دہلی کا مرقع

لکھاری کا نام
علی اکبر ناطق

دہلی کا مرقع

از، علی اکبر ناطق

احباب، زمانہ گزر جاتا ہے، تصویریں رہ جاتی ہیں۔ اگر اْن تصویروں میں پہچانی ہوئی صورتوں کی نیک روحیں بستی ہوں تو اُن کے دیکھنے سے کلیجہ کیسا کیسا خون ہوتا ہے ،یہ بات کلیجے والے جانتے ہیں۔ دیکھ لو، یہ ہے وہ شہر وں کا شہر، شاہجہان آباد ،جس کا مرقع سب سے پہلے مغلوں والے بادشاہ شہاب الدین کی آنکھوں میں تحریر ہوا اور پہلے اْسی کے دل کے گوشے پر آباد بھی ہْوا ،پھر یہ ہماری آپ کی دلی ہو گئی، جس سے ہم مرزا اور میر ، غالب کی نیک سیرتوں اور پیاری صورتوں کے سبب بہت واقف ہیں ۔ یہی شاہ جہان آباد ،جس کے گل پھول پرنغمے کہتے کئی بلبلیں دہر کے چمن سے اُڑ گئیں اور دلوں کے باغ ویران کر گئیں۔
اصل اِس شہر کی کچھ اس طرح ہے کہ یہ علاقہ پہلے پہل ایک بھرا پُرا جنگل تھا۔ جنوروں سے کھچا کچھ، پھول پتوں سے لدا پھندا ۔ ہر وقت ہرے ہرے پانیوں کی پھیریاں رہتیں۔ روشن گھاس کے قطعے اور چِکنے درختوں کی ڈالیاں لہلہاوٹیں لے کر مسکراتیں اور بلبل و مینا ایک ہی ڈالی پر بیٹھ کر چہچہے لگاتیں ۔ جس وقت جمنا بہاؤ پر ہوتی ، یہاں آب حیات بہا کر گزرجاتی ۔ اِس سبب سارا جنگل کھلا کھلا رہتا، جہاں بن باسیوں کا بسیرا اور جوگیوں کا گزران ہوتا۔

صاحبقراں نے اِس باغ و بہار خطے کو دیکھا تو آنکھوں میں خواب جاگنے لگے اور ایسا شہر جی میں بسانے کی آئی ،جس کی مثال پورب پچھم کے پھیلتے جہانوں میں کسی نے نہ پائی ۔جو سمر قند، بخارا کی شہرت گرد میں ملا دے اور بغداد کے نام پر ہل چلا دے ۔ دُور دُور کے سخن نصیب اور کاریگر جمع ہو کر شیراز و اصفہاں کی رونق کو فق کر دیں اور فرنگ کے ملکوں کا سینہ شق کر دیں۔تا جر پیشہ دیس دیس کا مال یہاں لا کر پھیلا دیں اور اِس شہر کو نگار خانہ ء چین بنا دیں ۔ یہ خیال جی میں آنا تھا کہ بادشاہ سلامت نے جمنا کے پاٹ کو پچھواڑے رکھ کر لال قلعے کی فصیل کھینچ دی۔ فلک نشان دیوار پر بڑے بڑے بُرجوں کے پہاڑ رکھ کر فصیل کی ہیبت کو دو چند کیااور چوڑے کنگروں اور اُونچے میناروں سے اس کو مزید رونق دی ۔جب یہ سب ہو چکا تو اس سُرخ قلعے کے سامنے کئی سینکڑے گز کھُلا میدان چھوڑا ،جس کے آ گے شہر دلی کانقشہ اِس طرح جمایا کہ جمنا کی طرف قلعہ اور قلعے کے آگے شرقی غربی شہر کی چار کونی طشت رکھ دی اور نام اُس کا رکھا شاہجہان آباد۔

قلعے کی عمارت کا مختصر احوال اِس طرح ہے کہ خاص محلات کی ایک قطار جمنا پڑوسن دیوار کی چھاتی پر جماکر دی اور اْن محلوں کے اندر پانچ ہاتھ چوڑی اور ڈیڑھ بالشت گہری نہر بہا دی۔نام اُس کا نہرِ بہشت رکھا، جو محلوں کے بیچو ں بیچ سے ہو کر قلعے کے باغوں کا چکر بھرتی ،پھر جھروکا کے سامنے والے مرمریں حوض میں جا گرتی ،جہاں فوارے پھولتے اور اُن کے اندر مہتابیاں جگمگاتیں اور حوض کے پانی کو زرد رنگوں سے شرماتیں ۔اِس نہر کا پانی دریاے جمنا سے قلعے کی بلندی پر چڑھانے کا بندوبست کچھ یوں تھا کہ دریا سے قلعے کی اُونچائی تک تانبے اور کانسی کی ٹینڈوں کی ایک مہال تھی، جسے قلعے کے اُوپر ایک بڑے چرخ کے ساتھ چلا دیا گیا تھا ۔اِس چرخ کو چکر دینے کے واسطے چار بیل سارا دن جُتے رہتے ،جو چر خ کو پھیرے دے دے کر مہال کو اُوپر کھینچتے رہتے اور پانی چرخ کے نیچے بنے حوض میں گر گر کر آگے نہر کی طرف چلا جاتا۔ دریا کا پانی گدلا ہوتا تھا اس لیے یہ نہر اُس پانی کو پاس ہی ایک چبوترے پر موجود کنویں میں گرا دیتی ۔یہاں اُس میں قلعی اور ابرق ملا کر پہلے اْسے شیشے کی طرح صاف اور ٹھنڈا کیا جاتا ،اْس کے بعد اِس نہر میں چلایا جاتا تھا، جو اُسے محلو ں تک لے جاتی ۔ محلوں کے اندر اور نہر کے اُوپر گاہ گاہ سنگ مر مر کے سفید تختے بچھے رہتے تھے۔ جن پر چاندی کی پلنگڑیاں اور صندل کے تخت لگے پڑے رہتے۔ ساری گرمیاں بیگمات، شہزادیاں اور بادشاہ سلامت اِنہی پلنگڑیوں پر چوکڑی مار کر بیٹھتے اور اِس پانی کی شفاف نہر میں پاوں رکھے آرام فرماتے اور زعفران کے شربت پی کر سینہ ٹھنڈا رکھتے۔

محل کے دائیں جانب جمنا کی طرف سنگ مر مر کی جالیاں اور جھروکے تھے۔جن کے اُوپر شہزادوں کے سفید کبوتر محل کے جھروکوں سے جمنا اور جمنا سے جھروکوں تک پھریریاں لے لے کر اُڈاریاں بھرتے اور ہم مزاجوں کوسبز باغوں کے سفید پھول دکھاتے ۔انہی جھروکوں سے جمنا کی ہوائیں چھن چھن کر اندر آتیں اور محل کو ہر وقت سردیوں کی طرح ٹھنڈا رکھتیں۔ جاڑے کے دنوں میں نہرِ بہشت بند کر دی جاتی اور اِس میں پانی کی جگہ پارے کے بڑے بڑے طشت رکھے جاتے تھے ،جن کے بیچ لوبان اور کستوری کے جوہر دہکا کر پڑے رہتے اور شراب کے شیشے بھی سونے چاندی کے ورقوں میں یہیں لگے سجتے۔ اسی خواب گاہ کے ساتھ ایک بڑا مسقف دالان تھا ۔جہاں بادشاہ سلامت حرم، شہزادے اور شہزادیوں کے ساتھ مل کر خاصہ تناول فرماتے اور نذریں وصول کرتے ۔اسی نہر والے محل میں ہی جہاں پناہ خاص خاص لوگوں سے اور شہزا دوں کے ساتھ ملاقات فرماتے تھے ۔جیسے مرزا فخرو ، حکیم احسن اللہ خان یا استاد ذوق۔ بعد میں کچھ دنوں کے لیے مرزا نوشہ نے بھی یہاں کی حاضری دی اور بادشاہ کی اقبال مندی کے لیے قصیدہ کہا۔ احبا ب کا کہنا ہے اور خود مرزا نوشہ کا خیال بھی تھا کہ اُسی کی نحوست کے سبب اٹھارہ سو ستاون آیامگر یہ ایک بات ہے ،جو اصل سے بے ربط ہے۔

اس نہر کے علاوہ ایک اور نہر تھی۔ چاندنی چوک بازار میں بہنے والی اِس نہر کو سب سے پہلے شہاب الدین محمد شاہجہاں سفیدون تک صاف کرا کے پہلے قلعہ شاہجہاں تک لایا، جب لال قلعہ بن چکا تو نہر کو آگے چاندنی چوک بازار میں جاری کر دیا۔ یہ نہر جمنا سے قلعے کی بیرونی دیوار کے ساتھ ساتھ گھسیٹ کر شمال کی طرف سے شہر میں داخل کی گئی تھی اور پاٹ سے لے کر کناروں تک سرا سر سُر خ پتھروں سے بنی تھی ۔حقیقت میں شاہجہاں آباد کا وجود اِسی نہر کے پانی سے گْندھ کر تیار ہوا تھا، جس کی مٹی میں وہ وہ سورج اور ماہتاب تارے دفن ہیں کہ اْن کی نور سے ہمارے آپ کے دلوں کے چراغ منور ہیں۔ یہ دوسری نہر شہر میں داخل کر کے اور لال قلعے کے سامنے سے گزار کر چاندنی چوک کے بازار میں بہا دی گئی۔یہ وہی چاندنی چوک کا بازار ہے، جس کو شاہجہاں بادشاہ کی بیٹی جہاں آرا بیگم نے بنوایا ۔ کیفیت اس بازار کی یہ ہے کہ قلعہ کے سامنے چار سو اسی گز کا میدان چھوڑ کر شہر کے حدود شروع ہونے سے پہلے اسًی گزقطر کا ایک چوک ہے، جہاں بے شمار شہتوتوں کے تکیے ہری چھاؤں کے ساتھ میٹھی اور لمبی گوہلوں کو بکھیرتے ۔یہیں جھُنڈکے جھُنڈ لگے پیپلوں کی چھاؤں میں شہر کے اُمرا کی سواریاں جھولتیں ، شُرفا کی پالکیاں اُٹھتیں ،عوام الناس کی اُونٹ گاڑیاں چلتیں اور پیدل چلنے والوں کی چہل پہل رہتی ۔ شربت بیچنے والوں کی چوکیاں،مُرغ اور بٹیر لڑانے والوں کی پالیاں بھی اِسی چوک میں جمتیں ۔ پُتلی تماشے ،بانک اور بنوٹ کے کھیل بھی یہیں لگائے جاتے یا پھر کبھی کبھی جامعہ مسجد کے سامنے اکھاڑے لگتے ۔ نقارچی اور دمامے پیٹنے والے اپنے دماموں اور نقاروں کی اوٹ میں یہیں بیٹھتے ۔اِسی چوک میں میلاد النبی اور محرم کے جلوس نکلتے اور امام کے ماتم داروں اور زنجیرزنوں کے حلقے جمتے۔ یہی وہ چوک تھا، جس کے ایک کونے پر برگد کا درخت تھا۔ اُس کی چھاؤں میں میر صاحب اکثر آرام فرمایا کرتے تھے اور یہیں بیٹھے بیٹھے جہان آباد کے بلوریں لونڈوں،آتے جاتے ترک امردوں اور سبزہ ر خوں کی زیارت کر لیا کرتے اور جی بہلا لیا کرتے تھے اور یہ بھی سنا ہے ، جب وہ خود بھی خوش رْو تھے اور باپ کے مرنے کے بعد ورثے میں ملی ہوئی کتابوں کی درستی کر کے بیچتے تھے،وہ بھی یہی جگہ تھی کہ قلعہ کے سامنے اور اْمرا کے آنے جانے کے راستے پر یہ اچھا ٹھکانا تھا۔ وہ برگد کا درخت اب بھی وہاں موجود ہے۔

چوک میں کوتوالی چبوترہ بھی تھا۔ اِس سے چار سو گز آگے ایک اور ہشت پہلو چوک تھا،جسے چاندنی چوک کہتے ہیں۔ یہیں پر بیرم خاں کا وہ تراہا ہے، جس کے بائیں ہاتھ ایک چھوٹی سی مسجد تھی، اِسے سنہری مسجد کہا جاتا تھا ۔اِسی تراہے کے درمیان کھڑے ہو کر نادر شاہ نے دہلی کی عوام کے قتل کا حکم صادر فرمایا تھا۔ اِس چوک کے گرد بہت خوبصورت دکانیں بنی ہوئی تھیں۔ بیرم خاں کے تراہے سے شمال کی طرف ایک باغ تھا، جس کو صاحب آباد یا بیگم کا باغ کہتے تھے ۔ اِس کے آگے چار سو ساٹھ گز لمبا بازار ہے اور درمیان میں یہی نہر بہتی تھی جو آگے فتح پوری مسجد تک جاتی تھی۔ یہ وہی مسجد ہے، جس کے بارے میں مرزا غالب نے کہا تھا ، امراو بیگم نے گھر کو فتح پوری کی مسجد بنا رکھا ہے۔ یہ بازار ہی دلی کا مرکزی بازار تھا ،جو فتح پوری مسجد تک پورے کا پورا چھوٹے چھوٹے سُرخ پتھروں سے چار پائی کی طرح بُن کر شاہی سواری کے لیے بنایا گیا تھا تا کہ سواری کے گزرتے ہوئے مٹی کے ذرے نہ اُڑیں اور عوام بازار کے گرد دو رویہ کھڑے ہو کر بادشاہ سلامت کی سواری کا نظارا کر سکیں اور اسکی زندگی اور بادشاہت کو دعا دے سکیں۔ سُرخ پتھروں کو ٹھنڈا رکھنے کے واسطے کئی کئی ماشکی نہر سے مشکیزے بھر بھر کر سڑک پر چھڑکاؤ کیا کرتے اور شام ہوتے ہی پورے بازار میں لالٹینیں جگمگا اٹھتیں، جن کے سائے سائے تُرک اور ایرانی پریزاد ٹہلا کرتے تھے ۔ چاندنی چوک سے تھوڑا پہلے روک کر اُس میں سے بائیں ہاتھ کی طرف ایک چھوٹا بازار ا ور بھی نکال دیا گیا تھا، جو جامع مسجد کے شمالی دروازے کو سلام کر کے وہیں رک جاتا تھا۔ وہ بازار وہاں آج بھی ہے۔ بائیں ہاتھ جامع مسجد صاف نظر آتی ہے۔ جامع مسجد سب کی سب سرخ پتھر سے بنائی گئی تھی اور اِس کا صحن ایک پوری بستی کے برابر رکھا گیا تھا ۔ پہلے یہاں ایک مٹی کی چھوٹی پہاڑی تھی، جس پر یہ مسجد بنائی گئی۔اِس کے گنبد اور مینار ایک زمانے تک دنیا والوں کو شاہجہان آباد میں منادی کر کر کے بلاتے رہے۔

چاندنی چوک بازار کی نہر ڈیڑھ ہاتھ گہری اور چھ ہاتھ چوڑی ہوتی تھی اور اس کے گرد دو رویہ گھنے سایہ دار درخت تھے۔ بعد میں نہر کم زیادہ ہوتی رہی اور درخت کٹتے اور لگتے رہے۔ اس شہر کی زیادہ عمارتیں پتھر ہی کی تھیں اور خاص چاندنی چوک بازار کے ساتھ ساتھ جو مکانات تھے ،وہ سب کے سب بھی پتھر کے اور سفید رنگ کے تھے ،جن میں ایرانی اور تُرک اُمرا رہتے تھے۔ کسی دوسرے کو اِس شاہی بازار میں سکونت کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ عام لوگ دوسرے اور چھوٹے کوچوں میں رہتے تھے اور سوائے ہاتھی اور گھوڑے کے ، دوسری سواری اِس چاندنی چوک والے بازار میں نہیں چل سکتی تھی۔ ہاں پیدل کی اور بات تھی۔ پورے شہر میں پیپل ، برگد ، نیم، شہتوت اور بیریوں کے بے شمار درخت تھے ،جن کے درمیان شہر کی عمارتیں چھپی چھپی تھیں۔ شہر میں ہزاروں تکیے اور شہتوتوں کے باغ بھی تھے، جن میں بھنگ پینے والے اور درویش ہر وقت بسیرا کیے بیٹھے رہتے۔ اکثر علما ، شاعر اور درباری پہلے پہل اِسی بازار کی زینت بنے۔ بعد میں جب زمانہ آگے پھیلتا گیاتو یہ لوگ بھی پورے شہر میں پھیلتے گئے۔ پھر تو دلی کے سب کوچے اِسی طرح کے ہو گئے تھے ، دوستو ہمارے ،آپ کے میر صاحب یوں ہی تو نہیں فرما گئے تھے ،

دلی کے نہ تھے کوچے ،اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی، تصو یر نظر آئی

لو دیکھ لو ، سرخ پتھروں سے تِرشی ہوئی عمارتوں کے ساتھ ساتھ جامع مسجد دہلی ، مسجد فتح پوری ، کئی سو حویلیاں ، کٹٹرے اور سرائیں شامل تھیں، جو آج آپ اور ہم اِن تصویروں میں تو دیکھ سکتے ہیں اور خواب کے قدموں سے اِس کے کوچوں میں چل پھر سکتے ہیں لیکن مادی جسموں سے اِن میں چلنے پھرنے کی ہمیں نہ اجازت ہے اور نہ ہی قدرت ، کہ وہ زمانہ اْن کا تھا ہمارا نہیں۔ اِس لیے اب اِن کو چوں کو نہ تلاش کیجیے کہ آپ کو نہ تو اب یہ دلی ملے گی اور نہ یہ اوراق مصور والے میر صاحب کے کوچے۔ ہاں ایک رات مَیں نے خواب کی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک دفعہ میر صاحب راجہ جگل کشور کی مصاحبت میں بہت دن دلی سے باہر رہے تھے اور ابھی ابھی شہر میں پھِرے تھے۔ اِسی عالم میں جامع مسجد کی طرف جا نکلے ،وہیں چند لمحے مسجد کے پہلو میں سرمد کی قبر کی سہار لے کر بیٹھے اور اُٹھ گئے ۔اب کیا تھا، شہر میں پل کی پل دھوم لگ گئی کہ میر صاحب لوٹ آئے ہیں۔ بس شاہجہان آباد میں ایک جشن دوڑا، سب شاعر ،بانکے اور سخن ور چلے میر صاحب کی طرف اْ ن کی زیارت کرنے۔ کچھ ہی دیر میں ،یقین ،فغاں ،ضیا ،قائم ، سوز ،حسن، مرزا مظہر ، غرض کس کس کا نام لوں ،سب گرد جمع ہو گئے۔اِتنے میں مرزا رفیع کو بھی اطلاع ہوئی ،وہ اگرچہ خود بھی آگ کا مزاج رکھتے تھے اور میر صاحب سے کسی طرح بھی کم نہیں تھے، علاوہ اِن باتوں کے، سال خوردہ بھی تھے لیکن سخن میں منصفی کا پیشہ کرتے تھے اور میر کے مرتبے سے واقف تھے، چنانچہّ اُن کی آمد کی خبر اْٹھتے ہی ملازم غنچہ کو معہ قلم دان ساتھ لیا اورملنے کو چلے ۔ سپاہی زادے تھے، اِس وجہ سے بجائے ہاتھی یا پالکی کے، گھوڑے پر سوار ہوئے گئے ،خود گھوڑے پر بیٹھے چلے جاتے تھے اور غنچہ قلم دان لیے ،گھوڑے کے پیچھے بھاگتا جاتا تھا ،جوان لڑکا تھا ورنہ اِس گرمی میں کچومر نکل جاتا ۔ اُن دنوں مہینہ ہاڑ کا تھا اور دھوپ اور گرمی کے غبار دلی کے سر پر چڑھے تھے۔زبان سے حلق کی راہ سانس میں خشک ہو جاتی تھی، چنانچہ چاندنی چوک میں تھوڑی دیر کو رْک کر نہر سے اپنے گھوڑے کو پانی پلایا، جو چاند نی چوک بازار کے بیچوں بیچ ہر وقت بہتی تھی اور اُسی نہر سے سب دہلی والے اپنے جانوروں کو بھی پانی پلاتے تھے اور خود بھی پیتے تھے۔

مرزا صاحب پیپل کی چھاؤں کی زمین لے کر رُکے، وہیں ایک عطار کے اصرار پر اُس کی دوکان کی چوکی کی سہار لے کر راحت لی اور صندل کے شربت کاکٹورہ پیا ۔ پاس عطار کا لونڈا مروارید اور گاؤزبان کوملا کر کونڈے میں پھٹک رہاتھا ، عطار نے حکم دیا ،بیٹا ذری مرزا صاحب کے پٹھے دبا دو ۔لڑکے نے والد کی بات پر کونڈا وہیں رکھا اور مرزا کے کاندھے دبانے لگا ۔ غنچہ بھی پاس کھڑا دیکھتا تھا ، عطار نے ایک کٹورا شربت کا اُسے بھی پینے کو دیا ۔ دوپل کے بعد مرزا نے لڑکے کو تحسین کی اور کہا، بس میاں ،خدا جوانی کا بھلا کرے اور دس کوڈیاں عطار کے ہاتھ تھما دیں ۔ پھراُ ٹھے ، پیش قبض کو درست کیا اور آگے چلنے کو تیار ہوگئے ۔ باگ کو ہاتھ میں لے کراور رکاب میں پاؤں دے کر ابھی گھوڑے پر بیٹھنے ہی لگے تھے، اْدھر سے میر درد کی سواری کو آتے دیکھا کہ ارد گرد و پلی ٹوپیاں سروں پر رکھے ، مریدوں کے پرے جمے چلے آتے تھے۔ پالکی کی سواری پاس آ کر رْک گئی۔سلام دعا ہوئی ۔مزاج پرسی کے بعدمرزا صاحب بولے، حضرت آج خانقاہ سے کیسے قدم باہر نکالا ،پھر ہنس کر کہا ، خیر سے زندوں کے جنازے چلنا سُنا تھا ، دیکھا آج ہے ۔یہ ساتھ کفن پہنے، جہنمی فرشتوں کا غولِ بیابانی اور ہم رکاب گنہگاروں کی شبیہائےِ شیطانی لیے، کس برزخ کی طرف کوچ ہے ؟ یا ذکرِ ہُو سے نئے محلے تاراج کرنے کی سوچ ہے۔ میر درد سودا کے ساتھ غنچہ کو معہ قلم دان دیکھ رہے تھے اور اُن کے آتشیں مزاج سے واقف خوب تھے اور ہجو کی تیغِ تیز سے مرعوب تھے اس لیے تیوری چڑھا کر آگ ہونے کی بجائے ہنس دیے اور بولے ،،مرزا صاحب ،ہم کہاں کے زندہ ہیں، چار پہر کے لیے دنیا دیکھنے آئے ہیں ، دیکھ کر چلے جائیں گے۔یہ سُن کر سودا نے ایک نوکیلا جملہ اور پھینکا ،حضور ایسا نہ کہیے ،دنیا سے آْپ کو ایسا بھی بے نیازی کا علاقہ نہیں ، یوں کہیے،تصوف کے حجاب میں خانقاہ کے لونڈے تاکنے آئے ہو ۔مرزا کی بات سُن کر میر درد ایک دم جھینب ہی تو گئے، بولے مرزا صاحب، آہستہ ، مریدین کے حلقے میں کھڑے ہیں ۔ خیر آپ سنائیے،ہم تو ابھی میر محمد تقی کودیکھنے چلے ہیں ، سنا ہے کل ہی تشریف لائے ہیں اور نجف خاں کی حویلی میں اُترے ہیں۔آہ بھر کر ، اُن کا اپنا مکان تو کب کا زمانے کی خرابی سے برباد ہو چکا ۔اب اپنی ہی دلًی میں مہمان بن کے ٹھکانا کرتے ہیں ۔ مرزا نے کہا ،چلیے میرا بھی رخ اْدھر ہی کا ہے۔چونکہ گھوڑے پر تھے، اِس لیے درد سے پہلے پہنچے۔ میر صاحب، کہ ڈیوڑھی میں بیٹھے پیچوان کا دُھواں اُٹھا رہے تھے۔ پیچوان کی نَے کے دہانے پر چاندی کی نقش شدہ پتری چڑھی تھی اور پانی کا تونبہ کوئی گھڑے بھر کا ہوگا۔پاس آٹھ دس مُونڈھے پڑے تھے اور اُ س سے آگے سفید چاندنی کا فرش بچھا تھا ۔میر صاحب اُس وقت سفید ململ کے لباس میں اچھے خاصے لگ رہے تھے۔ آٹھ بَرکا کُرتا اور اتنی ہی پھیلاؤ کی چادر تھی ۔سر پر دو پلًی ٹوپی، جس کا اگلا کونہ ماتھے کی طرف جھُکا ہوا اور پاؤں میں کان پور ی چمڑے کے نرم جوتے تھے ۔ایک ہاتھ میں سبز ریشم کی جریب تھی۔ڈیوڑھی میں کچھ اور لوگ بھی تھے ،یہ دلی کے اُمرا اور سخن پیشہ احباب تھے ، جو میر صاحب کے ادب میں بالکل ساکت اور خموش تھے ،گویا سروں پر پرندے بیٹھے ہوں ۔ نجف خاں خود تو موجود نہ تھے مگر اُس کے ملازم مہمانوں کی شربت سے تواضح کر رہے تھے۔سب کو یہی توقع تھی کہ حضرت آج کچھ نہ کچھ ارشاد فرماویں گے اور وہ اُن کی نئی غزل کے موتی جھولیوں میں ڈال لے جاویں گے مگر اِدھر لب تک نہیں ہل رہے تھے ۔اتنے میں مرزا رفیع سودا آ گئے ۔اُن کے گھوڑے کی باگ فوراً ایک نوکر نے بڑھ کر پکڑ لی اور حویلی کے پہلو کے تھان میں لے گیا ۔مرزا صاحب کو دیکھتے ہی میر صاحب پہلی بار اپنی نشست سے اُٹھے اور مرزا کو گلے لگایا ۔احباب نے اِس بات کو نیک شگون جانا اور مرزا کی آمد کو مبارک قدم سمجھا ۔بارے حال احوال کے بعد گفتگو چلی اور بہت باتِیں ہوئیں لیکن میر صاحب حسب معمول کم کم ہی بولے۔ ابھی یہاں باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ خواجہ میر درد آن پہنچے ۔اُن کی درویشی کا رُعب میر صاحب پر تو خیر کیا جمتا البتہ بیٹھے ہوئے احباب تعظیم کو اُٹھ کھڑے ہوئے اور آداب و تسلیمات کے بعد اپنی اپنی نشست پر بیٹھ گئے ۔اب ڈیوڑھی میں کوئی جگہ خالی نہیں بچی تھی ۔مرزا اور درد بھی مو جود تھے، اس لیے ہو نہیں سکتا تھا کہ میر صاحب کو اب بغیر غزل سُنائے بنتی ۔ کوئی پہر بھر کی ملاقات اور مصائبِ سفر کے بیان کے بعد میر صاحب ایک غزل سُنانے پر راضی ہو ہی گئے ۔غزل بھی بالکل نئی کہی تھی ۔اِدھر اُنھوں نے پیچوان کی نَے ایک طرف کی، اُدھر سب لوگ ہمہ تن گوش ہو گئے ۔ میر صاحب گویا ہوئے ،صاحبو کیا کہوں،زمانے نے جو میر عبد الحی تاباں کی جدائی کا داغ دیا، کئی دن سے اُسی کی روشنی میں آنکھیں جاگ رہی ہیں اور اِسی تازہ زخم نے ایک غزل کہلوائی ہے،آپ بھی سُن لیجیے۔ پھر یہ غز ل پڑھنا شروع کی۔

کئی دن سلوک وداع کا مرے در پئے دلِ زار تھا
کبھو درد تھا ، کبھو داغ تھا، کبھو زخم تھا، کبھو وار تھا
دمِ صبح بزمِ خوش جہاں، شبِ غم سے کم نہ تھے مہرباں
کہ چراغ تھا سوتو دُود تھا، جو پتنگ تھا سو غبار تھا
دلِ خستہ جو لہو ہو گیا ،تو بھلا ہوا کہ کہاں تلک
کبھو سوزِ سینہ سے داغ تھا ،کبھو دردو غم سے فگار تھا
دِلِ مضطرب سے گزر گئی ،شبِ وصل اپنی ہی فکر میں
نہ دماغ تھا ، نہ فراغ تھا ، نہ شکیب تھا ، نہ قرار تھا
جو نگاہ کی بھی پلک اُٹھا تو ہمارے دِل سے لہو بہا
کہ وہیں وہ ناوکِ بے خطا ، کسو کے کلیجے کے پار تھا
یہ تمھاری اِن دنوں دوستاں مژہ جس کے غم میں ہے خو ں چکاں
وہی آفتِ دلِ عاشقاں کسو وقت ہم سے بھی یار تھا
نہیں تازہ دِل کی شکستگی ، یہی درد تھا ،یہی خستگی
اُسے جب سے شوقِ شکار تھا، اِسے زخم سے سروکار تھا
کبھو جائے گی جو اُدھر صبا تو یہ کہیو اُس سے کہ بے وفا
مگر ایک میرِ شکستہ پا ،ترے باغِ تازہ میں خار تھا

غزل کا حرف حرف بتا رہا تھا ،میر صاحب تاباں کے غم میں گھُلے بیٹھے ہیں۔ ایسی بے پناہ رقت کہ سب ہی ایک دم آبدیدہ ہوگئے، کسی کو واہ کہنے کی بھی طاقت نہ رہی ۔ کچھ لمحوں کے لیے وقت کو بھی چُپ لگ گئی تھی۔ ابھی یہاں تو یہ صورت تھی کہ اُسی وقت بیرم خاں کے تراہے کی طرف سے نقا رہ پٹنے کی آواز گونجی، غالباً بادشاہ کی سواری نکلی تھی۔ خدا جانے یہ کس طرز کا نقارہ تھا کہ اِسی کے شور سے میری آنکھ کھُل گئی۔ ہائے کیا اچھا خواب تھا، کاش یہ بادشاہی نقارہ نہ بجتا اور مَیں وہیں رہ جاتا۔

خیر میاں، شاہجہان آباد کے شمال مغرب کی فصیل کے ساتھ ساتھ بھی ایک نہر جاتی تھی، جو مضافات سے ہوتی ہوئی مہرولی میں جا نکلتی۔ یہ نہر سْنا ہے، سلطان التمش نے شاہی باغات کو سیراب کرنے اورشمسی تالاب کو بھرنے کے لیے جاری کروائی تھی۔ آس پڑوس کے جاٹ اور زمیندار گاہے گاہے اِس کا پانی چُرا کر فصلوں کو لگا لیتے، پھر بادشاہ کی طرف سے سزا پاتے۔ اِسی مہر ولی میں آپ لوہے کی لاٹھ اور قطب کا مینار دیکھ سکتے ہو۔ وقت نے ابھی اِن چیزوں کے دیکھنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ یہ وہی نہر ہے، جس کا ذکر (پھول والوں کی سیر) میں ہوا ہے۔ مہرولی میں پھسلن پتھر، جھرنے، آموں کے شاہی باغ اور شمسی تالاب اِسی نہر کی دین تھے۔ غالب نے اِسی آموں کے باغ سے آم کھانے کا لطیفہ گھڑا تھا۔

شاہجہان آباد کے جنوب مشرق میں ایک کھنڈر ہے، یہ تغلق آباد ہے۔ اِس سے تھوڑ آگے جنوب مغرب کی طرف جائیے تو بستی نظام الدین میں جا نکلو گے۔ وہاں ایک درویش کی سرا ہے، جہاں سے کبھی امیر خسرو کی پہیلیاں، دوہے اور کہہ مکرنیاں نکل نکل کر مہر ولی کے گھروں گھروں پھرتی تھیں۔ لو بھائی اب مَیں جاتا ہوں۔ بس یہ بتا دوں کہ اب اِن سب جگہوں پر کوئی نہر نہیں ہے، نہ باغ ہیں، نہ جھرنے اور نہ پھسلن پتھر۔ بس ایک جمنا رہ گئی، اور اْس میں بھی روزانہ تین ہزار مْردوں کی راکھ بہتی ہے، گویا پانی کی بجائے جمنا کے پاٹ میں شمشان گھاٹ بہتے ہیں۔ کچھ نہیں بچا۔
بس رہے نام اللہ کا

1 Comment

  1. ارے واہ۔ نام نہ لکھا ہوتا تو میں سمجھتی شمس الرحمان فاروقی صاحب کے ناول کا کوئی حصہ پڑھ رہی ہوں۔ پرانی دلی کے بیان کا اچھا بیانیہ ہے۔ بندہ خود کو اسی عہد میں محسوس کرتا ہے۔ جئیں ناطق

Comments are closed.