کیا اکیسویں صدی میں بھی فیض مقبول شاعر ہیں؟

کیا اکیسویں صدی میں بھی فیض مقبول شاعر ہیں؟

از، رفیق سندیلوی

فیض احمد فیض کا ورود ہماری شعری تاریخ کا ایک واقعہ ہے جسے ادبی اور سماجی تناظر میں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اوّل اوّل فیض کی شخصیت اور شاعری کی تعبیر میں جذباتیت

Reviewer: Rafiq sandelvi

سے کام لیا گیا لیکن گزشتہ چند برسوں میں فیض کی شخصیت اور شاعری درست سیاق و سباق میں سامنے آئی ہے۔ عقیدت اور وابستگی کے ٹانکے اُدھڑگئے ہیں۔ نظریے کا روغن اُتر گیا ہے اور اندر سے جو اصل فیضؔ برآمد ہوا ہے اُس کی مقبولیت کے راز اور اُس کی شاعری و شخصیت کے طلسم یا بھیدکو زیادہ بہتر انداز میں سمجھنے کی صورتیں پیدا ہوئی ہیں۔
’’پرورشِ لوح و قلم ۔ فیض: حیات اور تخلیقات‘‘ ڈاکٹر لدمیلاوسیلیؤا کی ایسی ہی ایک کتاب ہے جو اصل فیض ؔ کو معقول و معتدل معروضیت کے ساتھ سامنے لاتی ہے۔ مطلب یہ کہ لدمیلا نے نہ تو تجزیے کو قصیدہ گوئی سے آلودہ کیا ہے اور نہ ہی ادبی تاریخ کے حقائق کو پامال کیا ہے۔ اُنھوں نے اپنی کتاب کے ہیرو کو شخصی و شعری سطح پر اُس کی اپنی انفرادیت اور مقبولیت کی بنا پر سربلندکیا ہے جس کا وہ اپنے دور میں صحیح معنوں میں حق دار بھی تھا۔ لدمیلا نے فیضؔ کی شخصیت اور شاعری کے اُن عناصر و اجزا کی تحلیل کی ہے جن میں اُن کی انفرادیت کا اعجاز اور مقبولیت کا اسرار پنہاں تھا مگر اِس تحلیل میں لدمیلا نے بڑی فن کاری کے ساتھ اشتراکیت کے انجام پر رائے زنی کی ہے جو فیض ؔ
کی شاعری کی بُنیاد میں شامل تھی اور اس تناظر میں فیض ؔ کی شعری پرواز کا احوال بھی کھول کر بیان کر دیا ہے، یوں کہ اُن کے مطالعے پر معاندانہ یا محبوبانہ کا ٹھپا نہیں لگایا جا سکتا۔ لدمیلا کی ذہانت ، متانت اور معروضیت کو ہندوستان کے اہم نقاد شمیم حنفی اور روس کی مصنفہ ایوگینیا وانینا نے بھی بجاطور پر سراہا ہے:
’’فیضؔ کو لدمیلا نے قریب سے دیکھا اور جانا ہے اور اُنھوں نے فیضؔ کا تمام کلام بہت توجّہ سے پڑھا ہے لیکن فیضؔ سے قربت کے باوجود اُن کی نگاہیں خیرہ نہیں ہوئیں۔ اِسی لیے اُن کے مطالعے میں رچی ہوئی سنجیدگی اور معروضیت ملتی ہے۔ ‘‘ (شمیم حنفی)
اپنی کتاب کے ہیرو سے طویل عرصے تک واقفیت رکھنے اور اُن کی شخصیت اور شاعری سے بہت متاثر ہونے کے باوجود مصنفہ نے جو سنجیدہ اور گہرا تخلیقی کام سرانجام دیا، وہ ہر لحاظ سے بالکل معروضی ثابت ہوتا ہے۔
(ایوگینیا وانینا)
لدمیلا روسی مستشرق کے طور پر پہچانی جاتی ہیں۔ وہ ماسکو کے ادارۂ شرقیات میں سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔ اُنھوں نے ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی سے اُردو اور ہندی ادب میں ایم اے لسانیات کیا اور سوویت یونین کی اکیڈمی آف سائنس سے اُردو لٹریچر میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ایک عرصے تک اُنھوں نے ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی میں لیکچرار کے طور پر کام کیا۔ وہ ماسکو ریڈیو کی اُردو سروس سے بھی منسلک رہ چکی ہیں جہاں اُنھوں نے براڈ کاسٹر، ٹرانسلیٹر اور رائٹر کے طور پر کم و بیش پچیس برس تک مسلسل خدمات انجام دیں۔ وہ اب تک اُردو کے متعدد فن پاروں کو روسی زبان میں منتقل کر چکی ہیں جن میں غالبؔ کااُردو کلام، ابوالکلام آزاد کی ’’غبارِ خاطر‘‘کے منتخبہ خطوط اور جوگندرپال کا ناول ’’نادید‘‘ اہمیت کے حامل ہیں۔ اُردو زبان کی اِنھی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے ۲۰۰۵ میں اُنھیں ستارۂ امتیاز کے اعزاز سے نوازا۔
واضح رہے کہ ادارۂ شرقیات کی فرمائش پر لدمیلا نے ۲۰۰۰ میں اُردو ادب کے روسی طلبہ کے لیے روسی زبان میں فیضؔ پر یہ کتاب تصنیف کی جس کی اشاعت روس میں ۲۰۰۲ء میں عمل میں آئی۔ زیرِ نظر اُردو ترجمہ اکسفورڈ یونیورسٹی پریس ، کراچی سے ۲۰۰۷ء میں طبع ہوا۔لدمیلا کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے اِس کتاب کے اُردو ترجمے کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن حیدرآباد دکن کے روسی شناس اور ادارۂ ادبیات اُردو کے شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ کے رُکن اُسامہ فاروقی کا خط موصول ہوا جس میں اُنھوں نے کتاب کو سراہا اور ترجمے کی خواہش ظاہر کی۔لدمیلا نے اِس خواہش کو کتاب کی پذیرائی پر محمول کیا لیکن اُس وقت وہ حیران رہ گئیں جب حیدرآباد دکن ہی سے

اُنھیں پروفیسر مغنی تبسّم کا ماہنامہ ’’سب رس‘‘ موصول ہوا جس میں کتاب کے پہلے باب کا ترجمہ شامل تھا۔اِس ماہنامے میں نو ابواب کاترجمہ قسط وار شائع ہوا کہ ناگاہ اُسامہ فاروقی علالت کے باعث انتقال کر گئے۔ مصنفہ نے دوستوں کے اصرار پر خود ہی باقی پانچ ابواب کا ترجمہ کیااور یوں اُردو میں کتاب کے منصۂ شہود پر آنے کی سبیل پیدا ہوئی۔ لدمیلا نے لکھا ہے کہ پہلے نو اورآخری پانچ ابواب کے ترجمے کے ڈھنگ اور اسلوب میں کافی بڑافرق نظر آئے گا۔مصنف جب خود ہی مترجم ہو تو متن میں تصرف کی صورتیں بھی پیدا ہو سکتی ہیں لیکن اِس کے بارے میں تو ظ۔ انصاری یااُسامہ فاروقی جیسا کوئی روسی زُبان کا ماہر ہی بتا سکتا ہے البتہ اِس میں شک نہیں کہ جب نو ابواب کے بعد ترجمے کی زمام دوسرے مترجم کے ہاتھ میں آتی ہے تو ترجمے کا مزاج اور انداز بدل جاتا ہے لیکن کتاب کے دلچسپ واقعات اور تجزیے کی روانی قاری کو اِس فرق کی طرف زیادہ مائل نہیں ہونے دیتی تاہم مجھے اسامہ فاروقی کے ترجمے میں زیادہ خوبیاں دکھائی دی ہیں۔

کتاب کی ابواب بندی پر ایک نظر ڈالیں تو فیض ؔ کی شخصیت، حیات اور شاعری کا پورا خاکہ ذہن میں آ جاتا ہے۔اُردو کے وہ قارئین جو فیضؔ میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اُن پر چھپنے والی کتابوں کامطالعہ کرتے رہتے ہیں، اُنھیں یہ خاکہ زیادہ پُرلطف محسوس ہو گا۔ وہ بخوبی اندازہ لگا سکیں گے کہ مصنفہ نے فیض ؔ کے بارے میں میسّر سوانحی مواد کو کس قدر سلیقے کے ساتھ عنوانات میں تقسیم کیا ہے اور زمانی تناظر میں اِس مواد کو فیضؔ کی شاعری سے جوڑ کر تجزیے کی منزلوں سے گزارا ہے۔ باب اوّل کا عنوان ’’افسانہ اور حقیقت‘‘ ہے جس میں فیض ؔ کے والد سلطان محمد خان کی شخصیت و قسمت کا احوال ڈرامائی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ احوال افغانستان، لندن اور سیالکوٹ کے بیچ پھیلا ہوا ہے جو فیض کی ولادت سے آکر جُڑ جاتا ہے۔

لڑکپن،جوانی، آغازِ سفر، اپنے پرائے یعنی دوسرے باب سے پانچویں باب تک فیضؔ کی شخصی و ادبی اور خانگی و سیاسی پیش رفت سے منسلک واقعات کو اِس طرح بیان کیا گیا ہے کہ فیضؔ کی ذات کا شرمیلاپن، شعروادب سے رغبت، ترقی پسند تحریک کا عمل دخل،حلقہ اربابِ ذوق کی متوازی کشاکش ، فیض ؔ کی ذ ہنی ابتلا اور اشتراکیت کی طرف اُن کے شدید میلان سے وضع ہونے والا پورا منظر نامہ سامنے آ جاتا ہے۔ چھٹے باب ’’ایلس‘‘ کا مرکزی نکتہ محبت اور غنائیت کا وہ احساس ہے جو فیضؔ اور ایلس کی شادی پر منتج ہوا اور فیضؔ کے لیے ایلس کی محبت شاعرانہ وجدان کا ایک نیا سرچشمہ ثابت ہوئی۔ اِس ضمن میں لدمیلا نے فیضؔ کی انتہائی دلکش نظم ’’مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ‘‘ کا ذکر بھی کیا ہے جس کا تخاطب ایلس کی طرف تھا۔ یہی وہ تخاطب تھا جس کے تحت اِس نظم میں رومان پسندی اور حقیقت پسندی کے پُر معنی امتزاج کی انوکھی خصوصیت پیدا ہوئی۔ ساتویں باب ’’نقش فریادی‘‘ میں فیض ؔ کے پہلے مجموعۂ کلام کے امکانات پر بحث کر کے فیض ؔ کے بلند آہنگ اور گونجتے ہوئے لہجے کی وضاحت کی گئی ہے، اِسے پیدائشی کے بجائے اکتسابی کہا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ فیضؔ کی سماجی اور سیاسی موضوعات کی حامل نظموں میں یہی لہجہ حاوی رہا جب کہ فیضؔ کی غنائی نظموں میں شاعر کے شخصی واجتماعی جذبے کی گہرائی اور معنی خیزی شامل رہی۔

اِس ضمن میں لدمیلا نے فیض ؔ کی متعدد نظموں پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ خاص طور پر ’’تنہائی‘‘ کا تجزیہ ساخت ، تلازمۂ خیال اور صوت و آہنگ یعنی تشکیلِ نظم کے اہم شعری وسائل کی بنیاد پر کیا ہے اور قاری کو اِس نظم کے غنائی ہیرو کی نااُمید کر دینے والی تنہائی میں مکمل طور پر شرکت کرنے کا موقع مہیا کیا ہے۔ آٹھویں باب ’’فوج‘‘ میں بتایا گیا ہے کہ فیض ؔ نے برطانوی ہند کی فوج میں ملازمت کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اِس سلسلے میں لدمیلا نے فیض کا یہ بیان درج کیا ہے کہ ’’تین طرف سے فاشسٹوں کا ریلا یعنی مشرق سے برما، مغرب سے شمالی افریقہ اور شمال سے جنوبی روس کی طرف بڑھنے لگا اور اپنا دیس بھی اِس سہ شاخہ یورش کی زد میں نظر آنے لگا تو میں نے ہندوستانی فوج میں ملازمت اختیار کر لی۔‘‘وجہ یہی تھی یا کوئی اور،فیضؔ کے فوج میں جانے کا معاملہ مزید تحقیق و تجزیہ کا متقاضی تھا تاہم اِس باب میں لدمیلا نے فیضؔ کی ذ ہنی کیفیات کے حوالے سے اُن کی شاعری میں ہندوستان کی ذلّت و محکومی، ظلمتِ شب کے احوال اور آزادی کی طلب جیسے موضوعات کو نشان زد کیا ہے اور تأثر دیا ہے کہ فیضؔ اُمنڈتی ہوئی تیرگی میں بھی صبحِ نو کی پیش بینی کیے بغیر نہیں رہتے۔ اگلے تین ابواب فیض کی گرفتاری،راولپنڈی سازش کیس کے جملہ پہلوؤں،جیل کی فضا، قیدِ تنہائی اور اِس ساری صورت حال میں اُن کی حبسیاتی شاعری کو زیرِ بحث لاتے ہیں۔ ’’اسیری کا کلام‘‘ میں لدمیلانے بطورِ خاص فیضؔ کی دو غزلوں کے شعری پیکروں اور استعاروں میں ملفوف محبوب کی ذات سے جُڑے ہوئے رومانی اور سیاسی و حبسیاتی مفہوم کو بڑے قرینے سے اجاگر کیا ہے۔اِن غزلوں کے مطلعے یہ ہیں:

روش روش ہے وُ ہی انتظار کا موسم
نہیں ہے کوئی بھی موسم بہار کا موسم

تُم آئے ہو، نہ شبِ انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے

’’منٹگمری سے ماسکو تک‘‘ اور ’’فیضؔ اور سوویت یونین‘‘میں روس میں فیضؔ کی آمدورفت، اُن کی مقبولیت، افروایشیائی مصنفین کی تحریک میں اُن کی سرگرم شرکت، لینن انعام، ماسکو میں اُن کا قیام اور روسی ادباو شعرا سے اُن کی ملاقاتوں کا قصّہ بیان کیا گیا ہے۔’’مرے دل مرے مسافر‘‘ آخری باب ہے جس میں ۱۹۷۱ء میں تقسیمِ پاکستان کے المیے سے لے کر فیضؔ کی زندگی کے نقطۂ اختتام اور اِس زمانے میں اُن کی شاعری کی نوعیت اور دائرۂ کار پر ا ظہارِ خیال کیا گیا ہے۔

اِسی باب میں لدمیلا نے رجائیت کو مجموعی طور پر فیضؔ کی شاعر ی کاماحصل قرار دیا ہے مگر اشتراکی نظام کی شکست اور فیضؔ کے شعری پیکروں میں سموئی ہوئی اِس نظام کی آئیڈیالوجی کی تفہیم کے بارے میں تشویش کااظہاربھی کیا ہے۔بلا شبہ اِس تشویش میں کوئی کلام نہیں۔آئیڈیالوجی کا باریک بیں تجزیہ آسان نہیں ہوتا۔فیض کا ذہن جس سیاسی اور شعری ماحول میں وضع ہوا تھا،اس میں کسی تشکیل شدہ آئیڈیالوجی کے تضادات کو سمجھنااور اس کی دبائی گئی شکلوں کو پہچاننا یا deconstructکرنا اُن کے لئے ممکن ہی نہیں تھا۔ فیض آئیڈیالوجی میں اسیر ایک ایسے شاعر تھے جن کے لئے آئیڈیالوجی ایک قدر بن گئی تھی۔ تلخ تبصرہ تو یہی کیا جاسکتا ہے کہ فیضؔ منشور کی اطاعت اور فہم کے جبر میں مبتلا رہے یا شخصی و فکری انہدام کے ڈَر نے فیضؔ کو حقائق سے چشم پوشی اختیارکرنے پرمجبور رکھا۔ اِس حوالے سے چند اقتباسات دیکھتے چلئے جو لدمیلا کے معروضی طریق کار کو بھی سامنے لاتے ہیں:

’’آج مہ و سالِ آشنائی‘‘ کی ایک اہمیت تو یہی ہے کہ فیض احمد فیضؔ کے قلم کی ایک یادگار ہے اور اِس ملک کی ایک جزوی تصویر
ہے جو اَب نیست و نابود ہو چکا ہے۔ اِس کتاب میں بہت سی اچھائیوں کی تصویر کشی کی گئی ہے جس پر سوویت یونین کو بجا طورپر فخر تھالیکن اُن برائیوں کی طرف ہلکا سا اشارہ بھی نہیں کیا گیا جو کئی برس بعد ، ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کی شکست و ریخت کاباعث بنیں۔ اِس لحاظ سے ’’خوبصورت پس منظر‘‘ اور ’’فن کار کی جادوئی رنگ آمیزی‘ ‘ پر آج تلخ تبصرے ہی کیے جا سکتے ہیں۔‘‘

’’فیض ؔ نے بیسویں صدی کے اواخر میں وفات پائی۔ کیا اکیسویں صدی میں اِس منفرد شاعر کا کلام معروف اور مقبول رہے گا؟….. ہر نئی نسل شعرائے اسلاف کا کلام اپنے طریقے سے پڑھتی ہے ۔ اِس کا اپنا ذوق اور اپنی ترجیحات ہوتی ہیں تو پھر فیضؔ کے شاعرانہ پیغام اور شعری پیکروں میں سموئے ہوئے اُن کے نظریات اور خیالات کے بارے میں قارئین کی نئی نسلیں کیا کہیں گی؟ فیض کے اشعار کو وہ کس طرح سمجھیں گے؟ اَب تو واضح ہو چکا ہے کہ وہ سیاسی اور سماجی قدریں جو فیضؔ صاحب کے لیے اوّلین اہمیت رکھتی تھیں، تاریخ کی کسوٹی پر پوری نہیں اُتریں۔ افروایشیائی ادیبوں کی تحریک بھی جس کی حوصلہ افزائی کا اور ہر طرح کی مدد کا سرچشمہ اشتراکی نظام تھا، اِس نظام کی شکست کے ساتھ ہی ختم ہو گئی اور فیض احمد فیضؔ تو اِس تحریک کے ایک بانی اور راہنما تھے۔‘‘

’’یہ مفروضہ غلط معلوم نہیں ہوتا کہ فیضؔ کے آخری دور کے کلام کی بنیاد میں اُن کی شاعرانہ حس کارفرما ہوئی جس نے اُن کو دنیا میں آنے والے تغیرات کا احساس دلایا۔ ایسے تغیرات کاجن کا خیال اُس زمانے میں کسی سوویت شہری کو خواب میں بھی نہیں آ سکتا تھا اور جو فیضؔ صاحب کے انتقال کے سات سال بعد رُونُماہوئے۔ اُن کو اس بات کا شدید احساس ہونے لگا کہ اُن کے نظریاتی نصب العین کی بنیاد اتنی مضبوط نہیں جتنی پہلے معلوم ہوتی تھی۔ بے شک اُن کے لیے یہ ایک بڑا ذاتی المیہ تھا۔ باالفاظِ دیگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج اکیسویں صدی کے اوائل میں فیض احمد فیضؔ کےآخری دور کے کلام میں جو سوالیہ یا شکّی لہجہ اور ڈرامائی اور کبھی المیاتی رنگ بھی نظر آتا ہے وہ بیسویں صدی کے اواخر کے عالم گیر تغیرات کا اور خاص طور سے اشتراکی نظام کی شکست کا مبہم سا عکس ہے۔ فیضؔ کی شاعری پر گفتگو کسی قنوطی نقطے پر ختم کرنا قطعی ناجائز ہے کیونکہ آخری کچھ برسوں کا رنگ فیضؔ کی شاعری کی بنیادی نمائندگی نہیں کرتا۔ فیضؔ صاحب کی طبیعت میں رجائیت اور اُمید پسندی غالب تھیں‘‘

لدمیلا کے طریق کار کو سامنے رکھیں تو اُن کے تجزیے میں مطا لعۂ احوال یعنی Case History سے ملتے جلتے انداز کی جھلکیاں نظرآتی ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ بعض پہلوؤں سے یہ کتاب ایک ایسے شاعرکے مطا لعۂ اِحوال پر مبنی ہے جس کی ایک حیثیت دردمند اور جمال پسندشاعر کی تھی تو دوسری حیثیت ایک اشتراکی راہنما کی تھی ،وہ اشتراکی رہنما جس نے اپنی شاعری اور شخصیت کی تعمیرمیں اُن سیاسی اور سماجی قدروں کو اوّلیت دی جنھیں بالآخر تاریخ نے رد کر دیا۔ لدمیلا نے اِن دونوں حیثیتوں کے امتزاج اور تصادم پربھر پور روشنی ڈالی ہے اورآنے والے دور میں فیضؔ کی تفہیم اورمقبولیت کے ضمن میں نئی نسل کے شبہات و سوالات کو بھی جگہ دی ہے تاہم اُنھوں نے اپنے تجزیے کی تان فیض ؔ کی شاعری سے اُبھرنے والی رجائیت بلکہ فزوں تر رجائیت پر توڑی ہے۔

اِس تجزیے کواگر درست مان لیا جائے کہ عمر کے آخری برسوں میں جب فیضؔ پر اُن کی محبوب آئیڈیالوجی کا فریب کھلا اور اُن کے اپنے ہی باطل شعور کا پردہ چاک ہوا یا لدمیلا کے بقول شاعر کو اپنے ہی نظریاتی صنم کدے کی ناپائیداری پر شک ہونے لگا تو اُن کے ہاں ایک نیا سوالیہ لہجہ اُبھرا اور افسردہ دلی ورَبورگی کے نئے رنگوں اورتلخی کے احساس نے اُن کی شاعری کی بنیادی رجائیت کو اور بھی فزوں کردیا،پھر بھی یہ سوا ل باقی رہ جاتاہے کہ کیا یہ رجائیت اپنی کلیت میں فیضؔ کے ہاں کسی شاعرانہ تحر ک و نُموکا سراغ بھی دیتی ہے؟ لدمیلا اِس سوال کی طرف متوجہ ہوں یا نہ ہوں، اکیسویں صدی کا قاری اِس سوال سے دامن کش نہیں ہو سکتا۔