فیصلہ

ایک روزن لکھاری
خورشید ندیم، صاحبِ مضمون

فیصلہ

خورشید ندیم

معرز جج صاحبان نے اپنے قول کی لاج رکھی اورصدیوں یاد رہنے والا فیصلہ سنا دیا۔
کرپشن کے الزام سے شروع ہونے والے مقدمے میں، نوازشریف صاحب کے خلاف یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ وہ کسی کرپشن میں ملوث ہیں۔ پانامالیکس کا معاملہ پس منظر میں چلا گیا ۔سزا سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ سزا جس جرم پر ملی وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اثاثوں کی تفصیل میں ان رقوم کا ذکر نہیں کیا جو انہوں نے وصول نہیں کیں لیکن ایک معاہدے کے تحت وصول کر سکتے تھے۔ یوں وہ غلط بیانی کے مرتکب ہوئے۔ لہٰذا دفعہ 62 63 کے تحت وہ قومی اسمبلی کے رکن نہیں رہے۔

اس دلیل کا قانونی اور سیاسی وزن کتنا ہے ، یہ تا دیر زیرِبحث رہے گا۔ چند مقدمات ہیں جو نیب کے حوالے کرد یے گئے۔ چھ ماہ میں ان کا جواب بھی سامنے آ جا ئے گا۔

اس فیصلے کے سیاسی اور سماجی پس منظر اورمضمرات ہیں، جو میرے نزدیک اہم ہیں:

1۔ یہ فیصلہ بہت سے افراد اور گروہوں کی جذبہ انتقام کی تسکین کا باعث بنے گا۔وہ جماعت، نوازشریف جن کا ووٹ بینک لے اڑے۔وہ جماعت جس کے خلاف انہوں نے منتشر قوتوں کو جمع کیا اور کم از کم پنجاب میں اس کے سامنے ایک نا قابلِ تسخیر محاذ کھڑا دیا۔پھر وہ جن کا خیال ہے کہ وہ ان کی وزارتِ عظمیٰ کے راستے میں واحدرکاوٹ تھے۔

2۔ سب سے اہم بات نوازشریف صاحب کا اور ن لیگ کا ردِ عمل ہے۔اس سے یہ طے ہو گا کہ ان کی سیاسی عصبیت پریہ فیصلہ کس حد تک اثر انداز ہو سکتا ہے۔وہ کمزور ہوتی ہے یا طاقت ور ن لیگ کے حکمتِ عملی کا انحصار اب دو باتوں پر ہے:ایک یہ کہ وہ عوامی سطح پر اپنی تائید کو کس حد تک متحرک کر سکتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ وہ کس نقطہ نظر کے ساتھ قوم کے سامنے آتے ہیں۔

ن لیگ کا موقف یہ ہے کہ ان کے خلاف سازش کی گئی ہے لیکن اس سازش کا مرکز ملک کے اندر نہیں، باہر ہے۔میں لکھ چکا ہوں کہ یہ مقدمہ بہت کمزور ہے۔ اگر یہ سازش ہے تو پھراس کا ماخذملک کے اندر ہے۔نوازلیگ کو قوم کے سامنے جانے کے لیے اپنا بنیادی سیاسی مقدمہ مرتب کر نا ہے۔ن لیگ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ابھی تک سیاسی بیانیہ ترتیب نہیں دے سکی۔اگر وہ کسی مبہم بات کے ساتھ عوام کے سامنے جائے گی تو اسے سیاسی طورپر نقصان ہو گا۔سازش کے بیانیے کو واضح کرنا لازم ہے۔

اسی طرح ن لیگ نے چار سال میں تنظیم کو نظر انداز کیا ہے۔اب اسے موقع ملا کہ اگلے انتخابات سے پہلے، وہ خود کو بطور جماعت منظم کرے۔ نوازشریف صاحب کو اس پر محنت کرنا پڑے گی۔ن لیگ اس وقت احتجاجی نہیں، انتخابی قوت ہے۔ وہ مختصر وقت میںاحتجاجی بن نہیں سکتی۔ اس لیے احتجاج کے بجائے،انہیں ساری توجہ خود کو منظم کر نے پر دینا ہوگی۔ یوں بھی احتجاج اس وقت غیر ضروری ہے۔ عدالت نے ایک فیصلہ دیا ہے جو نافذ ہو گیا ہے۔ن لیگ اگراس فیصلے پر تحفظات رکھتی ہے تووہ اپنا مقدمہ میڈیا اور پرامن جلسوں کے ذریعے عوام کے سامنے رکھ سکتی ہے۔اس وقت اسی پہ اکتفا کر ناچاہیے۔ فیصلہ عوام پر چھوڑ دینا چاہیے جو 2018ء کے انتخابات میں ہو گا۔

3۔ اگلے چھ ماہ شریف خاندان کو ایک اہم قانونی جنگ لڑنی ہے۔یہ دراصل کرپشن کے مقدمات ہیں جن میں انہیں خود کو بے گناہ ثابت کر نا ہے۔اس وقت تو جے آئی ٹی کی رپورٹ کے باوجودانہیں بد عنوان ثابت نہیں کیا جا سکا۔اگر یہ رپورٹ سپریم کورٹ کے لیے پوری طرح قابلِ بھروسہ ہوتی تو نوازشر یف صاحب کو نااہل قرار دینے کے لیے ایک نسبتاً کمزور دلیل کا سہارا نہ لیا جا تا۔

4۔ ن لیگ کا مستقبل مریم نواز ہی ہو سکتی ہیں۔نوازشر یف نے جس عصبیت کو جنم دیا ہے،وہ ان ہی کومنتقل ہو سکتی ہے۔اسے موروثی سیاست قرار دے کر ،اس کی مذمت تو کی جا سکتی ہے مگربطور امرِ واقعہ میرا تجزیہ یہ ہے کہ اس کا انکار نہیں ہو سکتا۔یہ عصبیت کسی اور کو منتقل نہیں ہو سکتی۔اگر ن لیگ کی قیادت کسی اور کو منتقل ہوئی تو اس میں انتشار پیدا ہو سکتا ہے۔

5۔ ایک سوال یہ ہے کہ نااہلی کا معاملہ ‘مائنس ون‘ تک محدود رہتا ہے یایہ سلسہ دراز ہو تا ہے۔اس کا تعلق عمران خان کے سیاسی مستقبل سے بھی ہے۔اگر سازش کا فلسفہ درست ہے تو نئے ابھرتے سیاسی منظر نامے میں عمران خان کا حصہ دکھائی نہیں دیتا۔ہماراماضی یہ ہے کہ مقتدر قوتوں کی بچھائی ہوئی سیاسی بساط پر ان لوگوں کی جگہ نہیں ہو تی جو اپنی رائے یا شخصیت رکھتے ہیں۔اسی طرح آج اگر عدالتِ عظمیٰ انہیں بے گناہ قرار دیتی ہے تو قطع نظر اس بات کہ وہ بے گناہ ہیں یا نہیں، اس کی تعبیر سازش ہی کے پیرائے میں ہو گی۔یوں ان کے لیے بھی ایک سیاسی امتحان ہے۔اگر وہ کٹھ پتلی ہیں تو ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا ان کا اب کوئی کردار باقی ہے؟ اس کا تعین بھی جلد ہو جا ئے گا۔

6۔ نوازشریف صاحب کے خلاف جس طرح آئین کی دفعات 61 اور 2 6کا استعمال ہوا ہے ،اس کے بعدمعاملات کو صرف ایک فرد تک محدود رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ کئی اراکینِ اسمبلی کے خلاف جعلی ڈگریوں کے فیصلے آ چکے اور وہ حکم ِامتناعی کے ساتھ بدستور رکن اسمبلی ہیں۔اسی طرح جس ‘جھوٹ‘ پر نوازشریف صاحب کے خلاف فیصلہ آیا ہے ، اس کی مثالیں یا اس سے ملتے جلتے واقعات اسمبلیوں کے ایوانوں میں بکھرے پڑے ہیں۔اس کے بعد معلوم ہو تا ہے کہ یہ رکنیت ان لوگوں تک محدود ہو جائے گی جو کسی جسمانی یا ذہنی عذر کے باعث غلطی کی صلاحیت ہی سے محروم ہیں۔

یقینا اس فیصلے کے دور رس اثرات اثرات مرتب ہو ں گے۔انتقام اور انقلاب کی نفسیات میں جینے والے شاید اس کا ادراک نہ کرسکیں۔نوازشریف صاحب کا ردِ عمل بہت اہم ہے۔ان کی سیاسی عصبیت اگر متحرک ہوتی ہے تو تصادم کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔میرا حساس ہے کہ ہماری ریاست اس وقت ایک نئے بھنور میں پھنس چکی ہے۔اس باب میں چوہدری نثار صاحب نے جس تشویش کا اظہار کیا ہے، اسے نظر انداز کر نا ممکن نہیں۔

یہ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ جس نوازشریف کو نکالنے کے لیے پاناما لیکس کو بنیاد بنایا گیا ،آج ملک کے مقدر کا فیصلہ اسی کے فیصلے کے گرد گھوم رہا ہے۔ میری دعا ہے کہ وہ اس موقع پر بصیرت کا مظاہرہ کر سکیں۔ ان کی عصبیت کا مثبت استعمال جمہوریت کو تقویت پہنچائے گا۔ یہ بات تاریخ سے ثابت ہے قومی سیاسی جماعتوں کا وجود ہی وفاق کی مضبوطی کی دلیل ہے۔ مائنس ون یا مائنس چار کے فارمولے اگر مصنوعی طریقے سے نافذ کیے گئے تویہ ملک کے لیے نیک شگون نہیں۔

عدالتِ عظمیٰ کے محترم جج صاحبان نے اپنا قول سچ کر دکھایا۔ انہوں نے ایک تاریخ ساز فیصلہ دے دیا۔ اب یہ تاریخ کیسی ہوگا ، اس کا فیصلہ سیاسی اور سماجی مضمرات کریں گے۔ کیا پاکستان میں حقِ اقتدار عوام کو کبھی مل سکے گا؟ یہی سوال ہمارے مستقبل کے لیے اہم ہے۔