لڑکپن کا رمضان اور ہمارا اعتکاف

لڑکپن کا رمضان اور ہمارا اعتکاف
از، ادریس آزاد
میں لڑکپن میں رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف کیا کرتا تھا۔ باقاعدگی سے کئی سال۔ وہ دن اب یاد آتے ہیں تو عجب قسم کی اداس سی کیفیت دل پر چھا جاتی ہے۔ اعتکاف کا عشرہ ہرلحاظ سے میرے لیے ایک بھرپور انجوائمنٹ ہوا کرتا تھا۔ چوبیس گھنٹے کے احوال کا بیان تو ممکن نہیں البتہ کہیں کہیں سے ذکر کرتاہوں۔
افطار سے پہلے ہم پلاسٹک کے پائپ سے مسجد کے صحن کو ٹھنڈا کرتے۔ نیا نیا فرش تھا۔ پرانی اینٹیں اکھیڑ کر باریک چِپس ڈلوائی گئی تھی۔ اتنی پھسلن ہوتی کہ بچے اِدھرسے اُدھر تیرتے پھرتے۔ ہم اُنہیں منع کرنے کے لیے اُن کے پیچھے بھی نہ دوڑ سکتے تھے کہ ننگے پاؤں ایسے شفاف فرش پر دوڑنا نقصان دہ ہوسکتا تھا۔ ایک بزرگ ’’بابارمضان‘‘ اُن بچوں کے پیچھے دوڑتے ہی رہ جاتے۔ وہ اُن پٹھان بچوں کو کبھی بھی نہ پکڑپائے تھے۔ بابا رمضان سارے محلے کی ہردلعزیز شخصیت تھے۔ اُنہیں سارا محلہ چھیڑتا اور وہ شدید غصے میں آکر ایسی پنجابی بولتے جس کی ڈکشنری بنانا کسی ماہرِ لسانیات کے بس کی بات نہ تھی۔ اتنے اعلیٰ ذوق تھے کہ کوئی گالی بغیر قافیہ کے نہ دیتے۔ مثلاً اگر ایک لڑکے نے بابا رمضان کو چھیڑا، ’’باوے دا نلکا چاہ دیندا‘‘۔ تو بابا رمضان کا جواب یہ ہوتا، ’’تیری ما دا نلکا رُوح افزا دیندا‘‘۔
پٹھانوں کے سخت خلاف تھے اور مسجد کے فرش پر تیرنے والے بچے زیادہ تر مدرسہ میں پڑھنے والے پٹھان بچے ہی ہوا کرتے تھے۔ افغان مہاجرین نئے نئے وارد ہوئے تھے اور جو خاندان ہمارے شہر کے نواح میں آکر آباد ہوئے ان کے بچے مدارس میں ہی رہتےتھے۔ اس پر مستزاد ایک ایک خاندان کے چودہ چودہ بیٹے۔ ماشااللہ ۔ بابا رمضان پٹھان بچوں کو دیکھ کر کہتے،
’’ککے کورے کربرے تے بھانڈا ڈُھوت بھوت۔ جہیڑا ایناں دا اعتبار کرے تو وہ ڈیش ڈیش ڈیش‘‘۔
مگر قافیہ پورا ضرور کرتے۔ آذان اور تکبیر کے معاملے میں بابا رمضان کی ہر کسی کے ساتھ لڑائی ہوتی تھی اور ہمیشہ ہوتی تھی۔ وہ آذان اور تکبیر کے شوقین تھے جبکہ ایوب نیازی انہیں چھیڑنے کے لیے تکبیر کے لیے پہلے کھڑا ہوجاتا۔ وہ تپ جاتے اور عین جماعت کے وقت ایسی ایسی صلوات سناتے کہ بھری مسجد ہنس ہنس کر دہری ہوجاتی۔
خیر! توپائپ سے فرش دھوتے ہوئے ایک عجب سرشاری کا عالم ہوتا۔ گرمیوں کے روزوں میں افطار سے پہلے پانی کی طلب محبوب کی طلب سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اسے بلاججھک عشق ِ مجازی کی اکمل ترین مثال کہا جاسکتاہے کیونکہ پانی نہ تو عورت ہے نہ مرد اور مادہ بھی ہے تو ایسا شفاف کہ ہر گناہ سے پاک بلکہ گناہ دھودینے والا واحد مرکب۔ ایسے مادی عنصر کے ساتھ ایسا والہانہ پیار!! عشق ِ مجازی کی ہی مثال ہوسکتاہے اور پھر افطار سے پہلے کی پیاس میں یہ عشق جس عروج پر ہوتا ہے اس کا مظاہرہ شام سے پہلے پانی کے پائپ سے نہاتے ہوئے بندے کی حالت دیکھ کر بخوبی لگایا جاسکتاہے۔ وہ پانی کے ساتھ کھیلتاہے۔ پانی اس کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتاہے۔
مسجد کا فرش ٹھنڈا ہوگیا، اس بات کا پتہ ننگے پیروں کے تلوؤں سے فرش کو ٹٹول ٹٹول کر  چلتا۔ ایک روزہ دار ہی اس لطف کی کی قیمت جانتاہے۔ صحن میں  پائپوں سے بنے ستونوں کے جال پر کئی پنکھے لگے ہوئے تھے۔ فرش دُھل جاتا تو سارے پنکھے چلا دیے جاتے اور ساتھ کے ساتھ ہم وائپرز کی مدد سے فرش کو خشک کرتے۔ پھر صفیں بچھاتے۔ یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت ہوجاتا۔ تب تک سارے معتکفین خود بھی نہا کر اور صاف سُتھرے کپڑے پہن کر آجاتے۔ کسی نے ابھی بھی سر پر گیلا رومال دھرا ہوتا۔ محلے کے لوگ ایک ایک کرکے جمع ہونا شروع ہوجاتے۔
عصر کی نماز سے فارغ ہوکر ہم سب اپنی الگ الگ تسبیحاں ہاتھ میں تھامے مسجد کی چھوٹی دیوار کے پاس آکر کھڑے ہوجاتے۔  مغرب تک خوب تسبیح کے دانوں پر گن گن کر گپیں مارتے۔ ساتھ کے ساتھ بار  بار ایک دوسرے سے ٹائم پوچھتے۔ ’’کتنا وقت رہ گیا ہے؟‘‘۔    ساتھ ہی سب کی نظریں مسجد کی طرف آنے والے راستے پر ٹِکی ہوتیں۔ ہمارے گھروں سے افطاری آتی۔  ہر معتکف کے گھروالے اُس کے لیے افطاری اورکھانا بھیجتے۔ کھانے کے ٹفن الگ رکھ دیے جاتے اور بڑا سا دسترخوان بچھا کر افطاری اُس پر چُن دی جاتی۔ آم کی قاشیں ایک جگہ، فروٹ چاٹ ایک جگہ، پکوڑے سموسے ایک جگہ کردیے جاتے۔ قیمے والے گول پکوڑوں پر میری خاص نظر ہوتی۔ شربتوں کو البتہ ہم مِکس نہ کرسکتے۔ غریب گھروں سے لیموں کی شکنجی جبکہ امیر گھروں سے ملک شیک یا دودھ سوڈا آیا کرتا۔ دسترخوان پر ہم طبقاتی فرق مٹا دیتے لیکن مشروبات کی شکل میں کسی حدتک یہ فرق قائم رہتا۔
افطار کے بعد مسجد لوگوں سے بھر جاتی۔ صحن میں چلتے پنکھے اور ٹھنڈا فرش سب کو اچھا لگتا۔ ہرچہرے پر ایک خاص قسم کی طمانیت محسوس کرکے مجھے بڑا مزہ آتا۔ نماز  کے دوران کھانے کا خیال آتارہتا لیکن ساتھ کے ساتھ شرم بھی آتی تو پھر سرجھٹک کر خشوع سے نماز پڑھنے کی تین طریقوں پر عمل شروع کردیتا۔ تصور کرو کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے یا  یہ تصور کرو کہ تم خانہ کعبہ کو دیکھ رہے ہو یا نماز کے الفاظ اور ان کے معانی پر تفکر شروع کردو۔ میں ان تینوں طریقوں کو کامیابی سے استعمال کرنے میں ہمیشہ ناکام رہا۔ البتہ میں نے بہت بعد میں ایک اور طریقہ دریافت کرلیا تھا جو قدرے بہتر تھا۔
اکثر مغرب کی نماز میں امام صاحب مختصر سورتیں پڑھتے اور جلدی سے نماز مکمل کرلیتے لیکن ہم اہل ِ اعتکاف کو ابھی اوّابین کے نوافل بھی پڑھنا ہوتے۔ اگر کبھی میں سستی کرتا تو بزرگ، ساتھی معتکفین شرمندہ کرتے۔ کھانے کے وقت مشترکہ دسترخوان نہ بچھایا جاتا۔ آج تک سمجھ نہیں آئی، کیوں؟
خیر! ہم جتنا زیادہ کھاتے یا پیتے سب کا سب بیس تراویح باجماعت پڑھنے کے دوران ہضم ہوجاتا اور پھر سے بھوک لگ جاتی۔
مجھے تراویح کے بعد مسجد کا منظر بہت اچھا لگتا تھا۔ اوپر پنکھے چل رہے ہوتے۔ کھلا صحن ہوتا۔ صفیں بچھی ہوتیں۔ لوگ صحن میں لگے پنکھوں تلے ٹولی در ٹولی بیٹھ جاتے اور ’’جوجہان‘‘ کی ساری گپیں مارتے۔ ہماری ٹولی بھی دودھ سوڈا بناتی۔ ہم تین چار لڑکے ہوا کرتے۔ چٹکلے، جملے، پھبتیاں، لطیفے اور کہانیاں، دیر تک جاری رہتیں۔ بزرگ ساتھی معتکفین کو نیند میں تنگ کرنے کی نت نئی سکیمیں بنائی جاتیں۔ اس زمانے میں معتکفین اپنے لیے الگ الگ چھولداریاں نہیں لگاتے تھے۔ آج کل تو اعتکاف کے دنوں میں مسجد میں، یکسوئی کے لیے، بیس پچیس چھولداریاں نصب ہوتی ہیں۔ ہر مہاتما کی الگ۔
یہ غالباً 1982 کا سال تھا۔ ایک دوست مجھے دوران اعتکاف ملنے آیا۔ کافی دیر بیٹھا رہا۔ باتوں کے دوران اس نے پوچھا، ’’تم اعتکاف میں زیادہ تر کیا کرتے ہو؟‘‘۔ میں نے اپنے نوافل کی تعداد، تسبیحات کی تعداد اور سیپاروں کی تعداد بتائی تو اس نے کہا، ’’یہ سب تو فضول ہیں۔ اگر اتنی یکسوئی مل ہی گئی ہے تو کوئی اچھی کتاب ہی پڑھ لو!‘‘ میرا ماتھا ٹھنکا۔ ساتھ ہی بات جیسے دل کو بھی لگی۔ وہ بُرا بھی لگا اور اچھا بھی۔ میں نے کہا، ’’کون سی کتاب پڑھوں؟، میں تو عمران سیریز ہی پڑھتاہوں‘‘۔ اس نے کہا، ’’اچھا! کل میں تمہیں ایک کتاب لادونگا۔ وہ پڑھنا‘‘۔ اگلے دن وہ مجھے ایک کتاب دینے آیا، جس کا نام تھا، ’’ابلیس و آدم‘‘۔ میں نے مصنف کا نام پڑھنا چاہا تو وہاں ٹیپ لگا کر نام چھپا دیا گیا تھا۔ میں نے کہا، ’’چودھری! یہ مصنف کا نام کیوں چھپایا ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا، ’’بس یہ چھپا ہی رہنے دو! مسجد میں کسی نے تمہیں اس مصنف کی کتاب پڑھتے ہوئے دیکھ لیا تو کفر کا فتویٰ لگ جائیگا‘‘۔ میرا تجسس بڑھ گیا۔ وہ چلا گیا تو میں نے ٹیپ اتار دی۔ یہ غلام احمد پرویز کی کتاب تھی۔
بس پھر اس سال کے بعد میں کبھی رمضان میں معتکف نہیں ہوا۔

4 Comments

  1. منظر کشی تو افسانہ نگار کی سی ہے جس میں لڑکپن کی معصومیت کی تصویر کیا خوبصورت پینٹ کی ہے – آگے کی بات شاید غلام احمد پرویز کی مارکیٹنگ ہے-

  2. بہت رواں اور سچی تحریر ہے۔ اور ہمارے معاشرہ کو عبادات کے ظاہری حسن سے پرے انسانی کمزوریوں اور نفسیات سے آگاہی بھی ضروری ہے۔

Comments are closed.