سنو یہ نیم کا بوڑھا درخت مت کاٹو!: بوڑھے ا ور ہمارے منفی رویّے

(احمد علی جوہر)

 

احمد علی جوہر ،جواہرلعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی کے’’ ہندوستانی زبانوں کا مرکز‘‘میں ریسرچ اسکالر ہیں۔ ہندوستانی سماج کے علاوہ پاکستان اور ہندوستان کی مشترکہ تہذیب پر بھی گہرتی نظر رکھتے ہیں۔ زیریں نظر آرٹیکل میں پاکستانی سماج کا منظر نامہ بھی کچھ اس سے مختلف نہیں (ادارہ ’’ایک روزن‘‘)

————————————————————————-

آج ہمارے سماج میں غیرانسانی رویّوں اور منفی اقدار کا بول بالا ہوتا جارہا ہے۔ ان ہی منفی

مصنف:احمد علی جوہر
مصنف:احمد علی جوہر

اقدار کا ایک خطرناک پہلو بوڑھوں کے تئیں سماج کا منفی رویّہ ہے جو انتہائی سنگین رُخ اختیار کرتا جارہا ہے۔ قبل اس کے کہ یہ رویّہ جسے ہم ایک ناسور سے تعبیر کر سکتے ہیں، سماج کو تباہی وبربادی کے آخری دہانے پر لے جائے، ہمیں اجتماعی طور پر اس اہم اور نازک مسئلہ پر انتہائی سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ کل جب ہم بڑھاپے کی منزل میں داخل ہوں گے، ہمیں انتہائی بدترین اور دردناک مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آج ہم اکیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں۔ اس صدی میں تمام شعبہ ہائے زندگی میں مختلف قسم کی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ خاندان اور سماج میں بھی بڑا بدلاؤ آیا ہے۔ اب مشترکہ خاندان کے تصور کی جگہ نیوکلئیر فیملی کے تصور نے جڑ پکڑنا شروع کردیا ہے۔ اس کی وجہ سے جہاں خاندان اور سماج ٹوٹ پھوٹ اورتخریب وانتشار کا شکار ہورہا ہے، وہیں بوڑھوں کو بھی سنگین قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آج کے سماج میں بوڑھوں کے ساتھ برتے جانے والے منفی رویّوں پر روشنی ڈالنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سماج میں بوڑھوں کی اہمّیت کو جانتے چلیں۔
یہ ایک بدیہی سچّائی ہے کہ بوڑھے یعنی بزرگ خواتین ومرد حضرات ہمارے خاندان اورسماج کے لیے بڑے اہم ہیں۔ انسانی تاریخ کا وہ روشن باب بھی ہماری نگاہوں کے سامنے ہے جب ہم دادی، نانی کی آغوش میں سبق آموز قصّے کہانیاں سنتے ہوئے پروان چڑھتے تھے۔ دادا اور نانا ہماری بہترین اصلاح وتربیت کرتے تھے۔ ہم ان سے رہن سہن، کھانے پینے اور زندگی گزارنے کے اصول وآداب سیکھتے تھے۔ وہ ہمارے لیے تہذیبی وثقافتی ادارے کی مانند تھے۔ ہم ان سے طرزِ معاشرت اور تہذیب وثقافت کا درس لیتے تھے۔ آج بھی بوڑھے یعنی بزرگ حضرات ہمارے خاندان اور سماج کے لیے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ تجربہ کار ہوتے ہیں۔ وہ اپنے تجربوں سے ہمیں زمانے کی سردوگرم ہواؤں سے مقابلہ کرنا سکھاتے ہیں۔ ہم ان کے تجربات ومشاہدات کی روشنی میں اپنی زندگی میں درآئی بہت سی پیچیدگیوں اور مشکلات کوبھی حل کرتے ہیں اور اپنی زندگی کے لیے بہتر لائحہ عمل بھی مرتب کرسکتے ہیں اور اس کی رفتار کا بھی تعیُّن کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نوجوان جہاں بے حد جذباتی ہوتے ہیں، وہیں اکثر بزرگ حضرات عقل وتجربہ کے اعتبار سے پختہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنی عقل کی پختگی، تجربہ ومشاہدہ کی گہرائی سے نوجوانوں کے جذبات کو سلیقہ عطا کرتے ہوئے اسے سیدھی راہ پہ لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح وہ بچّوں اور نوجوانوں کی بہتر رہنمائی کرتے ہیں۔ اس لیے وہ ہمارے خاندان اور سماج کے لیے رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بوڑھوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہمارے لیے برگد کے پیڑ کی مانند ہیں، زندگی کی کڑی دھوپ میں جس کی چھاؤں میں ہم پناہ لیتے ہیں۔ وہ اپنے تجربات کی بنا پر ہمارے لیے بہت سے کاموں میں معاون ومددگار ثابت ہوتے ہیں۔ سماج میں بوڑھوں کے اس رول سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ خاندان اور سماج کو جوڑنے، ایک بہتر معاشرہ کی تشکیل کرنے اور سماج کو بہتر بنائے رکھنے میں بھرپور حصّہ لیتے ہیں۔ سماج میں بوڑھوں کی ضرورت واہمّیت کو شعراء نے بھی محسوس کیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:
ہماری محفلوں میں تم بڑے بوڑھے ضروری ہو
اگر تم ہی نہیں ہوگے تو پگڑی کون باندھے گا (بشیر بدرؔ )
ضیا تجربوں کی انہیں سے ملے گی
بزرگوں سے اپنی ملاقات رکھو (ملک زادہ جاویدؔ )
یوں ہی چل کر نہ یہ طرزِ سخن آیا ہے
پاؤں دابے ہیں بزرگوں کے تو فن آیا ہے
کچھ اس لیے بھی مجھے کامیابی ملتی ہے
میں اپنے بابا کے نقش قدم پہ چلتی ہوں (فوزیہ ربابؔ )
سنو یہ نیم کا بوڑھا درخت مت کاٹو
یہی تو بچ گیا چوپال کی سبھا کے لیے (فوزیہ ربابؔ )
ان اشعار میں شعراء نے بوڑھوں کی اہمّیت اور قدروقیمت کو بھرپور طریقے سے اُجاگر کیا ہے۔ مذکورہ بیانات کی روشنی میں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بوڑھے سماج کے لیے بے حد ضروری اور اہم ہیں۔ مگر ہمارے سماج کا یہ بہت ہی افسوسناک اور دردناک پہلو ہے کہ اتنے اہم اور ضروری ہونے کے باوجود آج بوڑھوں کے تئیں سماج کا رویّہ بے حد منفی اور جارحانہ ہے۔ آج ہمارے معاشرے کے سماجی، سیاسی، تعلیمی اور معاشی ڈھانچے میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اس کی وجہ سے ہماری سوچ اور فکر میں بھی بڑا بدلاؤ آیا ہے۔ اس کا گہرا اثر ہمارے سماجی، سیاسی، تعلیمی اورمذہبی اقدار پر پڑا ہے۔ ہمارے سماجی اور معاشی ڈھانچے کے بدلنے سے جو سنگین قسم کے اثرات مرتب ہوئے ہیں وہ یہ ہیں کہ سماج میں مادّیت کا بے تحاشا غلبہ ہورہا ہے۔ انسانی واخلاقی رویّے غیرانسانی وغیراخلاقی رویّوں میں تبدیل ہورہے ہیں۔ سماجی قدریں بدل رہی ہیں اور سماج میں مضر اور منفی قدروں کا رواج عام ہوتا جارہا ہے۔ اسی کا ایک سنگین پہلو بوڑھوں کے تئیں سماج کامنفی رویّہ ہے۔
آج ہمارا سماج جس ڈھرّے پر چل رہا ہے اور جن غیرانسانی قدروں کو اپنا رہا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بوڑھوں کے لیے کوئی عزّت واحترام اور مقام ومرتبہ نہیں ہے، بلکہ ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ آج کے سماج میں بوڑھوں کے لیے جگہ بھی ختم ہوتی جارہی ہے۔ Agewell Foundation ، نئی دہلی، کے ایک سروے کے مطابق تقریباََ ۳۱/فیصد بوڑھے لوگ روزانہ اپنے ہی گھروں میں اپنے ہی بچّوں سے بُرا بھلا سُنتے ہیں اور سماجی دباؤ کے تحت جیتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اب بچّے بھی بزرگوں کا پہلے جیسا احترام نہیں کرتے ہیں۔ اس کرب کو ایک شاعر نے یوں بیان کیا ہے:
سنبھل کر گفتگو کرنا بزرگو!
کہ اب بچّے پلٹ کر بولتے ہیں (ملک زادہ جاویدؔ )
یہ ہمارے سماج کا بہت ہی المناک پہلو ہے کہ بُڑھاپے کی عمر میں جب کہ بوڑھوں کو عزّت واحترام، پیارومحبّت، ہمدردی اور جذباتی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے برعکس اس عمر میں ان کے ساتھ نفرت وحقارت، سنگدلی، بے رحمی، بے عزّتی اور توہین کا سلوک روارکھا جاتا ہے۔ آج ہمارے خاندان، اور سماج میں بوڑھوں کو علیٰحدہ چھوڑدیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے گھر، خاندان اور سماج میں اپنے آپ کو اکیلا پاتے ہیں اور اجنبی محسوس کرتے ہیں۔ آج ہمارے سماج کے زیادہ تر بوڑھے اجنبیت و بیگانگی، تنہائی اور اکیلاپن کا شکار ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی ان کا پُرسانِ حال نہیں ہے۔ کوئی ان کے دُکھ درد کا مداوا کرنے والا نہیں ہے۔ ہم آئے دن اخبارات اور ٹیلی ویژن کے ذریعے یہ خبریں پڑھتے اور سُنتے رہتے ہیں کہ ہمارے سماج میں بوڑھوں کو گالیاں دی جاتی ہیں۔ انہیں دھکّا مارکر گھر سے نکالا جاتا ہے۔ انہیں ذہنی وجسمانی اذیتیں دی جاتی ہیں۔ چند مغربی ممالک کی طرح اب ہمارے ہندوستانی سماج میں بھی بوڑھے بزرگ حضرات اپنے ہی گھروں، خاندان اور سماج میں اپنے ہی خاندان والوں کی طرف سے جارحانہ اور غیرانسانی رویّوں کے شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے ہندوستانی سماج میں بھی اولڈایج ہوم کا رواج عام ہوتا جارہا ہے۔ آج ہمارے ملک کے اکثر وبیشتر شہروں میں اولڈایج ہوم قائم ہیں جہاں ہمارے سماج کے اکثر بوڑھے حضرات زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ International Journal of Applied and Pure Science and Agriculture, 2015-16,کی ایک تحقیق کے مطابق 82.5فیصد بوڑھے اپنے گھروں میں شدید تنہائی کا شکار ہونے کی وجہ سے اولڈایج ہوم جانے اور وہاں زندگی گذارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ 77.5فیصد بوڑھوں کو اپنے گھروں میں ایڈجسٹ منٹ پرابلم کی وجہ سے اولڈایج ہوم جانا پڑتا ہے۔ 67.5فیصد بوڑھے اپنے بیٹے اور داماد کے بُرے سلوک کی وجہ سے اولڈایج ہوم منتقل ہوتے ہیں۔ 55فیصد بوڑھے بیٹے نہ ہونے کی وجہ سے اولڈایج ہوم کا رُخ کرتے ہیں۔ 34.1فیصد بوڑھے اس لیے اولڈایج ہوم میں رہتے ہیں کہ ان کے بچّے انہیں جان مارنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ 16.6فیصد بوڑھے اس وجہ سے اولڈایج ہوم جانا چاہتے ہیں کہ ان کے بچّے ان کی نفسیاتی اور جسمانی بیماری کا خیال نہیں رکھتے ہیں۔ 8.4فیصد بوڑھے اپنے بچوں کے ملک سے باہر جاکر سیٹل منٹ ہوجانے کی وجہ سے اولڈایج ہوم چلے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کا بُرا سلوک اور معاشی بُحران، اکثر بوڑھوں کو اپنے ہی گھروں میں اپنے نظرانداز کئے جانے اور جذباتی ہمدردی سے محرومی کا احساس دلاتا ہے جو انھیں تناؤ سے آزاد زندگی گذارنے کے لیے ایک الگ جگہ اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے اور وہ اولڈایج ہوم چلے جاتے ہیں مگر اولڈایج ہوم کی حالت بھی اچھی نہیں ہوتی۔
آپ ہندوستان کے کسی بھی اولڈایج ہوم میں چلے جائیے تو وہاں رہ رہے بوڑھے مرد اور عورتوں سے آپ کو رونگٹے کھڑے کردینے والی داستانیں سننے کو ملیں گی۔ کلکتہ کے Nabanir اولڈایج ہوم کا ایک واقعہ ہے۔ وہاں رہ رہی ایک پریشان حال بوڑھی عورت Gauri Nandy, کا کہنا ہے کہ’’ جب انھوں نے اپنے شوہر کے مرنے کے بعداپنے بیٹے اور داماد کو اپنا مکان دستخط کرنے سے انکار کردیا تو دونوں نے انھیں ذہنی وجسمانی اذیتیں دیں۔ انھیں دھکّا مارکر نیچے گرادیا جس کی وجہ سے ان کے پاؤں میں شدید چوٹیں آئیں اور خون نکل آئے۔ انھیں اسپتال جانا پڑا۔ اس کے بعد وہ اولڈایج ہوم چلی گئیں۔ وہ آج بھی اپنے مکان، باغیچہ اور پھولوں کو یاد کرکے روپڑتی ہیں۔ اس طرح نہ جانے کتنی بوڑھی عورتوں کی دُکھ بھری داستانیں ہیں جو ہمارے دل دہلا دینے کے لیے کافی ہیں۔ Gauri Nandy, مزید کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنے بچّوں کو بلند مقام پر پہنچانے کے لیے خصوصی طور پر بہت اچھی کوششیں کیں۔ ان ہی کی کوششوں کے نتیجہ میں ان کے دونوں بیٹے نوکریوں میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود اگر بیٹے اس طرح کا سلوک کرے تو میں کیا کرسکتی ہوں جب کہ بوڑھوں کی عزّت کرنا بہت ضروری ہے۔ کیا انھیں یہ بھی بتانا اور سکھانا پڑے گا۔‘‘
Agewell Foundation، نئی دہلی کے ایک سروے کے مطابق ۷۰ سے ۸۰ سال کے درمیان کے ۸۷ فیصد بوڑھے اپنے ہی گھروں میں خاندان کے ساتھ رہتے ہوئے بھی شدید تنہائی کا شکار ہیں۔ وہ اپنے آپ کو بیڈروم کے پیچھے پڑے ہوئے سامان کی طرح پاتے ہیں۔ یہ کتنی تکلیف دہ بات ہے کہ آج ہمارے سماج میں بوڑھوں کو معاشی بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ انھیں گھر کا ایک بیکار اور گراپڑا سامان مانا جاتا ہے، بلکہ کہیں کہیں اب انھیں گھر کے لیے گندگی اور بدصورتی کی شئے تصوُّر کیا جاتا ہے جس سے گھر کو پاک کرنا ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ ہماری نگاہوں سے وہ زمانہ بہت دور نہیں گیا جب بوڑھے یعنی بزرگ حضرات ہمارے سرپرست اور مُربّی ہوا کرتے تھے۔ وہ ہماری محبّتوں، ہمدردیوں اور اپنائیت و قُربت کے حقدار تھے۔ اب بھی اس کی شاذ ونادر مثالیں دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ وہ کیا زمانہ تھا جب بوڑھے سماج میں قابلِ احترام مانے جاتے تھے۔ ہم ان کے ساتھ رہنے اور ان سے وابستگی پر فخر کرتے تھے۔ وہ ہمارے خاندان اور سماج کے لیے مضبوط ستون کی حیثیت رکھتے تھے۔ مگر بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج بوڑھوں کی ناقدری کی وجہ سے ہمارے خاندان اور سماج کی دیواروں میں شگاف پڑگیا ہے۔ ہمارا سماج غیرمتوازن اور انسانی بُحران کا شکار ہورہا ہے۔ آج بوڑھوں کے تئیں سماج کا رویّہ بے حد منفی ہے۔ اس منفی رویّہ کو مثبت رویّہ سے بدلنے کی شدید ضرورت ہے۔ اس کے لیے چند تجاویز زیرغورہیں، میرے خیال میں جن کو اپنانا کارآمد اور سودمند رہے گا۔
(۱) حکومت، حکومتی ایجنسیوں، رضاکار تنظیموں، تعلیمی اور سماجی وثقافتی اداروں کو اعلیٰ پیمانہ پر سماج میں بوڑھوں کے تئیں بیداری کی مہم کو چلانا پڑے گا اور سماج کی فکرونظر میں تبدیلی لانے اور بوڑھوں کے تئیں مثبت رویّہ پیدا کرنے کے لیے اچھے اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔
(۲) ہمیں سماجی، تعلیمی اور مذہبی ہر سطح پر سماج میں بوڑھوں کے حقوق کے تئیں بیداری پھیلانا، ان کی اہمّیت کو اُجاگر کرنا اور سماج اور لوگوں کے دلوں میں ان کے تئیں مثبت نظریہ کو پیدا کرنا اور اسے فروغ دینا چاہئے۔
(۳) ہمارے پیشہ ورانہ اور غیرپیشہ ورانہ تعلیمی نصابات میں اخلاقیات کو شامل کرنا چاہئے، خصوصاََ بزرگوں کی عزّت واحترام، انسانیت اور اس کی قدروقیمت پر مبنی تعلیم کو نصاب کا حصّہ ضرور بنانا چاہئے۔
(۴) اولڈایج ہوم چوں کہ سماج کا ایک ناگزیر حصّہ بنتے جارہے ہیں، اس لیے حکومت اور رضاکار تنظیموں کو وہاں پر موجود بوڑھوں کو ہر طرح کی سہولیات مہیّا کرانی چاہئیں، خصوصاََ جذباتی سہارے کی سہولیات پیدا کرنی چاہئیں اور ایسے نرس کووہاں رکھنا چاہئے جو بوڑھوں کے ساتھ محبّت آمیز اور ہمدردانہ برتاؤ کرے۔
(۵) مختصر یہ کہ ہمیں بوڑھوں کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھنا، ان کی عزّت واحترام کرنا چاہئے اور ان کا جذباتی سہارا بننا چاہئے۔ ان سے پیار محبّت اور ہمدردی سے پیش آنا چاہئے جس کی اس عمر میں انھیں سخت ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو کل جب ہم بوڑھے ہوں گے تو ہمیں اس سے بھی بدترین مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
میراخیال ہے کہ اگر ان چند تجاویز پر عمل درآمد کیا جائے تو سماج میں بوڑھوں کے تئیں ضرورمثبت رویّہ پیدا ہوگا اور ان کاسماجی وقار ضرور بحال ہوگا۔