ملالہ، برطانیہ کی وزیراعظم؟

aik Rozan writer photo
مسعود اشعر، صاحبِ مضمون

ملالہ، برطانیہ کی وزیراعظم؟

مسعود اشعر

پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں ایک اور تاریخ ساز واقعہ۔ ملالہ یوسف زئی کو آکسفرڈ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ یہ لڑکی تاریخ پر تاریخ بناتی چلی جا رہی ہے۔ نوبیل انعام حاصل کرنے والی سب سے کم عمر شخصیت بھی یہی ہے۔ اور اتنی کم عمر میں دنیا کو پاکستان کا روشن چہرہ دکھانے والی بھی یہی لڑکی ہے۔ لندن کے ایک اخبار نے تو کمال ہی کر دیا۔ اس نے سوال کیا ہے کہ کیا مستقبل میں یہ لڑکی برطا نیہ کی وزیر اعظم بنے گی؟ اس لیے کہ اس سے پہلے برطانیہ کے چار وزیر اعظم آکسفرڈ کے ہی پڑھے ہوئے تھے۔

موجودہ وزیر اعظم سے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون بھی آکسفرڈ کے ہی پڑھے ہوئے تھے حتیٰ کہ ان کی کابینہ کے بیشتر ارکان بھی آکسفرڈ کے ہی تھے۔ حزب اختلاف کے کئی رہنما بھی اسی یونیورسٹی سے آئے تھے۔ اس اخبار نے تو اپنے ملک کا ذکر کیا ہے لیکن اگر ہم اپنے ملک پر نظر ڈالیں تو ہماری وزیر اعظم بے نظیر بھٹو بھی تو آکسفرڈ کی تعلیم یافتہ تھیں بلکہ وہ تو یونین کی صدر بھی رہ چکی تھیں۔

ہمارے عمران خان بھی اسی یونیورسٹی سے پڑھ کر آئے ہیں۔ لیکن فرق یہ ہے کہ بے نظیر اور عمران خاں کا تعلق جس طبقے سے ہے ملالہ کا دور دور تک اس طبقے سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اب ہم اس کے خاندان سے اپنا تعلق جوڑنے کی بات کریں تو ہمیں معاف کر دیجئے گا۔ یہ تعلق صرف اتنا ہے کہ ملالہ کے دادا روح الامین خاں نے رام پور کے مدرسہ عالیہ میں تعلیم حاصل کی تھی۔ ملالہ کے والد ضیاء الدین یوسف زئی اگرچہ یہ بات نہیں مانتے، اور وہ کہتے ہیں کہ ان کے والد دہلی کے کسی مدرسے میں پڑھے تھے (وہ اس مدرسے کا نام نہیں جانتے) مگر ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ روح الامین نام کے ایک طالب علم ہماری مسجد میں امام تھے۔

وہ ہمارے بڑے بھائی کے ہم درس تھے۔ روح الامین نام بھی ایسا ہے جو بھلایا نہیں جا سکتا۔ یہ عام نام نہیں ہے۔ پٹھانوں میں بھی یہ نام مشکل سے ہی ملے گا۔ اس لیے ہماری یادداشت ہمیں دھوکا نہیں دے سکتی۔ رام پور کے مدرسہ عالیہ میں بنگال سے افغانستان تک کے لڑکے تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ اس لیے کہ ایک تو وہاں ہندوستان کے نامی گرامی علما پڑھاتے تھے۔ دوسرے وہاں صرف تعلیم ہی مفت نہیں تھی بلکہ ریاست کی طرف سے کتابیں بھی مفت ملتی تھیں، اور وظیفہ بھی ملتا تھا۔

یہ ساری داستان ہم اس لیے بیان کر رہے ہیں کہ ملالہ کا تعلق کسی امیر کبیر خاندان سے نہیں ہے۔ اس کے والد نے بھی اپنی محنت اور اپنی ذہانت سے ہی یہ مقام حاصل کیا کہ اپنے بچوں کو بھی پڑھایا اور اپنے علاقے کے دوسرے بچوں کے لیے بھی تعلیم کے دروازے کھولے۔ اب یہ بھی دیکھیے کہ کچی عمر میں ملالہ کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑا اگر کوئی اور لڑکی ہوتی تو ڈر کے خاموش ہو جاتی لیکن وہ ڈٹی رہی۔ اس نے نہایت ہی تکلیف دہ آپریشن (ایک نہیں کئی آپریشن) جس بہادری سے برداشت کئے وہ اسی کا حوصلہ ہے۔ اور اس تکلیف کے باوجود اس نے اپنی تعلیم بھی جاری رکھی۔ اور آخر اس تعلیمی ادارے میں پہنچی جس کی وہ خواہش رکھتی تھی۔

کیا آپ نے اس لڑکی کی تقریریں سنی ہیں؟ اگر نہیں سنیں تو صرف وہی تقریر سن لیجیے جو اس نے نوبیل انعام حاصل کرنے پر کی تھی۔ کیا اعتماد ہے اس لڑکی کو اپنے آپ پر! یہ اس کی ذہانت اور اس کی لگن ہی ہے جس نے اسے اس مقام پر پہنچایا ہے۔

اب آ جایئے ملالہ کے برطا نیہ کی وزیر اعظم بننے کی طرف۔ برطانیہ کے اخبار نے اگر اسے اپنے ملک کا وزیر اعظم بن جانے کی بات کی ہے تو اس معاشرے کے لیے یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ یوں تو آج تک برطانیہ میں خالص انگریز کے سوا اور کوئی وزیر اعظم نہیں بنا لیکن ایک ایسے جمہوری ملک میں جہاں پورے آزادانہ اور منصفانہ انتخاب سے ہی وزیر اعظم منتخب ہوتے ہیں، وہاں ایک ایسی شخصیت بھی وزیر اعظم بن سکتی ہے جس کا تعلق گوری نسل سے نہ ہو۔

اگر براک اوباما امریکہ کا صدر بن سکتا ہے تو ملالہ جیسی پختون نژاد خاتون برطانیہ کی وزیر اعظم کیوں نہیں بن سکتی؟ (حالانکہ انگریز بہت متعصب ہوتا ہے)۔ اس منصب تک پہنچنے کے لیے الیکشن میں زیادہ ووٹ لینا ہی تو ضروری ہیں۔ لیکن ملالہ تو کہتی ہے کہ وہ یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان آ جائے گی۔ اس سے پہلے وہ یہ بھی کہہ چکی ہے کہ وہ پاکستان کی سیاست میں حصہ لے گی۔ تو کیا وہ پاکستان کی وزیر اعظم بن سکتی ہے؟

اصل سوال یہ ہے۔ وہ جو فارسی میں کہتے ہیں ’’سخن دراینست‘‘۔ تو پرنالہ یہیں مرتا ہے۔ اب ذرا اپنے آس پاس ایک نظر ڈال لیجیے اور اپنی سیاسی تاریخ کا مطالعہ بھی کر لیجیے۔ کیا کہیں اور کبھی آپ کو کوئی متوسط طبقے یا نچلے متوسط طبقے کا وزیر اعظم پاکستان میں نظر آیا ہے؟ یہاں وزیر اعظم بننے کے لیے اپنی پشت پر جاگیردار یا بڑے سرمایہ دار خاندان کا ہاتھ چاہیے۔

اگر یہاں کسی آمرانہ دور میں ٹیکنو کریٹ نام کے کسی شخص کو عبوری طور پر اس مقام تک پہنچنا نصیب ہوا ہے تو وہ بھی اپنا اعلیٰ طبقہ ہی ساتھ لایا ہے۔ پھر آج کل اپنی سیاست میں ہم جو تماشے دیکھ رہے ہیں انہیں بھی ذرا سامنے رکھیے۔ ہمارے وزیر اعظم کسی اور کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں۔ ادھر یہ ’’کوئی اور‘‘ آپ کی کسی بات پر ناراض ہوا نہیں کہ گئی آپ کی وزارت اور اس کے اختیارات۔ بے نظیر بھٹو بھی آکسفرڈ کی پڑھی ہوئی تھیں۔

انہوں نے جب تک ’’کسی اور‘‘ کی بات مانی وہ حکومت چلاتی رہیں جیسے ہی انہوں نے اپنے ہاتھ پاؤں پھیلانے کی کوشش کی انہیں ملک دشمن قرار دے دیا گیا۔ آج کل بھی کچھ ایسا ہی نظر آرہا ہے۔ مگر اصل سوال پھر بھی طبقے کا ہے۔ پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ آپ کس حلقے، کس طبقے یا کس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں؟ پھر یہ کہ آپ کے پاس ’’روکڑا‘‘ کتنا ہے؟ ہمارے انتخابات اہلیت یا خدمت کی بنیاد پر نہیں جیتے جاتے بلکہ دولت کے بل بوتے پر جیتے جاتے ہیں۔

اس لیے ملالہ بی بی کو ہمارا مشورہ ہے کہ اگر وہ واقعی کسی ملک کا وزیر اعظم بننے کی خواہش رکھتی ہیں تو کسی مغربی ملک میں ہی طبع آزمائی کریں۔ وہ کتنی ہی ذہین فطین اور کتنی ہی لائق فائق اور کتنی ہی عوام کی خدمت گزار ہوں انہیں پاکستان کی سیاست میں سوچ سمجھ کر آنا چاہیے۔ اوہو، معاف کیجیے۔

یہ سب لکھنے کے بعد خیال آیا کہ ہم کون ہوتے ہیں ملالہ جیسی عالمی شہرت رکھنے والی اور اپنے نصب العین پر ڈٹ جانے والی لڑکی کو مشورے دینے والے۔ ان سے کوئی بعید نہیں ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان آئیں، یہاں کی سیاست میں حصہ لیں، اور ہماری ساری بدگمانیاں غلط ثابت کردیں۔ اور وہ پاکستان کی وزیر اعظم بن کر ایک اور تاریخ رقم کر دیں۔ اب تک وہ نئی تاریخیں ہی تو بنا رہی ہیں۔

بشکریہ: روزنامہ جنگ