ہندی سینما اور طوائف : آغاز سے 1950 کی دہائی تک

ہندی سینما اور طوائف : آغاز سے 1950 کی دہائی تک
 ہندی سینما اور طوائف

(ذوالفقار علی زلفی)

سماجی سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ انسانی معاشرے میں جسم فروشی کے پیشے نے ذاتی ملکیت کے تصور اور پدر شاہی سماجی نظام کی کوکھ سے جنم لیا ہے. طوائف کو تقریباً ہر انسانی سماج کے مردوں نے دن کی روشنی میں دھتکارا اور رات کی تاریکی میں گلے سے لگایا۔

طوائف، اس کی زندگی، احساسات، جذبات، دنیا کو دیکھنے کے نکتہِ نظر اور سماج میں اس کے مقام کو دنیا کی تقریباً تمام زبانوں کے ادب کو متاثر کیا اور اس موضوع پر خوب صورت اور غلیظ دونوں قسم کا ادب تخلیق کیا گیا.

اردو ادب میں بھی طوائفوں کو لے کر متعدد ادب پارے تخلیق کیے گئے. سعادت حسن منٹو تو اس کوچے کے “بدنام ترین آوارہ گرد” ہیں. سینما کا تعلق بھی چوں کہ سماج اور ادب سے ہے اس لیے فلم سازوں کا اس پیشے سے منسلک اسرار، گندگی، منافقت اور درد و الم سے متاثر ہونا اور اس موضوع پر فلمیں بنانا کوئی انوکھی شئے نہیں.

ہندوستانی سینما نے اپنے قیام کے چند سال بعد ہی اس موضوع کی جانب توجہ دینا شروع کر دی. میری معلومات کے مطابق اس موضوع پر پہلی فلم 1928 کی خاموش فلم “وشو موہنی” ہے جو سردار چندو لال شاہ اور مس گوہر کی تخلیق ہے. اگر اس فلم سے پہلے بھی کوئی فلم بنی ہے تو میں لاعلم ہوں. “وشو موہنی” میں گوہر نے تین بہنوں کا کردار نبھایا ہے. اس کے بعد طوائف اور اس کا کوٹھا ہندی سینما کا حصہ بنتے گئے اور اس کے مختلف پہلوؤں کو فنی چابکدستی کے ساتھ صاف ستھرے اور سلجھے ہوئے انداز میں پیش کیا گیا. تاہم یہ امر بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ طوائف کو گلیمرائز کر کے فلموں کی صورت مارکیٹ میں بیچنے کی کامیاب و ناکام کوششیں بھی کی گئیں ہیں.

زیرِ نظر موضوع طوائفوں پر مبنی صحت مند و سنجیدہ فلموں سے متعلق ہے لیکن آخر میں چند ایسی فلموں کے نام بھی دیے گئے ہیں جن میں صرف منافع سے مطلب رکھا گیا ہے.

طوائفوں پر مبنی جن فلموں کا تعارف دیا گیا ہے یہ وہ فلمیں ہیں جو میری نظر سے گزری ہیں. قوی امکان ہے کہ ان کے علاوہ بھی اچھی فلمیں موجود ہوں. سو اس فہرست کو حتمی نہ سمجھا جائے.

**********

آدمی:

پربھات فلمز کے بینر تلے 1939 کی فلم “آدمی” لیجنڈ ہدایت کار وی شانتا رام کی تخلیق ہے. اس فلم کو ہندی سینما میں ایک انقلابی قدم کا درجہ دیا جاسکتا ہے جس نے مدتوں فلم انڈسٹری کو اپنے سحر میں باندھے رکھا اور متعدد فلموں میں اس فلم کے مکالموں اور مناظر کی کاپی کی گئی ہے.

اس فلم میں عورت کی مجبوری، محبت، بے بسی، لاچاری اور دکھ کو متاثر کن انداز میں پیش کیا گیا ہے. سماج اور اس کے بے رحم اقدار و روایات ایک عورت (شانتا ہبلیکر) کو طوائف بننے پر مجبور کرتے ہیں. طوائف بنتی عورت کو ایک پولیس کانسٹیبل (شاہو مودک) سے محبت ہوجاتی ہے. طوائف کی بے غرض نسائی محبت سے مرد کی زندگی بدل جاتی ہے اور وہ اس سے شادی کر لیتا ہے. طوائف سے شادی، چھی!. اس سماجی “چھی” سے فلم اپنے کلائمکس کی جانب بڑھتی ہے.

مرکزی کرداروں کے علاوہ معاون اداکاروں میں سندری بائی، رام مراٹھے اور الہاس نے فلم میں لاجواب اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں.

پرکھ:
ہندی سینما میں سہراب مودی کا ایک منفرد مقام ہے. اسی طرح ان کی ہدایت کاری کے شاہکار “پرکھ” کا بھی سماجی موضوعات پر بننے والی فلموں میں ایک الگ حیثیت ہے.

1944 کی “پرکھ” ایک طوائف کے ماں کی بے بسی اور ناامیدی کی کہانی ہے جسے انتہائی باریکی کے ساتھ دردناک انداز میں پیش کیا گیا ہے. اس فلم کو اگر اداکارہ مہتاب کی بہترین فلم قرار دیا جائے تو شاید ہی غلط ہو.

انہونی:
معروف سوشلسٹ دانش ور خواجہ احمد عباس کی فلم “انہونی” دو بہنوں کی کہانی ہے جن میں سے ایک مہذب گھرانے کا فرد ہے جب کہ دوسری حالات کے جبر کے باعث طوائف بن جاتی ہے. دونوں بہنوں کے متضاد کرداروں کو نرگس نے بڑی خوب صورتی سے نبھایا ہے.

دونوں بہنوں کو ایک غریب اور اصول پسند وکیل راج کپور سے محبت ہوجاتی ہے. محبت، ہمدردی اور فتح و شکست کے تصورات کی آمیزش سے نفسیاتی کشمکش کا جنم ہوتا ہے. مختلف پسِ منظر کی حامل بہنوں کی متضاد زندگی اور طرزِ فکر کو جہاں خواجہ احمد عباس نے دلکش انداز میں فلمایا ہے، وہیں نرگس نے اداکاری کے دریا بہا دیے ہیں.

اس فلم کی کہانی بھی خواجہ احمد عباس کی لکھی ہوئی ہے جب کہ اسکرین پلے محسن عبداللہ کے قلم سے نکلا ہے.

پیاسا:

ہدایت کار و اداکار گرودت کی فلم “پیاسا” یوں تو ایک شاعر ( گرودت) کی کہانی ہے جو مردہ پرست سماج کے ہاتھوں بے قدری کا شکار ہے مگر یہ ایک طوائف کی بھی داستان ہے. طوائف کے کردار میں سنجیدہ اداکارہ وحیدہ رحمن، شاعر کے دکھوں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر اس کی زندگی کے زہر کو خود پی جاتی ہے.

اس فلم میں ساحر لدھیانوی کی نظم “جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں” کے ذریعے طوائفوں کو حوا، یشودھا، رادھا اور زلیخا کی بیٹی قرار دے کر ایک طرف مردانہ سماج کی منافقت پر گہرا طنز کیا گیا ہے تو دوسری جانب عورت کی بے توقیری کے مسئلے کو بھی سنجیدگی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے.

1957 کی اس فلم کو ہندی سینما سمیت دنیا بھر میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.

سادھنا:
“عورت نے جنم دیا مردوں کو
مردوں نے اسے بازار دیا”

1958 کی فلم “سادھنا” سماجی موضوعات پر فلمیں بنانے کی شہرت رکھنے والے ہدایت کار بی.آر چوپڑا کی تخلیق ہے جس میں وجینتی مالا، سنیل دت اور لیلا چٹنس نے اداکاری کے رنگ بھرے ہیں.

طوائف (وجینتی مالا) بازار میں بکنے کی بجائے شادی کر کے ایک عزت دار گھرانے کا فرد بننے کی خواہش رکھتی ہے. اس کی اس خواہش کو، خانہ دار خاتون بننے کی امنگ کو، پدر شاہی سماج کس ڈھنگ سے دیکھتا ہے، یہی اس فلم کا مرکزی خیال ہے.

اس فلم پر وی شانتا رام کی فلم “آدمی” کے اثرات نمایاں ہیں. گو کہ “سادھنا” سماج اور طوائف کے پیچیدہ رشتے کا وہ گہرا تجزیہ پیش نہیں کرتی جو قبل ازیں “آدمی” میں پیش کر چکی ہے مگر اس تقابلی کمزوری کے باوجود یہ ایک بہترین سماجی فلم ہے جسے ساحر لدھیانوی کی کاٹ دار و دلربا شاعری نے اوجِ کمال تک پہنچا دیا ہے.

دوسرا حصہ: ہندی سینما اور طوائف (2)
تیسرا حصہ: ہندی سینما اور طوائف (3)