خدارا! توازن اوراعتدال پسندی کو فروغ دیں

اعتدال پسندی، انتہا پسندی فنون میں
اعتدال پسندی پر مبنی رویوں کی ضرورت ہے

(قاسم یعقوب)

ہمیں اعتدال پسندی اور متوازن فکر کی ضرورت جتنی آج ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ ہم انتہا پسند کیوں ہیں؟ ہمارے لبرلز اور ہمارے مذہبی شدت پسند دونوں ہی انتہا پسندی کے بغیر اپنا موقف پیش کیوں نہیں کر پا رہے؟

ان چند معروضات پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم ورثے میں پائی جانے والی انتہا پسندی کو ابھی تک چھوڑ نہیں پا رہے۔ہم تعلیم کے میدان میں ہوں، کھیل میں ہوں، انتظامی عہدے پر ہوں، سیاست کر رہے ہوں یا علم وادب کا تہذیبی کلچر اپنائے ہوئے ہوں، شدت پسندی اور انتہائی فیصلہ سازی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ ہم اپنی جان تک کی قیمت لگانے میں دیر نہیں کرتے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم انتہا پسند وراثتی سطح پر موجود ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں ادراک کرنا ہوگا کہ ہم انتہا پسند اور شدت انگیز فکریات کا مرقع ہیں اور یہ انتہا پسند تاریخ ہمیں وراثت میں اپنے بڑوں اور خطے کی تاریخ سے ملی ہے۔
مذہبی انتہا پسندی کو ہی الزام لگانا درست عمل نہیں۔ ہم ہر میدان میں انتہا پسند ہیں۔ہمیں یہ احساس ہونا چاہیے کہ ہم کہاں کہاں انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں، کہاں اعتدال کا دامن تھامتے ہیں۔

آپ ہر دفتر میں ، ہر عوامی سطح پرانتہا پسندی کو ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ اگر ہم غور کریں تو ہم خود اس کارِ خیر میں شامل ہوتے ہیں۔

ہمیں اس اہم نکتے کا خیال رکھنا چاہیے کہ جب کسی بھی قسم کی انتہا پسند فکر پروان چڑھ رہی ہو خواہ وہ کسی درست فکر کی بنیاد پر ہی کیوں نہ ہو، اگر ہم اُس کا ساتھ دے گے یا صرف اُس کی تصدیق کر دیں گے تو وہ انتہا پسند فکر زور پکڑے گی اور مزید پھیلے گی۔پچھلے سال ایک انتہا پسند عمل کے نتیجے میں ایک قتل کے بعد جب سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا اور خاموشی سے ایک کرادر کو ’’خاموش‘‘ کروایا گیا تو اُس عمل کے پیچھے درست اور نادرست اقدام کی بحث کرنے کی بجائے خاموشی کو اختیار کیا گیا۔ ہم سب نے دیکھا کہ ہم اپنے فیصلوں پر قائم بھی رہے، ہم اپنے اپنے عقیدوں کے ساتھ وابستہ بھی رہے اور ساتھ انتہا پسندی کو ختم کرنے میں کامیاب بھی ہوئے۔ خدا نا خواستہ اگر ایک بحث چھیڑ دی جاتی تو ہمارے اندر کا تاریخی اور وراثتی انتہا پسند دیواروں سے ٹکریں مار مار کے خون مانگ رہا ہوتا۔

ہمارے لبرلز بھائی بھی کچھ کام شدت پسند واقعہ نہیں ہوئے انھوں نے بھی کسی بھی واقعہ کو ہوا دینے اور ظلم کو مزید ظلم میں منتقل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی۔اب وقت آ گیا ہے کہ مذہبی شدت پسندوں کی طرح ’’آزاد فکر‘‘ کے انتہا پسندوں کو بھی سمجھایا جائے اور سختی سے روکا جائے جو اپنے’’ آزاد نکتہ نظر‘‘ کا سہارا لے کر ایک عرصے سے معاشرے میں تقسیم کا باعث بنتے آ رہے ہیں اور ذہنی انتہا پسندی کی تسکین کے لیے کسی ’’ملا ازم‘‘ سے کم فلسفے کے بانی نہیں ہیں۔

اس وقت بھی توازن کی ضرورت زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔ جو کسی بھی قسم کی انتہا پسندی اور مار دو ،مکا دو، مٹا دو، اٹھا دو‘‘ کے نعروں کو فروغ دے رہا ہے۔ خواہ وہ درست فکر کا ساتھ دے رہا ہے، اُسے روکا جائے اور اُسے سمجھایا جائے کہ آپ کے ان اقدامات سے انتہا پسندی کو فروغ مل رہا ہے۔یا انتہا پسند جنونی ’’زور‘‘ پکڑ رہے ہیں۔ہمیں ادراک ہونا چاہیے کہ اگر ہم درست فکر کا بھی پرچار کر رہے ہیں مگر اُس سے شدت پسند جنونی اپنی تسکین پا رہا ہے تو اُس ’’درست‘‘ فکر کو کچھ دیر کے لے روک لیں یا اُسے جنویوں کے ’’ہتھے‘‘ نہ چڑھنے دیں۔
سوچیں، رُکیے اور توازن کو قائم رکھیے____
صبر، تحمل ، برداشت سے کام لیں____
طاقت، جبر اور تشدد سے بچےئے، خواہ ہمیں خود پر جبر، طاقت اور تشدد نہ کروانا پڑ جائے____
کچھ دیر اپنے ساتھ، اپنی سوچ کے ساتھ وقت گزاریں۔ ایسا نہ ہو کہ بعد میں ہمیں اس کام کا بھی موقع نہ ملے________

About قاسم یعقوب 69 Articles
قاسم یعقوب نے اُردو ادب اور لسانیات میں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے ماسٹرز کیا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل کے لیے ’’اُردو شاعری پہ جنگوں کے اثرات‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھا۔ آج کل پی ایچ ڈی کے لیے ادبی تھیوری پر مقالہ لکھ رہے ہیں۔۔ اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کے لیے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ قاسم یعقوب ایک ادبی مجلے ’’نقاط‘‘ کے مدیر ہیں۔ قاسم یعقوب اسلام آباد کے ایک کالج سے بطور استاد منسلک ہیں۔اس کے علاوہ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے وزٹنگ فیکلٹی کے طور پر بھی وابستہ ہیں۔