برقی ترسیل اور برقی محبت : رابطے تیز تر محبتیں تیز ترین

منزہ احتشام گوندل

برقی ترسیل اور برقی محبت : رابطے تیز تر محبتیں تیز ترین

از، منزہ احتشام گوندل

میں جب پرائمری اسکول میں پڑھتی تھی تو ان دنوں بہت چھوٹی سی تھی۔ یقیناً تبھی تو ان باتوں کا اندازہ نہیں تھا۔ ہوا یوں کہ ایک دن جب ہم بہت سی لڑکیاں گروپ میں اسکول سے پڑھ کے پیدل واپس گھر آ رہی تھیں کہ مجھے ایک عورت نے اشارے سے بلایا۔ وہ جاننے والی (مُسلن) تھی۔ میں رک گئی، اس نے مجھے پانی والی کھال کے گھاس سے مزین سرسبز کنارے پر اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ اوپر پاپلر کے درختوں کی گھنی چھاؤں تھی، پیٹھ پیچھے کھال بہہ رہی تھی، خنک ہوا چل رہی تھی۔

عورت نے ایک کاغذ نکالا جو کہ اس نے تہہ کرکے ازار بند میں چھپا رکھا تھا اور مجھے دیا اور کہا کہ میں اسے خط لکھ دوں۔ میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی، ایک دم اپنی اہمیت کا احساس ہونے لگا۔ میں نے بستے سے گتا (paper board) نکالا، کاغذ کھولا۔

یہ ایک لیٹر پیڈ کا صفحہ تھا۔ گلابی رنگ کا مضبوط کاغذ جس کے نیچے ایک کونے میں گہرا سرخ رنگ کا دل اور دل کے اوپر ایک زنجیر نما لاکٹ لٹک رہا تھا۔ دوسرے کونے میں کسی حسینہ کا لمبے ترشواں ناخنوں والا نازک ہاتھ جس کے ناخنوں پہ بے حد چمک دار پالش تھی۔ دیر تک میں کاغذ پہ بنی تصویروں کے ملاحظے میں مُنہمک رہی، با لآخر عورت نے مجھے خط لکھوانا شروع کردیا۔

پیارے۔۔۔۔۔

۔۔۔۔ خط کا عجیب و غریب متن۔۔۔

آخر میں ایک شعر بھی تھا جو آ ج بھی میرے حافظے میں محفوظ ہے۔

آج کل کے لڑکے کاغذ کے پھول ہوتے ہیں
محبت تو کرتے ہیں مگر بے وفا ضرور ہوتے ہیں۔

تمہاری شہناز

خط لکھ کردینے کے بعد میں شاداں و فرحاں گھر آ ئی، بستہ رکھتے ہی امی کو اپنا قابل فخر کارنامہ بتایا، بات سنتے ہی امی نے جوتا اتارا اس کے بعد ناگفتنی ہے کہ کیا ہوا۔

ایک وہ زمانہ تھا کہ خط لکھے جاتے تھے، جو ڈاک خانے سے مہینوں بعد اگلے بندے تک پہنچتے خط کے جواب میں خط آ تے آ تے۔ دو تین مہینے کا عرصہ بیت چکا ہوتا تھا۔ لہٰذا محبتیں بہت طویل، پختہ اور پائیدار چلا کرتی تھیں۔ ایک خط سے دوسرے خط کے درمیان کا اضطراب محبت کو اور بڑھاتا، پھر خط میں انسان کتنا اور کیا لکھ سکتا ہے۔

لہٰذا مُحِبین پہلے سے میسر شدہ خطوط کو بار بار پڑھتے، کوئی ایک آ دھ تصویر ہوتی تو اسے دیکھتے اور اس عمل کی تکرار سے محبوب لاشعور کا حصہ بن جاتا۔ نہ رابطے میں برق رفتاری تھی، نہ ہی محبت ٹوٹنے کا کوئی خدشہ تھا۔  لفظ اور بینائی کے بین امید کے رشتے سالوں بلکہ عشروں تک نِبھ جاتے تھے۔

اب یہ حالت ہے کہ محبت ایک ہفتہ نہیں چلتی، محبوب سامنے، اس کی آ واز سامنے، اس کی صورت سامنے، اس کے لفظ اس کے کرتوت سامنے۔ کچھ بھی چھپا ہوا نہیں۔

رابطے تیز تر محبتیں تیز ترین ہوگئی ہیں۔ ایک جاتا ہے دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ کسی نے لاشعور کا حصہ کیا بننا، شعور تک بھی کسی کی رسائی نہیں ہوپاتی۔

برقی ترسیل کی طرح محبت بھی برقی ہوگئی ہے۔ لفظ اپنا اعتبار کھو بیٹھے ہیں۔ دلوں میں یقین نہیں رہے۔ جذبات کو کھیل تماشا سمجھ لیا گیا ہے۔ جتنی قربت ہے اتنی دوری ہے۔ زمانہ تو واپس نہیں لوٹ سکتا مگر کاش ہم پرانی قدروں کی بجھتی ہوئی شمع سے تھوڑی روشنی پالیں۔

شہناز نے اس زمانے کے لڑکوں کو کاغذ کے پھول کہا تھا۔
آج کل کے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آ گے چپ ہی بھلی ہے۔