کہانی پانچ ادبی درویشوں کی

مصنف کا نام
اورنگ زیب نیازی، صاحب مضمون

کہانی پانچ ادبی درویشوں کی

از، اورنگ زیب نیازی

آغاز کرتا ہوں قصے کا، ذرا کان دھر کر کہانی سنو؛ شہر کی سر گزشت میری زبانی سنو! اور دل اجازت دے تو منصفی بھی کرو۔ سیر میں پانچ درویش کی لکھا ہے کہ عالم میں ایک شہر تھا بے مثال۔ رہنے والے تھے اس کے انتخابِ روز گار۔ شاعرِ بے بدل اور نثر نگار۔ کیا عالم اور کیا فن کار۔ خطاط ، مصور، نقش نگار۔ ایک سے بڑھ کر ایک مغنی اور ایک سے بڑھ کر ایک موسیقار۔

چہار دانگ عالم میں اس کا شہرہ تھا گویا علم و فن کا مرکز و گہوارہ تھا۔ ایک شام دور دراز کے خطوں سے پانچ درویش اس شہر میں وارد ہوئے۔ اور عین شہر کے وسط میں بنیاد ایک خانقاہ کی رکھی۔ پانچوں کے پانچوں اپنے فن مین یکتا اور یگانۂِ روز گار تھے۔ زبان پہ قادر، صاحبِ مطالعہ اور صاحبِ اسلوب تھے۔

ان میں سے ایک علم وادب کے پارکھ تھے یعنی نقاد تھے، دوسرے شاعر، تیسرے افسانہ نگار، چوتھے عالمی ادب کے مترجم اور پانچویں صحافی و کالم نگار۔ گو کہ عالمِ درویشی میں غرق تھے مگر عالمِ فانی کی آسایشوں سے بے گانہ نہ تھے۔ واسطے عیش و آرام کے سامان وافر کی فکر بھی دامن گیر تھی۔ ایک لڑکوں کے کالج کا سربراہ ہوا، دوسرا جامعہ میں معلم کے عہدے پر فائز تھا، تیسرا سرکاری ملازم، چوتھا معروف اخبار سے وابستہ اور پانچواں بنک کا اعلیٰ عہدیدار۔

صبح سویرے درویشی کا چولا اتار، ایک نئی شخصیت اوڑھ ، کام کو نکلتے، دَھن کماتے، پی۔آر بڑھاتے اور شام کو واپس آ کر پرانی شخصیت اوڑھ لیتے۔ ان دو رنگوں نے مل کر خوب رنگ جمایا۔ رفتہ رفتہ رنگ چڑھنے لگا اور ان کا اثر و رسوخ بڑھنے لگا۔ حلقۂِ ارادت وسیع ہوا، کالجوں کے اساتذہ، یونیورسٹیوں کے طلبا، دفتروں کے ملازم اور اخباروں کے صحافی ان کادم بھرنے لگے، شعرو ادب سے دل چسپی رکھنے والے افسر شاہی کے کارندے نعل بندی کرنے لگے، یوں اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں تک رسائی کی سبیل بھی ہونے لگی۔

اب شہر کا ہر مقام، ہر مجلس ان کی دسترس میں تھی، کوئی ادبی تقریب ہو یا کسی کتاب کی تقریب رونمائی، سرکاری ٹی وی کا مشاعرہ ہو یا پانچ ستارہ ہوٹل میں عالمی کانفرنس، یہ درویش پانچوں کے پانچ یا تین یا چار ضرور موجود ہوتے۔

اب نقاد کا قلم اٹھتا تو صرف اپنے دوستوں کے قصیدے لکھتا۔ ان کی نظر میں اردو کا سب سے بڑا افسانہ نگار ان کا دوست ہے، اردو کا سب سے بڑا نظم گو شاعر ان کا دوست ہے، اردو کا سب سے بڑا غزل گو شاعر ان کا دوست ہے، اور اردو کا سب سے بڑا مترجم ان کا دوست ہے۔

افسانہ نگار کی باری آتی ہے تو وہ اردو کے سب سے بڑے نقاد، شاعر اور مترجم کی دستار اپنے انہی دوستوں کے سر پر سجاتے ہیں، مترجم لکھنے بیٹھتے تو انھیں اپنے دوستوں کے سوا اردو میں کوئی بڑا نقاد، افسانہ نگار اور شاعر نظر نہ آتا اور شاعر بات کرتے تو تان اپنے ہی دوستوں پر آکر ٹوٹتی۔

اس خانقاہ کی شہرت پھیلتی گئی اور انھیں شاگردوں، خلیفوں، ارادت مندوں اور مریدین کی ایک بڑی تعداد بھی میسر آ گئی جن کی آنکھوں پر عقیدتوں کی پٹی بندھی تھی۔ اختلاف برداشت نہیں، کسی دوسرے کو ماننے کو تیار نہیں۔ اگر چِہ پھولوں کا یہ تختہ ادب کے صحن میں کھلا مگر بو اس کی اس قدر گرم اور تیز تھی کہ اس نے زندگی کے ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ عالم کا یہ رنگِ بے رنگ دیکھ کر دوسروں کو بھی تشویش ہوئی۔

ہر کوئی اپنے تئیں آنے والے وقتوں میں خود کو اس سلطنت کا بادشاہ، ولی عہد سمجھے بیٹھا تھا۔ بات بنتی نظر نہ آئی تو سب دفعتاََ کمریں باندھ تیار ہوئے اور درویشوں کا رستہ اختیار کیا؛ پانچ کی منڈلی بنائی؛ اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی خانقاہ تعمیر کرائی، دکان چمکائی اور لگے منجن بیچنے۔

غرض عالم میں ایسا تہلکہ پڑا کہ شہرِ ادب خانقاہوں میں تقسیم ہوا، محنت، لگن، خلوص اور دیانت داری مُنھ چھپائے رخصت ہوئی اور کہیں دور جا کر قیام کیا؛ اس کی جگہ اقربا پروری، تعصب اور جانب داری نے لے لی۔ یہ شہرِ بے مثال یوں برباد ہوا، پانچوں درویش اپنا اپنا وقت گزار، عالمِ فانی کو چھوڑ عالمِ باقی کو سدھارے مگر جو تخم بویا وہ اب ایک تناور درخت بن کر اپنا پھل دے رہا ہے۔

اے رفیقو!یہ سرگزشت تھی اس شہرِ بے مثال کی جو حضوری میں آپ کی میں نے کہہ سنائی ہے۔ (قصہ تمام ہوا۔۔۔میر امن دہلوی اور مولانا محمد حسین آزاد کا شکریہ)

اخلاقی نتیجہ:

ادب ہو یا سماج کا کوئی اور شعبہ، اختلاف رائے انسان کا بنیادی حق ہے۔ اختلاف مکالمے کو جنم دیتا ہے اور مکالمہ انسان کی درست سمت میں راہنمائی کرتا ہے۔ صورت حال وہاں خراب ہوتی ہے جب اختلاف ذاتی دشمنی اور مخالفت برائے مخالفت کا رخ اختیار کر لیتا ہے۔ اردو ادب کے کلاسیکی عہد میں معاصرانہ چشمک کی کئی مثالیں موجود ہیں۔

مخالفین کی ہجو لکھنا، ان پر پھبتیاں کسنا اور مشاعروں میں ان کے اشعار کو بگاڑنا عام رواج تھا۔ ایک استاد کے شاگرد اور ارادت مند مل کر مخالفین کے خلاف محاذ کھول دیتے اورا ن پر پے درپے حملوں کا سلسلہ جاری رہتا۔ یہ معاملہ صرف اردو کے ساتھ ہی نہیں رہا، عالمی ادب سے بھی اس کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔

کئی ادبی تحریکیں، رجحانات اور رویے نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر شروع ہوئے اور ادب کو مالا مال کر گئے۔ ہمارے ہاں ترقی پسند تحریک اورحلقۂِ ارباب ذوق کا نظریاتی اختلاف ایک صحت مند رویے کے طور پر سامنے آیا۔ اختلاف علمی سطح پر ہونا چاہیے نہ کہ ذاتی سطح پر اگر آپ دوسروں پر تنقید کرتے ہیں تو اپنے اندر تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ بھی پیدا کریں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ادب کسی کی جاگیر نہیں، نہ ادب کوئی خانقاہ ہے، یہاں عقیدتوں کا دخل ممکن نہیں۔