتا ہے کہمحنت کش اپنی جنگ ہار چکا ہے۔ سرمایہ داری کے اس بحران میں ایک دشمن کی ضرورت پڑتی ہے جس پے سسٹم کی ناکامی کا تمام تر الزام دھر کے اس کا استحصال کیا جا سکے اور عوام کو بے وقوف بنایا جا سکے۔

بنیادی ضروریات سے لوگوں کی نظر ہٹانے کا یہ سب سے نایاب اور قدیم طریقہ ہے۔ ہٹلر اور میسولینی نے بھی ایک دشمن جاں تلاش کیا جس کی پھیلائی گئی پلیگ پہ اسے مورد الزام ٹھہرا کر ایک پتھر سے کئی شکار کیے۔ اس کا آغاز کیمونسٹوں سے ہوا اور پھر یہودی، جپسی اور نیم جپسی قوتوں کو اس کی لپیٹ میں لے لیا گیا۔ گویا ایک پنتھ یا کئی کاج۔

سرمایے کی عالمی جنگ نے جرمنوں کی کثیر تعداد کو افتادگان خاک میں بدل ڈالا تھا۔ جن کے سامنے دو راستے تھے ۔۔ سوشلزم یا بربریت ۔۔ امریکہ انگلینڈ اور فرانس کے سرمایہ داروں نے بربریت کا راستہ منتخب کرنے میں ہٹلر کی بھرپور معاونت کی اور دوسری عالمی جنگ کا راستہ ہموار کیا جو خود انہی کے  لیے فرینکیسٹاین بن گیا۔

اگر سوویت یونین نہ ہوتا تو دنیا بھر کے ان مسیحا رہنماؤں کو ایک طویل مدت تک فاشزم کا غلام بن کر رہنا ہوتا، بھلا ہو سرخ فوج کا جس نے اپنے (بیس کروڑ حریت پسندوں کے) لہو سے نئی سحر کا آغاز کیا۔

اس کے بعد آنے والی شام الم کی داستان بہت طویل ہے جس کا تذکرہ یہاں ممکن نہ ہو گا۔ گو اس شام الم کی چیرہ دستیوں میں واعظان پاکستان کا بھی حصہ ہے اور یہی قوتیں اس نادیدہ قوت کے ایما پر پاکستان کو بھی فاشسٹ ملک بنا چکی ہیں۔ کیا کریں جب پہرے پر کھڑے لوگ ہی عدو بن جائیں تو نہ ہاتھ باگ پر رہتا ہے اور نہ پا کسی رکاب میں۔

عاصمہ کی تمام عمر اسی فاشزم کی مختلف ہیتوں اور ہستیوں سے صف آرائی میں گزری۔چناچہ اس روز انہوں نے اپنے الفاظ کو اپنی آبدار آواز میں ڈھالتے ہوئے فاشزم کے بخیے ادھیڑ دیے۔ میں یہاں ان کا صرف ایک جملہ یہاں شیر کرنا چاہوں گا کہ“قیام پاکستان سے قابل مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ابھرنے والے ایک عدد نعرے کو جس کا قیاس کچھ ایسے معنی کا حامل تھا کہ “مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ ” عاصمہ کا کہنا تھا کہیہ نعرہ بذات خود فاشزم کی غلاظت میں لتھڑا ہوا ہے۔ کیا مسلمان ہونے کے  لیے مسلم لیگی ھونا لازم تھا۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ہٹلر کا دعوٰی تھا کہ “نازی پارٹی آریاؤں کی نمائندگی کرتی ہے” عاصمہ نے درست کہا تھا، رنگین پگڑیوں پہ مشتمل لوگ جو مذہبی فاشزم کا باعث ہیں ان کی کڑیاں “پیری توڑین گارڈز “سے نتھی ہے۔

پاکستان کی غیر منتحب واحد قوت جس نے کراچی سے چاغی تک کوئی ایسا میدان نہیں چھوڑا جہاں اس کے انمٹ نقوش موجود نہ ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ جہاں ان نشانات کو موجود ھونا چاہیے تھا وہاں کی زمین ان سے ناواقف ہے۔ جانے ہم نے کتنے جہاد کیے اور ہر جہاد کے بعد ہماری تیغ اپنے ہی لہو میں نیام پائی گئی۔ یہ تن تو خود ہی قتل گاہ دل بن چکا ہے۔ اب مقتل ہمیں دیکھنے کو کیا باقی ہے۔

مجھے خبر نہیں تھی اور ہوتی بھی کیسے کہ یہ عاصمہ سے میری آخری ملاقات ٹھہرے گی اور اس کے بعد نہ صرف وہ اجنبی بن جائیں گی بلکہہماری تمام تر مدارتوں کے باوجود ہم انہیں واپس نہیں لا پائیں گے۔

تمام عمر حریف مرد افگن عشق بننے والی عاصمہ ایک اور جنگ میں ایک اور حریف کا سامنا بھی کر رہیں تھیں۔ ان کا بریسٹ کینسر انہیں خاموشی سے نگل رہا تھا۔ سارتر نے کہا تھا کہ “ہستی بہت نازک ہے” اور جب آبگینوں کو ٹھیس لگ جائے تو ٹوٹے ہوئے شیشوں کا مسیحا کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ فیض نے سچ کہا تھا کہ “کوئی مسیحا نہ ایفائے عہد کو نہ پہنچا ”بہت تلاش پس قتل عام ہوتی رہی۔ اب فصل گل کا ماتم کریں یا گوشہ قفس کا غم منائیں۔

عاصمہ اس بہار گل کا نام تھا۔ چمن کی ہر شاخ کو گزند سے محفوظ رکھنے میں سینہ سپر رہیں اور بالاخر سینہ تو سینہ تھا چھلنی ہو کر کب تک ساتھ دیتا۔ سارتر نے کہا تھا کہ عہدِ وفا ایک لفظ نہیں بلکہ ایک عمل کا نام ہے اور عاصمہ تمام تر سوزو ساز اور درد و داغ سمیت اس عمل کو نبھاتی رہیں اور آج وہ ہمیں عشاق کے ان قافلوں کے انتظار میں چھوڑ گئی ہیں جن کا سراغ دور دور تک نہیں ملتا۔