تاریخ کے مخفی کتب خانے

تاریخ کے مخفی کتب خانے

تاریخ کے مخفی کتب خانے

ترجمہ: فیاض ندیم

[ دمشق میں زیرِ زمین ریڈنگ روم سے متعلق خبر پھیلنے کے بعد فیانا میکڈونلڈ نے ایسی جگہیں دریافت کیں، جہاں صدیوں سے تحریر کو چھپایا گیا تھا۔ فیانا میکڈونلڈ کا یہ مضمون BBC Culture کے ویب سائٹ پر 19 اگست 2016 کو شائع ہوا۔]

دمشق کے مضافات میں گلیوں کے نیچے، تختوں پر وہ کتابیں موجود تھیں جنہیں عمارتوں پر بمباری کے دوران محفوظ کیا گیا تھا۔ گذشتہ چار برسوں میں درریّا کے محاصرے کے دوران رضا کاروں نے گولہ باری سے تباہ شدہ گھروں میں سے چودہ ہزار کتابیں اکٹھی کیں۔ انہیں اس خوف سے ایک خفیہ جگہ پر رکھا گیا ہے کہ انہیں حکومت اور صدر اسد نواز قوتیں نشانہ بنا سکتی ہیں۔ قارئین کو اس جگہ تک پہنچنے کے لیے بارود اور گولہ باری سے بچتے بچاتے آنا پڑتا ہے۔ اسے شام کی خفیہ لائبریری کہا جاتا ہے اور بہت سے اہل ذوق اس کتب خانے کو ایک اہم وسیلہ  تصور کرتے ہیں۔ ’’ ایسے محسوس ہوتا ہے ایک طرح سے جیسے لائبریری نے مجھے زندگی لوٹا دی ہے۔‘‘ ایک باقاعدگی سے آنے والے صارف عبد ا لباسط الاحمر نے بی بی سی کو بتایا، ’’میں کہوں گا کہ جیسے ایک جسم کو خوراک کی ضرورت ہوتی ہے، بالکل اسی طرح روح کو کتاب کی ضرورت ہوتی ہے۔

فیاض ندیم

کتابوں کو مختلف ادوار تاریخ میں مذہبی اور سیاسی دباؤ کی وجوہات سے چھپایا جاتا رہا ہے۔۔۔ کبھی انہیں مخفی ذخیروں کی صورت میں رکھا جاتا، تو کبھی ذاتی مجموعوں کی شکل میں ۔۔۔ ان میں سے ایک کو اب ’’ غار کے اندر کا کتب خانہ” کہا جاتا ہے۔

غار کے اندر کا کتب خانہ

چین میں صحرائے گوبی کے کنارے پر درگاہوں کے نیٹ ورک کے ایک حصّے کو ’’ ہزار بدھا غار‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسے تقریباََ ایک ہزار سال تک لوگوں کی دسترس سے دورکھا گیا۔ 1900 میں ایک تاؤ راہب، وانگ یوانلو، جو غاروں کا ایک غیر سرکاری رکھوالا تھا، اس نے ایک خفیہ دروازہ دریافت کیا۔ یہ خفیہ دروازہ ایک ایسے کمرے میں کھلتا تھا جس میں چوتھی صدی سے لے کر گیارہویں صدی تک کے مسودات بھرے ہوے تھے۔

وانگ کے رابطہ کرنے پر صوبائی حکومت نے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ لیکن اس غار کی خبر پھیل گئی اور ایک ہنگری نژاد کھوجی اوریل سٹیل نے وانگ کو دس ہزار مسودے بیچنے پر آمادہ کر لیا۔ پھرفرانس، روس اور جاپان کے مندوبین آئے اور زیادہ تر قدیم مسودے غار سے چلے گئے۔ معروف جریدے نیویارکر کے مطابق، 1910 تک جب چینی حکومت نے بقیہ مسودوں کو بیجنگ منتقل کرنے کا حکم دیا، اس وقت تک اصل ذخیرے کا محض پانچواں حصہ باقی بچا تھا۔

اس کے باوجود اصل مسودے اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں: ذخیرے کو ڈیجیٹل شکل دینے کی ابتدا 1994 میں ہوئی۔ دنیا بھر کے شراکت داروں کے ساتھ، برٹش لائبریری کی سر کردگی میں، دی انٹرنیشنل ڈن ہانگ پراجیکٹ کا مقصد یہی ہے۔ جیسا کہ دی نیو یارکر نے لکھا، ’’آرام دہ کرسیوں پر بیٹھ کر محفوظات کو کھنگالنے والے اب دنیا کے قدیم ترین سٹار چارٹ دیکھ سکتے ہیں۔ ایک تاجر کی بابیلون سے چائنہ جاتے ہوئے عبرانی میں لکھی ہوئی دعا کو پڑھ سکتے ہیں، ایک مسیحی صوفی کی بدھستوا کے روپ میں بنائی ہوئی پینٹنگ دیکھ سکتے ہیں، ایک غلام لڑکی کی فروخت کا معاہدہ پڑھ سکتے ہیں، جسے ریشم کے ایک تاجر کی قرض کی ادائیگی کے لئے بیچا گیا تھا، یا ترک زبان کے حروف میں لکھی گئی علمِ غیب کی کتاب کو پڑھ سکتے ہیں۔

غار کو کیوں بند کیا گیا تھا؟ کوئی نہیں جانتا۔ سٹین کے مطابق یہ اُن کتابوں کو محفوظ کرنے کا طریقہ ہو سکتا ہے، جو استعمال میں نہیں ہوتی تھیں۔ لیکن اہم ہونے کی وجہ سے انہیں پھینکا بھی نہیں جا سکتا تھا، یعنی یہ ایک قسم کا متبرک فضلہ تھا۔ پال پیلیوٹ جو چینی علوم کا ماہر فرانسیسی ہے، اس کا قیاس ہے کہ ایسا 1035 میں ہوا جب ژی ژیا سلطنت نے ڈنیانگ پر حملہ کیا۔ چینی عالم رونگ ژن جیانگ کی رائے ہے کہ غار کو اسلامی حملہ آور خارا خانوف کے خوف سے بند کیا گیا تھا، جس کا حملہ کبھی ہوا ہی نہیں ۔

اس کو چھپانے کی کوئی بھی وجہ ہو، غار کے مواد نے، ایک صدی سے، جب سے یہ دریافت ہوا ہے، تاریخ کو بدل کے رکھ دیا ہے۔ ڈائمنڈ سوترا جو ڈن ہاؤنگ کی ایک دستاویز ہے، بدھ مت کا انتہائی متبرک کام ہے۔ برٹش لائبریری کے مطابق غار میں موجود نقل کی عمر 868 AD ہے۔ یہ دنیا کی ایسی پہلی مکمل دستاویز ہے جسے اپنی تاریخ کے ساتھ چھاپا گیا ہے۔ یہ اس بات کی یاد دہانی کرواتی ہے کہ کاغذ اور طباعت کی ابتدا یورپ میں نہیں ہوئی۔ نیو یارک جریدے کے مطابق، ’’ طباعت کی ابتدا دعا کی شکل میں ہوئی۔ دعائیہ پہیے کو گھمانے کے مترادف، یا یروشلم میں مغربی دیوار پر نوٹ کی طرح، لیکن صنعتی پیمانے پر‘‘

ایک رخ اور ایک عبادت

مذہبی متون کا ایک اور خفیہ خزانہ جس کی معلومات دستیاب ہیں، 1612 میں دریافت ہوا۔ اگرچہ یہ ابھی بھی سازشی نظریات کے موضوع کے طور پر زیرِ بحث رہتا ہے۔ ویٹیکن کے محفوظات (archives) ہزار سال سے بھی پہلے کے پوپ کی خط و کتابت کو ظاہر کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ ڈان براؤن کے ناول ’’ اینجلز اینڈ ڈیمن‘‘ میں ایلومی ناٹی کے ساتھ لڑنے والے ہارورڑ ماہرِ علامیات کے طور پر ظاہر ہوئے۔ ذخیرے کے افواہوں کا حصہ بننے والے مواد میں غیر ارضی کھوپڑیاں، حضرتِ عیسٰی کے قتل سے متعلق تحریریں، ٹائم مشین جو کرونووائر کہلاتی ہے، جسے بینیڈکٹ راہب نے اس لئے بنایا تھا تاکہ وہ پچھلے وقتوں میں جا سکے، اور حضرت عیسٰی کی مصلوبیت کی فلم شامل ہیں۔ اس ساری داستان کو عیاں کرنے کی غرض سے اس ذخیرے تک رسائی حاصل کر کے کھولا گیا ہے اورر ان محفوظات میں سے حاصل ہونے والی دستاویزات کی ایک نمائیش روم میں کیپیٹولائن میوزیم میں لگائی گئی۔ پوپ لیو XIII نے پہلے پہل دیکھے بھالے کچھ سکالرز کو 1881 میں جائزے کی اجازت دی۔ اور اب بہت سارے محقیقین انہیں دیکھ سکتے ہیں، اگرچہ ان دستاویزات کی دیکھ پرکھ اور ٹٹول ابھی بھی ممنوع ہے۔ سیکرٹ، لاطینی زبان کے لفظ سیکریٹم سے آیا ہے، جس کے قریب قریب معانی نجی ملکیت کے ہیں۔ ابھی بھی محفوظات کے بہت سے حصوں تک پہنچ ممنوع ہے۔

سکالرز کو 1939 سے پوپ کے کاغذات کو دیکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ جب جنگ کے دنوں میں متنازع پونٹف پائیس پوپ بنا، اور محفوظات کا ایک حصہ جو افضلین کے ذاتی معاملات سے متعلق تھا، 1922 سے اس تک رسائی ممنوع ہے۔

یہ محفوظات کنکریٹ کے بنکر میں واقع سینٹ پیٹر باسیلکا کے پچھلے حصے میں، جہاں سوئس محافظوں اور افسران جو کہ ویٹیکن کی اپنی پولیس فورس میں سے ہیں، کی حفاظت میں ہیں۔ یہ یہاں پر موجود لفظوں کی طاقت کو مزید تقویت بخشتے ہیں۔

ویٹیکن کی موزارٹ، ایراسمس، شارلمین، والیٹئر اور ایڈولف ہٹلر جیسی شخصیات کے درمیان خط و کتابت کے ساتھ ساتھ یہاں پر بادشاہ ہنری ہشتم کی آرگوان کی کیتھرین سے نکاح کی منسوخی کی درخواست بھی ہے جسے پوپ کلیمنٹ ہفتم نے ماننے سے انکار کر دیا تھا، تو ہنری نے طلاق دے دی، جو روم کی چرچ آف انگلینڈ سے علیحدگی کا باعث بنی۔

محفوظات میں پوپ لیو دہم 1521 کا وہ حکم نامہ بھی شامل ہے جس میں مارٹن لوتھر کو دین نکالا دیا گیا تھا، گلیلیو کے خلاف بدعت کے مقدمے کا ہاتھ سے لکھی ہوئی جرح کی کارروائی بھی شامل ہے، اور مائیکل اینجلو کا وہ شکایتی خط بھی شامل ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ اسے سیسٹائن چیپل کے کام کا معاوضہ ادا نہیں کیا گیا۔

دیوار کی ایک اور اینٹ

پرانے قاہرہ میں ایک ذخیرہ جو مصلح محافظوں کی حفاظت میں تو نہیں تھا، لیکن اسے صدیوں سے نظر انداز کیا گیا تھا، مصر میں اس وقت تک گم گشتہ رہا جب تک کہ ایک رومن یہودی نے اس کی اہمیت نہیں جان لی۔ جیکب سافر نے اس گنجینہ کا ذکر اپنی تصنیف میں 1874 میں کیا۔ لیکن پھر بھی 1896 تک اسے کوئی نہ جانتا تھا، جب سکاٹ لینڈ کی جڑواں بہنوں ایگنس لیوس اور مارگریٹ گبسن نے اس کے کچھ مسودے اپنے کیمبرج یونیورسٹی کے فیلو سولومون شیسٹر کو دکھائے تو اس خزانے کو شہرت ملی۔

بن عزرا کنیسہ کی دیوار میں چھپے 280,000 عبرانی نسخوں کے ٹکڑے تھے: جنہیں کائرو گنیزاح کہا گیا ہے۔ یہودی قانون کے مطابق کوئی بھی تحریر جس میں خدا کا نام درج ہو پھینکی نہیں جا سکتی۔ ایسی تحریروں میں سے جو نیچے گر جاتی ہیں انہیں کنیسیہ کی دیوار کے ایک حصے میں یا قبرستان میں اس وقت تک ذخیرہ کر لیا جاتا تھا، جب تک کہ انہیں باقاعدہ دفن نہیں کروا دیا جاتا تھا۔ اس مخزن کو گنیزاح کہا جاتا ہے، جس کا عبرانی سے مطلب ’’چھپا دیا گیا‘‘ ہے۔ جنہیں بعد میں محفوظات(archives)کہا جاتا ہے۔

فیوسٹیٹ میں 1000 سال تک یہودی کمیونٹی اپنی تحریروں کو مقدس ذخیروں میں جمع کرتی رہی۔ اور کائرو گنیزاح کو بن چھوئے رکھا گیا۔ نیویارکر جریدے کے مطابق: ’’ قرونِ وسطٰی کے یہودیوں نے شاید ہی خدا کا ذکر کئے بغیر کچھ لکھا ہو۔ چاہے ذاتی خطوط ہوں یا، خریداری کی فہرستیں‘‘ اور نتیجے میں ’’ ہمارے پاس ایک منجمد پوسٹ بکس ہے، جس کے اندر دو لاکھ پچاس ہزار ٹکڑے ہیں جو مصر میں نویں سے لے کر انیسویں صدی تک کی زندگی کے بے مثال ذخیرے پر مشتمل ہے۔ اس طرح کا وسیع اور اتنا مکمل کوئی اور ریکارڈ موجود نہیں ہے۔‘‘

بَین آوتھویٹ، جو کیمبرج میں گنیزاح ریسرچ کے سربراہ ہیں، نے نیویارکر کو بتایا کہ سکالرز کے لئے کائرو گنیزاح کا ذخیرہ کتنا اہم ہے، ’’ اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہ ہو گی اگر کہا جائے کہ جو کچھ ہم یہودیت، مشرقِ وسطٰی اور بحیرۂ روم کے بارے قرونِ وسطٰی میں جانتے تھے، دوبارہ لکھا ملا ہے۔‘‘

ٹکڑوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہودی تاجر عیسائیوں ا ور مسلمانوں سے تعاون کرتے تھے اور یہ کہ یہودیوں کے ساتھ اس سے کہیں زیادہ رواداری کا سلوک ہوتا تھا، جیسا کہ ہم اس سے پہلے تصور کرتے تھے، اور یہود دشمنی ہماری سوچ سے کہیں کم تھی۔ اس ذخیرے کی اہمیت کا اعتراف بڑھتا جا رہا ہے۔ 2013 میں آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی کی لائبریریوں نے اس ذخیرے کو محفوظ رکھنے کے لیے چندہ جمع کیا ۔۔۔ انہوں نے پہلی دفعہ اس طرح مل کر کام کیا ہے۔

اسی دوران ڈیوڈ ابولافیا جو،’’ دی گریٹ سی: بحیرۂ روم کی انسانی تاریخ کے مصنف ہیں نے کہا، ’’ کائرو گنیزاح کی دستاویزات ایک سرچ لائٹ کی مانند ہیں، جو بحیرۂ روم کی تاریخ کے تاریک کونوں کو منور کرتی ہے۔ اور نا صرف قرونِ وسطیٰ کے مصر، بلکہ دور دراز کے علاقوں کے یہودیوں کی معاشرتی، معاشی اور مذہبی زندگی پر بھرپور روشنی ڈالتی ہیں۔ یورپی اور اسلامی دنیا میں اس کے پلّے کا کوئی اور ذریعہ دسویں سے بارہویں صدیوں کی تاریخ سے متعلق نہیں ہے۔

بین السطور

1913 میں قرونِ وسطٰی کی کتابوں کے ایک ولندیزی تاریخ دان ایرک کواکّل نے ’’ ایک قابلِ ذکر دریافت‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ جو لیڈن یونیورسٹی کی ایک کلاس جسے وہ پڑھاتا تھا، اس کے طلباء نے کی تھی۔ اس نے ایک بلاگ مضمون جس کا عنوان ’’ قرونِ وسطٰی کے چھپے ہوئے محفوظات کا ظاہر ہونا‘‘ میں ذکر کیا ہے، ’’جبکہ طلبا اجلاد کی باقیات کا منظم انداز سے جائزہ لے رہے تھے، انہیں 132 نوٹس، خطوط، اور رسیدیں ملیں جو رائن کے علاقے سے نا معلوم عدالتی یاداشتیں ہیں اور کاغذ کے چھوٹے ٹکڑوں پر لکھی گئی ہیں۔ یہ 1577 میں چھپنے والی ایک کتاب کی بائنڈنگ میں چھپی ہوئی تھیں۔‘‘

نہ پھینکے جا سکنے والے متروکہ فضلہ کی بجائے یہ ٹکڑے ایک ایسا ملبہ  ہے جسے کتب کی جلدیں کر نے والوں نے ری سائیکل کر دیا تھا۔ کواکّل نے لکھا ہے کہ قرونِ وسطیٰ کے لکھے ہوئے مواد کی ری سائیکلنگ، ابتدائی جدید (قرونِ وسطیٰ) جلد سازوں کی ورکشاپس میں ایک معمول تھا۔ ’’ جب 1577 کی چھپی ہوئی ایک کتاب کو جلد میں پرویا جانا تھا، جلد سازوں نے ان 132 کاغذ کے ٹکڑوں کو اپنے نیلے ری سائیکلنگ والے ردی کے ڈبے میں سے نکالا، اور ہو سکتا ہے گیلا ہی گتّے کے ٹکروں میں ڈھال دیا ہو ۔ اس نے کہا، ’’ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو الفاظ کبھی بھی آنے والے وقتوں کے لوگوں کے لئے نہیں تھے، آج بھی پڑھے جا سکتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کاغذ کے ٹکڑے اس لئے بھی قابلِ ذکر ہیں کہ یہ قرونِ وسطیٰ کی لکھی گئی اشیا کبھی کبھار ہی باقی بچ رہتی ہیں ۔۔۔۔ چند ہی جگہیں ایسی ہیں جہاں اس طرح کی اشیاء صدیوں سے بلا خلل دبی ہوئی ہیں۔” اُس کے مطابق، ’’اس طرح سے ان کا لمبا سفر ہماری جدید دنیا کی طرف شروع ہوا، ایک بھگوڑے کی مانند۔۔۔۔ سولھویں صدی کے مواد سے لفٹ لے کر۔

رسیدوں، افسران کے نام، عرضیوں اور خریداری کی فہرستوں سمیت یہ ذخیرہ تاریخ دانوں کے لئے نایاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ کواکّل نے لکھا ہے کہ، ’’ اس طرح کے پیغامات ہمیں حقیقی قرونِ وسطیٰ کے اتنا قریب لے جاتے ہیں، جتنا ہم جا سکتے ہیں۔ یہ قرونِ وسطیٰ کی آوازیں ہیں۔ جنہیں ہم عام طور پر نہیں سنتے، یہ زمین پر پیش آئے واقعات کی کہانی سناتے ہیں۔‘‘

مزید یہ کہ یہ ذخیرہ اس سے کہیں بڑا ہو سکتا ہے جتنا پہلے سوچا گیا تھا۔ ایکس رے تیکنیک جسے پینٹنگز کی سطح سے نیچے مشاہدہ کے لئے اور ترکیب کے ابتدائی مراحل کا پتہ لگانے کے لئےوضع کیا گیا تھا، اس کو استعمال کرتے ہوئے کواکّل نے کتابوں کی بھربھری جلدوں میں سے دیکھنے کا طریقہ ایجاد کیا۔ اس تکنیک کی مدد سے اکتوبر 2015 میں اس نے لیڈن یونیورسٹی کی لائبریری میں چھپی ہوئی کتابوں کا معائنہ کرنا شروع کیا۔

نئی تکنیک اس لحاظ سے حیران کن ہے کہ یہ قرونِ وسطیٰ کے اُن پرزوں کو دکھا سکتی ہے بصورتِ دیگر جنہیں نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ کیونکہ یہ چرمی کاغذ  کی تہہ کے نیچے چھپے ہوئے ہیں۔ کواکل نے اپنے پوشیدہ لائبریری پراجیکٹ کے بلاگ میں لکھا، ’’ جبکہ تیکنیک میں بہتری کی ضرورت ہے، یہ ایسے عمل کی طرف اشارہ ہے، جو لائبریری میں پوشیدہ لائبریریوں کو ظاہر کر سکتا ہے۔‘‘

’’ ممکن ہے ہم قرونِ وسطیٰ کی لائبریری تک پہنچ سکیں، اگر ہم جلدوں میں چھپے ہوئے ہزاروں مسودوں کے ٹکڑوں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔‘‘

About فیاض ندیم 14 Articles
پنجاب یونیورسٹی لاہور سے حیاتیات میں گریجویشن اور ماسٹرز کیا۔بعد ازاں انھوں نے اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ’’ تعلیمی انتظام و انصرام‘‘ میں ماسٹرز بھی کیا اور آج کل ’’تعلیمی انتظام و انصرام ‘‘(EPM) میں ایم ایس کر رہے ہیں۔فیاض ندیم کری کولم ونگ(curriculum) سے بھی گاہے گاہے وابستہ رہے ہیں۔ انھوں نے سکول اور کالج کی سطح کے حیاتیات کے مضمون کے نصاب کی تیاری میں بھی حصہ لیا اُن کی لکھی اور نظر ثانی کی ہوئی درسی کتابیں کے پی کے اور وفاقی تعلیمی اداروں میں پڑھائی جا رہی ہیں فیاض ندیم اسلام آباد کے ایک سرکاری کالج سے بطور استاد منسلک ہیں۔ اُن کا شعبہ حیاتیات اور نباتیات ہے۔