اسلامی ریاست زیر تشکیل ہے

Khizer Hayat

اسلامی ریاست زیر تشکیل ہے

از، خضر حیات

جنرل ضیاء الحق کے دور میں جنّات کی طاقت سے بجلی پیدا کر لی گئی تھی اور پھر حضرت عمران خان کے دور میں بجلی چوری کو فتوے کے ذریعے روک بھی لیا گیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کو سائنس دانوں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ سر مسئلہ ہی کوئی نہیں، آپ جیسا سوچ رہے ہیں ویسا ہی ہو جائے گا، بے فکر ہو جائیں۔

اور عمران خان کو عالم فاضل سینیٹرز نے یہ خوش خبری سنائی تھی کہ خلیفۂِ وقت، آپ بجلی چوری کے غم میں کیوں راتوں کی نیند حرام کرتے ہیں۔ آپ ہم پر چھوڑ دیں، بس فتویٰ لینا ہے اور فتویٰ دینے والے علمائے کرام کو بجلی کے کچھ یونٹ مفت میں پیش کرنے ہیں، دیکھتے جائیں بجلی چوری کیسے نہیں ختم ہوتی۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک کوّا کسی علامہ صاحب کے ہاتھ سے گُڑ کی ڈَلَی اڑانے میں کام یاب ہو جاتا ہے۔ علامہ صاحب حاضر دماغی سے کوّے کو دھمکی لگاتے ہیں کہ میرا گُڑ واپس کر دو ورنہ میں ابھی مسجد میں جاکے اعلان کرنے لگا ہوں کہ کوّے اسلام میں حلال ہیں۔ کوّا ہاتھ جوڑ کر گُڑ کی ڈلی واپس کر جاتا ہے۔

اب اسلامی ریاست بنانے والی فلم یہاں چل ہی رہی ہے تو کیوں نہ ہم بھی گاہے گاہے اس سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔ ویسے یہ فلم بنانے والوں کو بھی داد دینا پڑے گی کہ وہ ہمیں بالکل مایوس نہیں کرتے اور ہر مختصر وقفے کے بعد کچھ نہ کچھ نیا اس فلم میں ڈالتے رہتے ہیں۔ بجلی چوری روکی جا چکی تو سگریٹ پہ ‘گناہ ٹیکس’ تجویز کر دیا گیا۔ ایک سال پہلے جب سعودی عرب میں سگریٹ اور کچھ مشروبات پر گناہ ٹیکس لگایا گیا تھا تو ہمیں یہاں پاکستان میں بیٹھ کے فکر ہونے لگی تھی کہ سعودی ریاست اللہ جانے کہاں پہنچ کے دَم لے گی۔ اور پھر اس سال یہ فارمولا ہمارے ہاں بھی فِٹ کر دیا گیا۔ پتا نہیں کون ایسے مشورے دینے والا ہے اور کون بے وقوف ان مشوروں پر عمل بھی کر لیتا ہے۔

مشتاق احمد یُوسفی لکھتے ہیں:

“مجھے اس پر قطعی تعجب نہیں ہوتا کہ ہمارے ملک میں پڑھے لکھے لوگ خُونی پیچش کا علاج تعویز، گنڈوں سے کرتے ہیں۔ غصہ اس بات پر آتا ہے کہ وہ واقعی اچھے ہو جاتے ہیں۔”

بالکل اسی طرح مجھے غصہ اس بات پر آتا ہے کہ ایسے عقل سے پیدل مشوروں کو مان بھی لیا جاتا ہے۔


مزید دیکھیے: ریاست کی از سر نو تعریف کی ضرورت  از، شاہد خان 

اسلام اور ریاست، ایک جوابی بیانیہ  از، جاوید احمد غامدی


اب اس فلم کی تازہ ترین قسط کے طور پر دو مزید باتیں سن لیں۔

زرعی یونیورسٹی فیصل آباد نے اعلان کیا ہے کہ وہ 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے کی بجائے ‘سسٹرز ڈے’ منائے گی، جس میں طلباء اپنی ساتھی طالبات کو عبایے اور اسکارف تحفے میں پیش کریں گے۔

یونیورسٹی کے وائس چانسلر ظفر اقبال رندھاوا صاحب کا کہنا ہے کہ یہ خیال سب سے پہلے ان ہی کے زرخیز ذہن میں پیدا ہوا تھا اور انہوں نے سوچا کہ اگر محبت کا ہی دن منانا ہے تو بہن بھائی کی محبت کا کیوں نہ منائیں۔ میاں بیوی کی محبت سے کہیں زیادہ مضبوط رشتہ بہن اور بھائی کے ما بین محبت کا ہے۔ اور پھر ویلنٹائن ڈے کی بجائے سسٹرز ڈے ہی ہماری ثقافت کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمان 14 فروری کو ایک خطرے کے دن کے طور پر دیکھتے ہیں جب کہ میری سمجھ کے مطابق اس خطرے کو ایک زبر دست موقع میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ امید ہے باقی مسلمان ملک بھی رندھاوا صاحب کی اس تجویز پر عمل کریں گے۔

اب ہم ایک طرف کہتے ہیں کہ فادرز ڈے، مدرز ڈے، یہ ڈے، وہ ڈے، یہ سب مغرب کی چالیں ہیں اور ہمیں ماں باپ سے محبت جتانے کے لیے کسی ایک دن کی ضرورت نہیں ہے، ہم سارا سال یہ کام کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں مغربی کلچر کی تقلید کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور پھر دوسری جانب انہی کے ویلنٹائن ڈے کو ہم ایک اور ڈے منا کر رد کر رہے ہیں۔ مطلب اس بحث کو اسی دلیل سے ثابت کر رہے ہیں جس دلیل کی بنیاد پہ پہلے ہم اسے رد کرتے رہے ہیں۔

ویسے بھی کون سا یہاں ویلنٹائن ڈے منایا جا رہا ہے۔ دو سالوں سے اسلام آباد ہائی کورٹ نے ویلنٹائن ڈے کا گلا پہلے ہی دبا رکھا ہے۔ 2017ء اور 2018ء میں دیے گئے فیصلوں کے مطابق نہ صرف اس دن کی تقریبات پر پابندی ہے بَل کہ میڈیا میں اس دن کی کسی بھی قسم کی تشہیر پر بھی پابندی عائد ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو سلام! اس سے پہلے 2016ء میں صدرِ پاکستان ممنون حسین بھی فرما چکے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے اسلامی روایات سے متصادم دن ہے بَل کہ یہ مغربی اختراع ہے۔

ہندوستان ٹائمز والوں نے بھی اس خبر کو بڑی خبر کے طور پر چھاپا ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش میں پاکستان کے بارے میں عمومی سوچ یہی پائی جاتی ہے کہ نظریاتی طور پر یہ ایک سخت گیر مذہبی ملک ہے جہاں کے لوگ مذہب کے نام پر مرنے مرانے کو عام سی بات سمجھتے ہیں۔ بالی وُڈ فلموں میں جب بھی کوئی پاکستانی کردار دکھایا جائے گا تو کچھ علامتیں ساتھ لازمی چپکائی جائیں گی۔ جیسے اس کی ڈاڑھی ہوگی، اس نے سر پر ٹوپی رکھی ہو گی، شانے پر حاجیوں والا رومال لٹکا رکھا ہو گا، شلوار قمیص پہنی ہو گی، شلوار ٹخنوں سے اونچی باندھی ہو گی اور ہاتھ میں تسبیح بھی نظر آئے گی۔

ہم پاکستانی دیکھنے والوں کو اکثر غصہ آتا ہے کہ بھارت ہمارے بارے میں ایک ہی طرح سے کیوں سوچتا ہے اور کیوں وہ بھارتی لوگوں کے ذہنوں میں پاکستانی مسلمانوں کی ایک ہی مخصوص شبیہ کو راسخ کرتا رہتا ہے حالاں کہ پاکستان میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو روشن خیال ہیں اور پڑھے لکھے بھی ہیں۔

مگر گاہے گاہے جب اس طرح کی خبریں یہاں سے اڑتی رہیں گی تو دنیا ہمارے بارے میں وہی کچھ سوچے گی جو وہ پہلے ہی سوچ رہی ہے۔ ہمارے کُڑھنے کون سا دنیا کی سوچ بدل جانی ہے۔

ایک خبر یہ بھی ہے کہ فضائی سفری سہولیات فراہم کرنے والی پاکستان کی واحد سرکاری کمپنی پی آئی اے کے چیئرمین ایئر مارشل ارشد ملک کا فرمانا ہے کہ پی آئی اے کی فلائیٹس میں اب سے میوزک کی بجائے قصیدۂِ بُردہ شریف چلایا جائے گا۔

امید کرتے ہیں کہ ارشد ملک صاحب کے اس انقلابی اقدام سے پی آئی اے کا خسارہ کم کرنے میں خاطر خواہ کامیابی ملے گی۔

مصدقہ اطلاعات کے مطابق فلم ابھی جاری ہے، آنے والے دنوں میں مزید ‘اچھی’ خبریں آنے کے ٹھوس امکانات موجود ہیں۔

جُڑے رہیے!