پردیسیوں کو انگریزی نہیں آتی

جناب ناصر عباس نیئر کے مضمون سے متاثر ہو کر لکھی گئی تحریر

ایک روزن لکھاری
اصغر بشیر، صاحب تحریر

پردیسیوں کو انگریزی نہیں آتی
(اصغر بشیر)

کہتے ہیں پردیس کاٹنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہ دکھ صرف وہی جانتا ہے جس نے دیکھا ہوتا ہے۔ میں نے اپنی دادی کو ہندوستان میں اپنے بیلوں کی یاد میں روتے دیکھا۔ مجھے کہا کرتی تھیں کہ ان کے بیلوں کی آنکھیں بڑی بڑی تھیں، جب ہم اجڑ کے آنے لگے تھے تو ان بیلوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ مرتے دم تک اپنی جاگتی آنکھوں سے ان گزرے لمحات کو جگاتی رہیں، اور روز آنکھوں سے انہی لمحوں کو ری وائنڈ کر کے دیکھتی رہتیں۔
انہیں پڑھنا لکھنا نہیں آتا تھا۔ آج چند الفاظ سیکھ کر مجھے سمجھ آئی کہ ہماری تعلیم کا جذبات کے ساتھ صرف اتنا تعلق ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو بہتر طور پر بیان کرنا آ جاتا ہے۔ باقی ان پڑھ کے لیے وچھوڑا اتنا ہی مشکل ہے جتنا ایک پڑھے لکھے کےلیے۔ پردیس کیا ہوتا ہے اور سوز وطن کس طرح انسانی سوچ کو پروان چڑھاتا ہے؟ اس سوال کا جواب ناصر عباس نیئر صاحب نے نہایت عمدہ انداز میں انگریزی زبان میں مضمون کی صورت میں دیا۔ میں نے سوچا کہ استاد محترم نے باتیں تو ساری کر دی کیوں نا انہی کی باتیں دہراتے ہوئے اپنی دادی کے بیلوں کے آنسوؤں کو یاد کروں!
انسانی بیانیوں میں پردیس ایک جامع ماخذ کے طور پر سامنے آتا ہے۔ پردیس کسی مخصوص جگہ کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تمام معاشروں میں اپنے اپنے انداز میں موجود رہا ہے۔ اسی کی بنیاد پر انسانی اعمال سرانجام ہوتے رہے ہیں۔ وچھوڑے کا احساس انسان کے اندر مخصوص ذہنی رجحان قائم کرتا ہے جسے نوسٹلجیا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جب کہ وطن کی لوٹنے کی خواہش انسانی اعمال کو مخصوص رخ دیتی ہے۔ بقول سر ناصر عباس نیئر ایک جب وچھوڑا اور وطن کی طرف لوٹنے کی خواہش مجتمع ہوتی ہیں تو انسان اپنا مخصوص آبادیاتی اور نو آبادیاتی بیانیہ طے کرتے ہیں۔ اسی کو بنیاد بنا کر انسانی گروہ مخصوص دعوے دائر کرتے ہیں۔
انسانی ذہن میں وچھوڑا اور سوز وطن دو طرح سے محفوظ ہو سکتا ہے۔ وہ تصور یا خیال میں سے ایک ہو سکتا ہے یا دونوں کے آمیزے سے بنا ہو سکتا ہے۔ تصور عموماً ساکن حالت میں موجود ہوتا ہے جو ایک مخصوص تصویر کو باربار انسانی ذہن میں لاتا ہے اور انسان اسی تصور کو حقیقی روپ میں پانے کے لیے تڑپتا ہے۔ ماضی کے مخصوص لمحے میں جانے کی خواہش انسان کے اندر بار بار جاگتی رہتی ہے جو اپنی انتہائی حالت میں نوسٹلجیا کا روپ اختیار کر لیتی ہے۔ یہ ایک طرف ہمارے اندرمخصوص مقام حاصل کرنے کی خواہش کو زندہ رکھتی ہے تو دوسری طرف حال کی رنگینیوں کو دھندلائے رکھتی ہے۔ یہی سوچ جب اجتماعی طور پر پروان چڑھتی ہے تو احیائے نو کی تحریکیں پروان چڑھتی ہیں۔
دوسری طرف جب وطن کی طرف لوٹنے کی خواہش خیال کی صورت میں ذہن میں قدم جماتی ہے تو اس کی کیفیت متحرک ہوتی ہے۔ یہ خیال وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے اور ایسے مواقع اور حالات کو ڈھالنے کی کوشش میں رہتا ہے جس کے تحت خیال حقیقت کا روپ دھارنے لگتا ہے۔ اردو ادب ان دونوں تصورات سے بھرپور ہے۔
آج کے مابعد جدید دور میں مسائل کی کثیر جہتی سے جہاں وچھوڑے کا تصور بدل گیا ہے وہیں پر سوزِ وطن کا خیال بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے منافع کا ذریعہ بن گیا ہے۔ ایسے وقت میں ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمارا اجتماعی نوسٹلجیا ہمیں بند گلی میں تو نہیں لے جا رہا؟ ہم جس خیال کو حقیقت کا روپ دینے کی کوشش کر رہے ہیں کیا وہ واقعی ہمارا خیال ہے یا ہماری برین واشنگ کی گئی ہے؟ ہمیں اپنے تصورات اور خیالات کو تہذیبی نرگسیت سے نکالنا ہوگا۔ ہمیں خود طے کرنا ہوگا کہ کیا ہماری آنے والی نسلیں بھی اپنے گم شدہ بیلوں کو ترستی رہیں گی یا انہیں ہم بہتر وچھوڑا اور گھر دے سکتے ہیں؟ ہمیں اپنے آپ سے جذبات کی زبان میں بات کرنا ہوگی کیونکہ ہم پردیسیوں کو انگریزی نہیں آتی۔