عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد کا عبداللہ جاوید نمبر

عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد

عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد کا عبداللہ جاوید نمبر

تبصرہ : پروفیسر فرحت نواز (رحیم یارخان)

ارشد خالد کی ادارت میں عکاس انٹرنیشنل اسلام آبادکا زیرِ نظر شمارہ عبداللہ جاوید نمبرہے۔ ارشدخالد کے اس رسالہ کا یہ 27 واں شمارہ ہے۔ صفحات ۴۸۰۔ عبداللہ جاوید کے بارے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ انہوں نے ۱۹۴۲ء میں اپنے قلمی سفر کا آغاز کیاتھااور اب ان کے اس ادبی سفر کے ۷۵ سال پورے ہو چکے ہیں۔اس پچھتر سالہ ادبی خدمات کے سفر کی روداد اس نمبر میں سمیٹی گئی ہے۔عکاس کے اداریہ میں ارشد خالد رقم طراز ہیں۔’’ عبداللہ جاویدسینیئر لکھنے والے ہیں۔۱۹۴۲ سے لکھتے چلے آرہے ہیں۔خوب خوب لکھنے کے دوران بیچ میں ایک دور ایسا بھی آیا جب وہ ادبی دنیا سے عملاََ الگ تھلگ ہو گئے۔ادبی دنیا کے رنگ ڈھنگ اور طور طریقے ان کے مزاج سے میل نہیں کھا رہے تھے۔پھر جیسے عام دنیا سے الگ تھلگ ہو کر بھی اسی دنیا میں جینا پڑتا ہے ویسے ہی اسی ادبی دنیا میں انہیں اپنی ادبی زندگی گزارنا پڑی۔کچھ عرصہ الگ تھلگ رہ کر پھر اسی ادبی دنیا میں لَوٹ آئے۔‘‘

ان کی ادب میں واپسی کے بعد جب حیدرقریشی نے اپنے رسالہ جدید ادب جرمنی میں ان کا گوشہ شائع کرنا چاہا تو عبداللہ جاوید نے ان کی خواہش کے جواب میں کیا ہی عمدہ بات لکھی۔

’’ قریشی صا حب !آپ کی حِس مزا ح نہا یت بر جستہ ہے۔ ابھی کی بات ہے ٹیلیفونی بات چیت میں آپ نے کتنا بر جستہ کہا تھا ’’ آپ گوشہ نشین کیسے ہوئے۔۔؟ گوشہ نشین تووہ ہوتا ہے جس کا گوشہ شا ئع ہو جا تاہے۔‘‘ ابھی میں آپ کے اس فقرے کا پوری طرح مزہ بھی نہ لے پایا تھا کہ خبر ملی کہ آپ مجھ کو ’’ گوشہ نشین‘‘ کر نے کا ارادہ کر رہے ہیں ۔میں نے لڑکپن میں اپنی والد ہ کو یہ کہتے سنا تھا ’بن مانگے موتی ملے ، مانگے ملے نہ بھیک ‘ یہ کہا وت میری کمزو ری بن گئی کیونکہ بعد میں۔۔۔ شعرو ادب کا جو ماحول بنا اس میں موتی تو موتی معمو لی کنکر ‘ پتھر بھی بن مانگے ملنا قطعی بند ہو گئے بلکہ مانگنا۔۔۔ بھیک مانگناہو کر رہا ،یا پھر۔۔۔آگے بڑھ کر۔۔۔سفا رش سے حا صل کر نا‘ ہتھیا لینا ‘ جھپٹ لینا ‘ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ بھائی یہ میں چاہتا تھا جو آپ بن مانگے دینے جا رہے ہیں ۔ میں تو حیران ہوں اورآپ کا تہہ دل سے شکر گذار ہوں۔ ‘‘ (عکاس عبداللہ جاوید نمبر ص ۳۹)

عکاس کے عبداللہ جاوید نمبر کو چھ حصوں یا ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلے باب میں ان کے کوائف،ان کی شخصیت ،شاعری اور افسانہ نگاری پرملے جلے مضامین اور تاثرات شامل ہیں۔اس میں ارشدخالد،حسن عابدی، الیاس عشقی،اکرام بریلوی،رضی مجتبیٰ،ستیہ پال آنند،حیدرقریشی،اے خیام،مبین مرزا،شہناز خانم عابدی،صابر وسیم اور صابر ارشاد عثمانی کی تحریریں شامل ہیں۔دوسرے باب میں عبداللہ جاوید کی منفرد کتاب’’مت سہل ہمیں جانو۔۔آئیے میرؔ پڑھیے‘‘پرڈاکٹر جمیل جالبی،محمد سلیم الرحمن،حیدرقریشی،اے خیام،عقیل دانش،نسیم انجم،رئیس فاطمہ،شہناز خانم عابدی اور رضی مجتبیٰ کے مضامین اور معین الدین عقیل اور فرحت نواز کے تاثرات شامل ہیں۔عکاس کے عبداللہ جاوید نمبر کے تیسرے باب میں ان کی ایک اور منفرد کتاب’’آگ کا دریا۔۔۔ایک مطالعہ‘‘پر ادیبوں کے مضامین اور تاثرات شامل کیے گئے ہیں۔اس باب کے لکھنے والوں میں مبین مرزا،مظہر جمیل،اے خیام،عامر سہیل،عقیل دانش اور بیدار بخت شامل ہیں۔

عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد کے عبداللہ جاوید نمبر کا چوتھا باب ان کے ۳۲ تنقیدی و تاثراتی مضامین کے انتخاب پر مشتمل ہے۔چند مضامین کے عنوان یہاں دے رہی ہوں۔ادب اور قومی مسائل،پاکستان میں ثقافتی اتحاد کی ضرورت،مولانا جلال الدین رومی اور شمس تبریز،غالب شناسی کی روایت،فراق گورکھ پوری،بابائے اردو مولوی عبدالحق،میرا جی جس کا ہنوز انتظار ہے،اداس نسلیں۔۔ایک جائزہ،قدرت اللہ شہاب کی ’’بیوی جی‘‘،ن م راشد،لسانی تشکیلات،اردو شعروادب اور تنقید کا اہم نام۔ڈاکٹر وزیر آغا،ناصر کاظمی،سجاد باقر رضوی اور میں،حبیب جالب،واجدہ تبسم،پروین شاکر۔اس کا عہد اور شاعری، عمرِ لاحاصل کا حاصل۔۔میں شامل افسانے،استعارہ مِری ذات کا اور پارٹ ٹائم شاعری۔ان عنوانوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بحیثیت نقاد عبداللہ جاوید ادبی و قومی مسائل کو بھی زیرِ بحث لاتے ہیں۔اہم علمی اور ادبی شخصیات کے فن کو بھی اپنا موضوع بناتے ہیں اور میرے جیسے نسبتاََ نئے اور گم نام لوگوں کی تخلیقات پر بھی فراخ دلی سے لکھ کر حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اس خاص نمبر کے پانچویں باب میں شہناز خانم کے خصوصی نوٹ کے ساتھ عبداللہ جاوید کے تیرہ منتخب افسانے پیش کیے گئے ہیں۔ان افسانوں میں عبداللہ جاوید کا ۱۹۴۲ء میں لکھا گیاسب سے پہلا افسانہ ’’جب کوئلیں چلا رہی تھیں‘‘بھی شامل ہے جبکہ دوسرے افسانوں میں اللہ میاں،میری بیوی،آگہی کا سفر،چھت سے گرنے والی لڑکی،ہونے کا درخت اور دخترِ آب جیسے افسانے بھی شامل کیے گئے ہیں۔باب نمبر چھ میں ۵۸ غزلوں اور ۴۰ نظموں پر مشتمل عبداللہ جاوید کی شاعری کا مختصر سا انتخاب درج کیا گیا ہے۔مختلف صفحات پر مضامین کے آخر میں بچ رہنے والی جگہ پر شمس الرحمن فاروقی،ابوالخیر کشفی،دیویندر اسر،رئیس امروہوی،انوار احمد زئی،جوگندر پال،فیروز ناطق خسرو اور خود عبداللہ جاوید کے اقتباسات سلیقے کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔’’آخری لمحہ میں موصولہ‘‘کے تحت عبداللہ جاوید کی صاحبزادی ڈاکٹر ہماعالم اور ان کے صاحبزادے سہیل جاوید کے تاثرات کو شامل کیا گیا ہے۔یہ تحریریں پدری محبت اور ادب دونوں میں گندھی ہوئی ہیں۔

فرحت نواز
پروفیسر فرحت نواز، تبصرہ کار

آپا دھاپی اور نفسا نفسی کے اس دور میں جب ہمارے بیشتر شاعروں اور ادیبوں نے اپنی عظمت کا پرچم آپ ہی بلند کر رکھا ہے ارشد خالد نے عبداللہ جاوید جیسے بزرگ اور گوشہ نشین ادیب کی پچھتر سالہ ادبی زندگی پر یہ ہدیۂ تہنیت پیش کرکے ادبی نیکی کا کام کیا ہے۔حق بحقدار رسید!۔۔۔عکاس کا عبداللہ جاوید نمبر حاصل کرنے کے لیے ارشد خالد سے اس نمبر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

0300-511 47 39

اور اب آخر میں عبداللہ جاوید کی دو مختلف غزلوں کے دو اشعار پر یہ تبصرہ ختم کرتی ہوں۔

جس کو بھی دی صدا ، وہ بڑی دیر سے ملا

جو بھی بھلا لگا ، وہ بڑی دیر سے ملا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زندگی جاویدؔ گز ری حرف حرف

واسطہ لکھنے لکھانے سے رہا