پاکستان کو حفظان صحت کے انقلاب کی اشد ضرورت ہے

پاکستان کو حفظان صحت کے انقلاب

پاکستان کو حفظان صحت کے انقلاب کی اشد ضرورت ہے

(فہد راؤ) 

ورلڈ بنک کے مطابق 1960ء میں پاکستان کی فی کس آمدنی چین سے دو گنا زیادہ تھی جبکہ 2015ء میں پاکستان نے چار گناتک بڑھائی ہے جبکہ اسی دوران چین کی فی کس آمدنی میں 25گنا تک اضافہ ہوا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ چین کاسپر پاور کے طور پر ابھرنا 60سالہ اصلاحات کا نتیجہ ہے۔ 1949ء اقتدار میں آنے کے بعد ماؤزے تنگ نےچین کی معیشت کو براہ راست بہتر بنانے کی کوشش کی لیکن بتدریج انہیں احساس ہوا کہ عوام کو بہت سے بنیادی چیلنجز کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر چین میں 1960ء اوسطاً عمر 30سال تھی جبکہ اسی عرصے میں پاکستان میں اوسط عمر 47سال تھی۔ زیادہ تر ہلاکتیں حفظان صحت کے اصولوں سے عدم آگاہی کی وجہ سے ہوتی ہیںجو وبا کو کئی گنا زیادہ بڑھا دیتی ہے۔ چین کی 80فیصد آبادی دیہات میں رہتی تھی اور انہیں طبی ماہرین کی سہولتیں کم دستیاب تھیں اس لئے صورتحال بہت سنگین تھی۔

ماؤ نے ان مسائل سے نپٹنے کیلئے اپنی توجہ معیشت سے سماجی فلاح و بہبود پر منتقل کردی اور 1960ء میں طبی سہولتوں کی فراہمی کو ادارہ جاتی نظم کے تحت لے آئے۔ بہت زیادہ آبادی ہونے کے سبب چین کو طبی سہولتوں کی فراہمی کی حکمت عملی بہتر بنانے کی ضرورت تھی۔ ماؤ نے صحت کی سہولتوں کیلئے پہلے قدم کے طور پر ننگے پاؤں ڈاکٹر(Barefoot Doctors)کا پروگرام شروع کرکے اٹھایا جس کے تحت کسانوں کو بنیادی طبی اور پیرا میڈیکل سہولتوں کی تربیت دی جاتی تھی۔ طبی ماہرین کے فرائض میں شامل تھا کہ کسانوں کو حفظان صحت کے اصولوں کے بارے میں آگاہ کرنا اور انہیں ایمرجنسی میں ابتدائی طبی سہولت فراہم کرنے کی تربیت فراہم کرنا تھا۔ ان اقدامات کے نتیجے میں چین میں اگلی چار دہائیوں میں متوقع عمر دوگنا ہو گئی۔ ماؤ زے تنگ نے چین میں صحت سے متعلق بہت سے اقدامات کئے تاہم اس کے نتائج دیکھنے کے لئے وہ خود حیات نہ رہے۔ ماؤ کے بعد ڈینگ ژیاؤ پینگ اقتدار میں آئے تو انہوں نے چین میں پیسے کو متعارف کروایا۔ ان کی معاشی پالیسیوں پر توجہ نے چین کو ترقی کی شاہراہ پر لے آئی۔ یہ چین ہے جس کے بارے میں دنیا کو بتدریج معلوم ہونا شروع ہوا۔ ماضی کے آئینے میں تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ معاشی بہتری سے پہلے سماجی سطح پر فلاح و بہبود کا کام ہونا چاہئے۔ چین میں صحت کی دیکھ بھال کے انقلاب نے معاشی معجزہ میں اہم کردار ادا کیا۔

کیا اس میں پاکستان کیلئے کوئی سبق ہے؟

اس وقت 63فیصد پاکستانی آبادی دیہات میں رہتی ہے جہاں پر معیاری طبی سہولتوں کا فقدان ہے۔ یہاں پر طبی ماہرین کا بہت بڑا خلا ہے، طبی تعلیم سے عاری نیم حکیموں، جادوگر ڈاکٹروں اور متبادل میڈیسن پریکٹیشنرز سے بھرا ہوا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان دو ممالک میں سے ایک ہے جو پولیوختم کرنے کی ابھی تک کوششیں کررہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بیماری کے بارے میں معلومات نہ ہونا ہے۔ شیزوفرینیا، خود تسکینی بے قابو ہو چکی ہے۔ جبکہ جنسی اور پیدائش کے وقت صحت کے مسائل کاصحیح طور پر علم ہی نہیں۔ اپنے عروج کے وقت چین میں بئیر فُٹ ڈاکٹروں نے 90فیصد علاقہ تک رسائی حاصل کی۔ پاکستان میں اس قسم کے پروگرام کو شروع کرنے کیلئے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری اور70فیصد پاکستان تک رسائی کیلئے 30لاکھ لوگوں کی ضرورت ہے۔ اس میں نالائقی اور بدعنوانی کو بھی شامل کرلیں تب اس کے نتائج چند دہائیوں کے بعد ظاہر ہونا شروع ہوں گے۔

ہیلتھ کئیر نظام کو عطیہ کرنے والی ایجنسیاں مثلاً ڈی آئی ایف ڈی اور یو ایس ایڈاور حکومتیں فروغ دیتی ہیں۔ بین الاقوامی ادارےمقامی شریک اداروں کے ساتھ مل کر ملک کے صحت کے مسائل دور کرنے کیلئے کام کررہے ہیں۔ مقامی مجاز افراد کو بین الاقوامی سطح پر اختراعی مراکز سلیکون ویلی، ژونگوانکُن، بینگلور، سیول، تل ابیب کی مثالیں سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک پاکستانی کمپنی نے حال ہی میں پائلٹ پراجیکٹ شروع کیا ہے جس کے تحت دیہی علاقوں میں کے شہری علاقوں کے ڈاکٹرز سے رابطہ کرکے طبی مشورہ لے سکتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں رہنے والے مستند ڈاکٹر سے ایمرجنسی سے ہٹ کر مطلوبہ طبی مشورہ لے سکے گا۔

بشکریہ: ٹیکنالوجی ریویو ڈاٹ پی کے