برہمنی نظام کو دلتوں کا جارحانہ چیلنج

برہمنی نظام کو دلتوں کا جارحانہ چیلنج
بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر نے دلتوں کو یکجا کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور وہ انڈیا کے آئین کے معمار میں شامل تھے

برہمنی نظام کو دلتوں کا جارحانہ چیلنج

(شکیل اختر)
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی

دلتوں نے حالیہ دنوں ملک کے طول و عرض میں کئی جگہ بڑی تعداد میں یکجا ہو کر اپنے بدلے ہوئے رخ کا اشارہ دیا ہے

مئی کے اوائل میں انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے سہارنپور ضلعے کے ایک گاؤں میں دلتوں اور ٹھاکروں کے ٹکراؤ میں دلتوں کا ایک گاؤں بری طرح تباہ ہوا۔ دلتوں کے کئی مکانات جلا دیے گئے اور متعدد دلتوں کو زدو کوب کیا گیا۔ مغربی اترپردیش میں دلت ایک طویل عرصے سے ظلم و زیادتی کا سامنا کرتے آئے ہیں لیکن اس بار دلتوں نے ٹھاکروں کے حملے کا جواب کافی شدت سے دیا ہے۔

ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب اسی سہارنپور اور مظفر نگر کے فسادات میں 50 سے زیادہ مسلمان مارے گئے تھے اور ہزاروں مسلمان اپنا گھر بار چھوڑ کر پناہ گزین کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ان میں سے بہت سے اپنے گاؤں واپس نہیں آئے۔

اس کے برعکس دلتوں نے نو مئی کے حملے کی نہ صرف مزاحمت کی بلکہ اس کا جارحانہ انداز میں جواب دیا۔ اس حملے کے بعد مغربی اترپردیش میں دلتوں کی ایک تنظیم ‘بھیم سینا’ وجود میں آئی۔ اس سینا کی مقبولیت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور یہ تنظیم اب مغربی اترپردیش سے نکل کر بہار، گجرات، دلی اور راجستھان تک پھیل رہی ہے۔

بھیم سینا نے پارلیمان کے سامنے ہزاروں حامیوں کے ساتھ دلتوں کے خلاف مظالم پر احتجاج کیا ہے۔ بھیم سینا کی قیادت ایک نوجوان وکیل چندرشیکھر کر رہے ہیں۔ اس مظاہرے میں گجرات کے دلت رہنما جگنیش میوانی بھی موجود تھے۔ جگنیش گجرات کے علاقے سوراشٹر کے اونا میں دلتوں پر گؤ رکشکوں کے حملے کے بعد دلت رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آئے تھے۔

چندر شیکھر

جگنیش میوانی 
جگنیش میوانی نے گجرات کے اونا میں نام نہاد گؤ رکشکوں کے ہاتھوں دلت کی موت پر دلتوں کو یکجا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے

انڈیا میں سیاست، معیشت، فوج، عدلیہ، میڈیا، تعلیمی ادارے غرض معاشرے اور سیاسی نظام کے ہر ادارے پر اعلی ذات بالخصوص برہمنوں کا غلبہ ہے۔ مذہب بھی برہمنی تصورات کے تابع ہے۔ انڈیا کے برہمنی نظام میں سب سے زیادہ تکلیف دلتوں نے اٹھائی ہے۔ دلت ایک عرصے سے تفریق اور نفرت کے اس نظام کے خلاف پرامن طریقے سے نبرد آزما ہیں۔ وہ ملک کے جمہوری آئین کے تحت اس نظام کو بدلنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

کاشی رام اور مایا وتی کی بہوجن سماج پارٹی، جنوبی انڈیا میں پیریار کی دراوڈ تحریک اور مہاراشٹرا میں رپبلکن پارٹی اسی دلت بیداری کا حصہ تھیں لیکن یہ تحریکیں اب کمزور اور پرانی ہو چکی ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت کے قیام اور ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں ایک جارحانہ ہندو سادھو یوگی آدتیہ ناتھ کے وزیر اعلی بننے کے بعد ملک میں کمزور پڑتے ہوئے برہمنی نظام کو ایک بار پھر تقویت مل گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ایک نئی جارحانہ دلت تحریک بھی وجود میں آ رہی ہے۔

ایک طرف آئین میں ریزرویشن کے انتظام کے سبب پارلیمان میں ہر وقت 100 سے زیادہ دلت ارکان کی موجودگی سے انھیں متناسب نمائندگی ملی ہے تو دوسری جانب ملازمتوں اور تعلیم میں ریزرویشن سے انھیں معاشرے اور معیشت میں جگہ بنانے کا موقع ملا۔ 

برہمنی نظام نے معاشرے میں دلتوں کے بارے میں جو نفرت اور اہانت آمیز سوچ پیدا کی تھی اس میں کچھ حد تک کمی تو آئی ہے لیکن معاشرے میں اب بھی انھیں اعلی ذات کے ہندوؤں کے برابر کا درجہ نہیں مل سکا ہے اور انھیں عمومی طور پر نفرت اور اہانت کا سامنا ہے۔

بھیم سینا کے چندر شیکھر اور گجرات کے جگنیش میوانی جیسے درجنوں دلت رہنما چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، اترپردیش، بہار، گجرات، مہاراشٹر اور پنجاب جیسی بڑی ریاستوں میں ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ اس نئی قیادت کا رخ جارحانہ ہے اور یہ رفتہ رفتہ منظم ہو رہی ہے۔

انڈیا کی سیاست میں پہلی بار ملک گیر سطح پر دلتوں کے اس چیلنج کو محسوس کیا جا رہا ہے۔ نئی قیادت کا کہنا ہے کہ دلت اب صرف برابری کے حق کی لڑائی نہیں لڑ رہے ہیں بلکہ اب وہ اس نظام کو بھی براہ راست چیلنج کر رہے ہیں جس کے سبب انھیں صدیوں سے بے پناہ مظالم کا سامنا رہا ہے۔