تری شکست تری لکنت زبا ن میں ہے :اجمل کما ل کاشو ربہ

picture of author
زمرد مغل

( زمرد مغل)

سہ ماہی ’’نیا ورق‘‘شما رہ نمبر ۲۹ میں اجمل کما ل کا مضمو ن’’سا قی فا رو قی کا شوربہ ‘‘کے عنوا ن سے شا ئع ہوا تھا ،اسے پڑھا اور کچھ لکھا بھی پھر اسی مضمون کو ایک روزن پر دوبارہ پڑھا تو مجھے بھی اپنے اس مضمون کا خیال آیا جو میں نے اس کے جواب میں لکھا تھا جسے ساجد رشید نے شائع کرنے کا وعدہ کیا تھا پھر وہ بیمار ہوئے اور اس دنیا سے کوچ کرگئے ۔ایک روزن میں جب یہ مضمون دوبارہ شائع ہوا تو مجھے لگا کہ اس کو جواب بھی چھپنا چایئے ۔اجمل کمال کا یہ مضمون جس میں سا قی فا رو قی کی آپ بیتی ’’آپ بیتی پا پ بیتی ‘‘ اور ان کی شا عری پر اعترا ضا ت کئے گئے تھے ادب کے ایک طا لب علم ہو نے کی حیثیت سے مجھے لگا کے اس کا جوا ب مجھے لکھنا چا یئے ۔مطا لعہ کے نا م سے مدیر ’’نیاورق ‘‘نے لکھا تھا کہ مدیر ’’آج‘‘اجمل کمال نے سا قی کی مذکو رہ کتا ب کی سطرو ں تک کا پو سٹ ما رٹم کر ڈالا ہے ۔مطا لعہ کے اس با ب میں اجمل کما ل کا مضمو ن اس امید کے سا تھ شا ئع کیا جا رہا ہے کہ قا رئین ہی نہیں بلکہ سا قی بھی اجمل کے معرو ضات پر اپنی را ئے دیں گے۔اس مضمون کو پڑھ کر دلچسپی کا پیدا ہو نا لا زمی تھا اور یہ دیکھنا مقصود تھا کہ ایسا کیا اجمل کمال نے لکھ دیا ہے کہ جس نے سا قی فا رو قی جیسے شا عرو نثر نگا ر کی سطرو ں تک کا پو سٹ ما رٹم کر ڈالا ہے ۔
مضمون پڑھ کر حیرت ہو ئی کہ ایسے مضمو ن کو سا جد رشید نے کیسے ’’نیا ورق‘‘میں جگہ دے دی ۔ خیر وہ بھی اس طر ح کے مضامین کو چھا پ کر اپنی اور رسا لے کی سستی شہرت کے متلا شی رہتے ہیں ۔مضمون پر کچھ را ئے دینے سے قبل میں اتنا عر ض کر دو ں کے یہ ایک بڑے فن کار کی آ پ بیتی ہے جو آ نے وا لے زما نے کا ٹرینڈ سیٹ کرے گی۔اس سے پہلے کے میں اجمل کمال کے مضمو ن پر تبصرہ کرو ں میں ان کے لئے اتنا عرض کردو ں کہ سا قی کی شا عری اور نثر پر قلم اٹھا نے سے پہلے اتنے علم کا ہو نا ضروری ہے جو اردو دا ں طبقے کے پا س نہ کے برا بر ہے ۔وہ چیز جو آپ کی سمجھ سے با لا تر ہو اس پر قلم اٹھا نا کہاں کی عقل مندی ،ایسے مضا مین لکھ کر آ پ کی استعدا د اور ذہا نت قارئین پر آ شکا ر ہو جا تی ہے ۔ اب میں مضمو ن کی طرف آتا ہوں ،موصوف نے ایک جگہ لکھا ہے ’’کتا ب پڑھنے پر ان کی تحریر کی اگر کو ئی منفرد خصوصیت نما یاں طو ر پر سا منے آتی ہے تو وہ ان کا بڑ بو لا پن ہے۔جس کا اظہار وہ اپنے اس قبیل کے بیا نا ت میں کرتے ہیں ۔’’یہ تو سچ ہے کہ میں نے ایک بھر پو زندگی گزاری ہے اور اپنے ہم عصرو ں کے مقا بلے میں شا ید کچھ زیا دہ ہی بھر پو رمگر ۔‘‘آ پ نے اس پر اس طر ح تبصرہ کیا ہے ’’لیکن سا قی کے ان دو مجردوں کو (مجر د دو نو ں معنو ں میں)نظر انداز کیے ہی بنتی ہے ۔کیو ں کے کتاب کے متن سے اس طر ح کی کسی شے کی تا ئید نہیں ہو تی ۔‘‘میرے خیا ل سے اجمل کما ل کو ہوم ورک کرنا چا ہئے تھا کیو ں کہ بنا ہوم ورک کے جب آپ کسی بڑی ہستی پر تبصرہ کریں گے تو آ پ کے ہا تھ صرف اورصرف ذلت اور رسوا ئی ہی آ ئے گی، جو اجمل کما ل کے حصے میں آئی ۔ساقی فاروقی نے صرف اردو ادب کا ہی نہیں ہے بلکہ عا لمی ادب و تا ریخ کا بھی عمیق مطالعہ کیا ہے ۔
ضرو رت اس با ت کی تھی کہ اجمل کما ل اپنا قد دیکھ کر سا قی فا رو قی پر انگلی اٹھا تے۔میں ان کی اطلا ع کے لئے عر ض کر دو ں کہ بھر پو ر زندگی کے معنی پاکستا ن کی گلیارو ں میں لا ر ٹپکا تی ہو ئی زندگی یا فائیو اسٹا رہو ٹلو ں میں کھا نا یا ہو ائی جہا ز میں سفر کو ہی نہیں کہتے بلکہ بھر پور زندگی میں انسا ن کے اچھے اور برے دن دو نو ں کا شما ر ہو تا ہے۔ زندگی کی دھو پ چھا ؤں، اتا ر چڑھاؤ کو دیکھنا ،ان سب کے بیچ میں زندگی گزارنا، زندگی کے تلخ سے تلخ تجربات سے دو چا ر ہو نا ،ترقی سے زوا ل اور پھر زوا ل سے ترقی کی طرف ،زندگی کے اس سفر کو بھر پور زندگی گزارنا کہتے ہیں ۔ لفظ بھر پو ر کا اطلا ق اگر آ پ ان کی آ پ بیتی پر کریں تو آ پ محسو س کریں گے کہ سا قی نے واقعی میں بھر پو ر زندگی جی ہے ۔اچھے اور برے دو نو ں طرح کے دن دیکھنے کو بھر پو ر زندگی کہتے ہیں ۔اس میں قصو ر اجمل کما ل کا نہیں ہے ہندوستان اور پاکستان دو ایسے ملک ہیں جہا ں شعو ری طو ر پر انسا ن کے تر قی پذیر ہونے کہ موا قع کم ہیں، ہمارے یہاں کے سیا سی و سما جی حالات ایسے ہیں کہ آ دمی اس سے زیا دہ کچھ سو چ ہی نہیں سکتا۔ جہا ں شعو ر پر قدغن کا سلسلہ ما ں کی گو دسے قبر تک جا ری رہتا ہے ۔
مدیر ’’آ ج‘‘آگے رقمطراز ہیں، ’’جہا ں تک ان کے بیا ن کردہ جنسی کا ر گزا ری کا تعلق ہے وہ اٹھا رہ معا شقوں وا لے شا عر انقلا ب کا کیا ذکر سا قی کے بہت سے ہم عصرو ں کے مقا بلے میں بھی انیس ہی نظر آ تے ہیں ۔ان نیم پیشہ ور خوا تین کو چھو ڑکر جن میں سے ایک کو حیدرآباد (سندھ)کے ایک خستہ حالت ہو ٹل میں بقول خو د آ ٹو گرا ف دیتے ہو ئے پکڑے گئے تھے۔‘‘اس میں اتنا ہی عرض کرو ں گا کہ اس کا تجربہ تو اجمل کما ل کو ہی ہو گا۔ یہ ان کے بند کمرے کی زندگی ہے جس کا اظہا ر انھو ں نے کیا ہے۔ اس ذا تی تجربے کے لئے میں ان کو مبا رک با د دیتا ہوں کہ وہ لو گو ں کی درجہ بندی کر نے میں کا میا ب ہو گئے ہیں۔اجمل کمال آ گے لکھتے ہیں ’’خلا صہ یہ کہ سا قی کی بز عم خو د پا پ بیتی سے معلو م ہو تا ہے کہ شاعری کے شعبہ کی طرح اس میدان میں بھی ان کی کا رکر دگی معاصر اوسط سے گری ہوئی رہی۔‘‘جہا ں تک سو ال سا قی کی شا عری کاہے توسا قی فا رو قی کی شا عری پر میں نے اپنی کتا ب ’’سا قی فا رو قی قطرے سے گہر ہو نے تک‘‘میں تفصیلاً گفتگو کی ہے ۔سا قی فا رو قی نے ایسے وقت میں آ نکھ کھو لی جب دنیا بھر کے نظریا ت ایک فیصلہ کن مقا م تک پہنچ چکے تھے اور جسے آ ئزن برگ کی تعبیرا ت کی رو شنی میں دنیا ئے عا لم کے سا منے پیش کر دیا گیا تھا اور جس کے مطا بق سچا ئی کا سو فیصد مشا ئدہ اور اس کا اظہا ر نا ممکنا ت میں کیا جا نے لگا تھا ۔ہزارو ں سا ل سے چلی آ رہی فکری الجھن اور ذہنی کشمکش کو اپنا ماوا و ملجا بنا چکی تھی اور یہ با ت مسلم ہو چکی تھی کہ سچا ئی کا سو فیصد اظہا ر نا ممکن ہے ،سچا ئی کے سب سے قریب ترین تجربا ت کے تا ر بکھر چکے تھے زما نے کی قدریں بد ل چکی تھیں ،ایسے وقت میں کسی بھی بڑے شا عر کے لئے تا ریخ کے گہرئے شعور کے سا تھ سا تھ زما نے کی بصیرت سے مزین ہو نا بھی ضروری ہو گیا تھا ۔سا قی فا رو قی نے زما نے کی بصیرت کے سا تھ سا تھ گہرے تا ریخی شعو ر سے کا م لیتے ہوئے وہ مقا م حا صل کر لیا جو ایک شا عر کو اپنے جیسے دوسرئے شا عرو ں سے مختلف اور بلند بنا دیتا ہے ۔میں یہا ں مثا ل کے لئے سا قی فا رو قی کے چند اشعا ر نقل کر تا ہو ں جس سے سا قی کی شا عری کا مقا م متعین کر نے میں نہ صرف آ سا نی ہو گی بلکہ قا رئین کو محسو س ہو گا کہ سا قی جیسی شا عری ہما رے ہاں نہ کے برا بر ہو ر ہی ہے اور کیوں سا قی فا رو قی اس وقت اردو کا سب سے بڑا شا عر ہے ۔

مٹ جا ئے گا سحر تمہا ری آ نکھو ں
اپنے پا س بلا لے گی دنیا اک دن
میں بھی لو ٹ آوں گا اپنے تعا قب سے
تم بھی مجھ کو ڈھو نڈ کے تھک جا نا اک دن
یا
اپنے اندر کی گرتی دیوا رو ں پر
اتنی دھو پ اتا ر کے سا یہ نا ز کرئے
یا
جی خو ش نہیں ہوا ترے ایفا ئے عہد سے
یہ کیا کہ تیرا رنج مجھے عمر بھر نہ ہو
یا
صبح تک رات کی زنجیر پگھل جا ئے گی
لو گ پا گل ہیں ستا رو ں سے الجھنا کیسا
دل ہی عیا ر ہے بے وجہ دھڑک اٹھتا ہے
ورنہ ا فسردہ ہوا ؤ ں میں بلا وا کیسا
اس وقت سا قی کا شعری مجمو عہ ’’زندہ پا نی سچا ‘‘ میرے ہا تھو ں میں ہے اور اس میں ورق الٹتے وقت جو بھی شعر سا منے آ یا میں نے پیش کر دیااس امید کے سا تھ کے ادبی دنیا اور خا ص کر ہندو ستا ن میں سا قی کی شا عری پر مزید گفتگو ہو گی ،جس کی وہ حقدا ر ہے ۔
یہ اجمل کمال کے بس کی با ت نہیں تھی کہ وہ ان کی شا عری پر تبصرہ کریں ۔ان کی شاعری پر کچھ کہنے سے پہلے اگر وہ مشتا ق احمد یو سفی کا دیباچہ پڑھ لیتے جو’’ زندہ پا نی سچا‘‘کے لئے انھوں نے لکھا ہے تو شا ید وہ اس طر ح کی غیرذمہ دا رانہ تحریر لکھنے سے بچ جا تے ۔ مشتا ق احمد یو سفی لکھتے ہیں ’’اب ذرا یہ شعر دیکھیں اور شاعرکے تیور دیکھیں ؂
سفر میں رکھ مجھے میر ی جدائیوں سے پرکھ
فراق دے ابھی خاک وصال میں نہ ملا
یا
مجھ میں سات سمندر شور مچا تے ہیں
ایک خیال نے دہشت پھیلا رکھی ہے
جو شخص ایسے شعر کہہ سکتا ہے اس پر سا ت خو ن معا ف ہیں۔ اس سے ہما ری مرا د سا ت خو د کشیا ں ہیں ۔اس غضب کے اور غضب نا ک شاعر کے ہا تھ اپنے ہی جیتے جیتے خو ن نا حق میں رنگے
ہو ئے ہیں۔‘‘
( زندہ پا نی سچا ،ص۱۸)
کچھ اور لو گو ں کی آ را پیش کر تا ہو ں جوشا ید اجمل کما ل صا حب کے علم میں اضا فہ کا سبب بنے۔
’’۔۔۔ ان سب با تو ں کے با وجو دجا نتے ہو میں تمھا ری شا عری میں کن چیزوں کا مدا ح ہو ں ؟سب سے پہلے تمھا ری سو چ اور حساسیت کا جو انو کھی اور نرا لی ہے ۔نئے شا عرو ں نے سو چ اور حسا سیت کے نئے پہلو دریا فت کئے ہیں ۔تم ان سب سے زندہ اور تا زہ تر حسا سیت او ر سو چ کے ما لک ہو ۔‘‘
(ن،م را شد۔رادار،ص۹۵،۶)
’’سچی با ت تو یہ ہے کہ میں تمھاری شا عری کا ہمیشہ سے قا ئل رہا ہوں۔ تم نے اپنے عہد کی شا عری کی ہے اور تا زہ تر لہجے کی دریا فت تخلیقی طور پر پیش کر نے کی کو شش کی ہے ۔نئی شا عری کی ہو س میں شاعری کی نفی کرنے یا کسی فا رمو لے کو اوپر سے اوڑھنے کی کو شش نہیں کی۔میرے نز دیک تمھاری شا عری کسی سنہ کی شا عری نہیں ہے جو سنہ بدلنے کے بعد با سی معلو م ہو گی بلکہ یہ زندہ اور تنا ور درخت کی طرح ہے جس کی جڑیں نیچے تک چلی گئی ہیں ۔‘‘
(خلیل الرحما ن اعظمی،راداار،ص۹۶)
مجھ پر آ پ کی شا عرا نہ حیثیت دو سرے بہت سے اہل قلم کے مقا بلے میں زیا دہ واضح ہے ۔
(احمد ندیم قا سمی،را دا ر،ص۸۴،۸۵)
’’۔۔۔۔۔تمھا ری نظم ’’اما نت‘‘ ایک خو بصو رت خیا ل ہے ۔‘‘
(اڈرین ہنری انگریزی شا عرردارص۸۲)
’’۔۔۔چند رو ز ہو ئے تمھا ری آ وا ز دلی کی اردو سروس سے سنی تھی ،تمھا ری نظم تمھا رے رو برو سننے میں جو لطف آ تا ہے وہ مزہ ریڈ یو پر کہاں مل سکتا ہے۔‘‘ (با قر مہدی ،رادار،ص۸۵)
’’ساقی فاروقی بحیثیت شاعر بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیں۔ اپنے مزاج ومیلان کے اعتبار سے اپنی شرطوں پر جینے کی قسم کھارکھی ہے۔ تتبع اور نقل سے دور ہر معاملے میں اپنی فکر وسوچ کو افضل رکھتے ہیں۔ ان کی دریدہ ذہنی بہت معروف ہے۔ لیکن اس کے پیچھے لازماً کوئی گہری ضرب چھپی ہوئی ہے جس کا ازالہ وہ درشت الفاظ کے استعمال سے کرتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب فرضی باتیں ہیں اصلی ان کی شاعری کا وہ جوہر ہے جسے قارئین نے اپنے اپنے طور پر شناخت کرنے کی کوشش کی ہے ۔‘‘
(وہاب اشرفی،تاریخ ادب اردو، جلد سوم، ص۱۷۰۵)
یہ وہ لو گ ہیں جن سے ادب کی راہیں متعین ہو تی ہیں ۔سا قی کی شا عرا نہ عظمت کے لئے کیا اجمل کمال سے سر ٹیفکیٹ لینے کی ضرو رت ہے ۔سا قی دور حاضرکے کسی بھی شا عر سے بڑا شا عر ہے اور یہ با ت ہر وہ شخص کہتا ہے جس کو شا عری کی ذرہ برا بر بھی فہم ہے ۔سچ تو یہ ہے سا قی کی شا عری کو سمجھنے کے لئے جس فہم کی ضرو رت ہے، اجمل کمال اس سے کو سو ں دو ر ہیں۔ اس با ت کا ثبو ت انھوں نے یہ مضمو ن لکھ کر دے دیا ہے۔آگے اجمل کما ل صا حب یو ں رقمطرا زہو تے ہیں ’’تاہم بیا نیہ سے یہ تخلیقی کا م لینے کے لئے زندگی کا جو تجر بہ اور تخیل اور زبا ن پر جو قدرت درکا ر ہے اس کی امید سا قی جیسے نا بالغۂ روزگا ر سے وا بستہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے ان کے ایک معززہم عصر اور فیڈرل کی ایریا کے ملک الشعرا استا د محبوب نرالے کے کلا م میں میر تقی میر کی سی دقیقہ رسی پا نے کی تو قع کی جا ئے۔‘‘محترم اجمل کمال صاحب کی اطلاح کے لئے عر ض کر دو ں کہ زبا ن دو طرح کی ہو تی ہے ۔ایک لینے وا لے ہاتھ کی زبا ن اور دوسرے دینے وا لے ہا تھ کی زبا ن ۔ سا قی کی آ مد پر آ پ ہی نہیں بلکہ وہ تمام لو گ نا خو ش ہیں جو چا ہتے ہیں کہ اردو ادب پر ان ہی لو گو ں کا راج رہے ،جو صرف لینے وا لی زبا ن جا نتے ہیں ۔کیو ں کہ دینے والی زبا ن ان کی دسترس سے کو سو ں دو ر ہے مگر مستقبل کی Generationدینے وا لے ہا تھ کی زبا ن کو قبو ل کر نا چا ہتی ہے،انھیں اب اس با ت کے لئے تیا ر رہنا چا ہیے کہ اب ان کے دن لد چکے ہیں ۔دینے وا لے ہا تھ کی زبان لینے والے ہا تھ کی زبا ن سے الگ ہو تی ہے جس میں قدرو ں اورتہذیبو ں کا فرق ہو تا ہے۔ یہ با ت جتنی جلدی اجمل کمال صا حب کی سمجھ میں آ جا ئے ان کے لئے بہتر ہے۔ اس طر ح کی بچکا نہ حر کتیں وہ مستقبل میں نہ کریں تا کہ ان کی رسو ائی میں مزید اضافہ نہ ہو ۔
آ گے لکھتے ہیں ’’اگر کسی بھلے آ دمی کے با رے میں کو ئی بھو نڈا یا بے ہو دہ فقرہ اونچی آ وا ز میں کہہ دیا جا ئے تو محفل پر سنا ٹا چھا جا تا ہے اور فقرہ با زی کا شکا ر ہو نے وا لا خفیف ہو کر رہ جا تا ہے۔ سا قی کے ہا ں اس کی بے شما ر مثا لو ں میں سے دیکھئے ، خدا اسے [مشفق خوا جہ کو]اور شمس الرحمن [فا رو قی] کو سلا مت رکھے۔ صبح سو یرے اٹھتے ہی کلی اوراستنجا کر کے ان کی درا زئ عمر کی دعا ما نگتا ہو ں ۔وہ اس لئے کہ مجھ سے پہلے یہ کم بخت مر مرا گئے تو مجھے شاعرو ں کے نام، ان کی تا ریخ پیدا ئش وغیرہ کو ن بتائے گا۔ ان کو اسی طرح کے چو تیا پنتی کے کا مو ں کے لئے زندہ رکھنا چا ہتا ہو ں آ ہ کہ ان بد معا شوں کو معلوم نہیں کہ وہ کس کی دعاؤں سے زندہ ہیں ۔‘‘ایسا لگتا ہے کہ جس طر ح اجمل کما ل کو نثر لکھنا نہیں آ تی اسی طرح وہ نثر کو سمجھنے سے بھی قا صر ہیں ۔اس طر ح کی فقرہ با زی تین دو ستو ں کے درمیا ن بے تکلفی کی ضمانت ہوا کرتی ہے اس میں کہیں پر بھو نڈا فقرہ ثا بت نہیں ہو تا ۔یہ ان دو ستو ں کی آ پس کی بات ہے۔ شا ید یہ با ت سمجھنے میں آ پ کو ایک زما نہ لگے اورایک با ت اور اجمل صا حب کے گو ش گزا ر کر دو ں کہ سا قی فارو قی مرتبہ میں مشفق خواجہ اور شمس الرحمن فارو قی سے کسی طو ر کم نہیں ۔ یہ با ت آ پ کی سمجھ میں تب آ ئے گی جب آ پ کے اندر ادب کو سمجھنے کی فہم و فرا ست پیدا ہو جا ئے گی۔ تب تک آ پ اسی طر ح کی تحریریں لکھتے رہیں گے اور رسوا ہو تے رہیں۔آ گے اجمل کمال صا حب نے سا قی کی تصو یر کا ذکر کیا ہے ۔اس با رے میں صرف اتنا عرض کردو ں کہ اگر اجمل کمال صا حب غا لب کے اس شعر کو پڑھ لیتے تو شا ید اس طرح کی بیا ن با زی نہ کرتے ؂
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آ نکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغرومینا مرے آگے
آ گے صفحہ نمبر ۱۶۵سے۱۶۸تک اجمل کمال صا حب نے پھر ان کی شا عری پر تبصرہ کیا ہے ۔یہاں اجمل کما ل کے ہا ں ذوق
سلیم کی کمی کو صا ف طو ر پر دیکھا جاسکتا ہے مگر میں ان کی ہمت وحو صلے کی داد دیتا ہو ں کہ ذوق سلیم نہ ہو نے کے با وجو د وہ شا عری پر گفتگو کی ہے اور وہ بھی سا قی فا رو قی جیسے شا عر کی شا عری پر۔اس وقت مجھے شہپر رسو ل کا شعر یا د آرہاہے ،نقل کر دیتا ہو ں ؂
زیر کچھ بونے مجھے کیسے کریں
ان حقیروں کی مدد کر اے خدا
جہا ں تک اجمل کما ل کے اس الزا م کا تعلق ہے کہ سا قی کی تما م تر خو شا مد کے باوجو د،را شداور فیض نے ان کے بارے میں کو ئی ایسی با ت نہیں لکھی جو وہ ،اپنے حق میں (یاان کے خلا ف)استعما ل کر سکیں ۔اس کا جوا ب میں صرف ،ن، م را شد ہی نہیں بلکہ اور لوگوں کی آ را ء کا ذکر کر چکا ہو ں ۔اجمل کمال صا حب کے اس طرح کے بیا نا ت سے ثا بت ہو تا ہے کہ مو صو ف نے دنیا کے سا تھ سا تھ ادب کو بھی صرف را ل ٹپکا تی ہو ئی ذہنیت سے ہی بر تا ہے۔ مو صو ف کو علم ہو نا چا ہیے کہ کسی کے لکھنے یا نہ لکھنے سے کو ئی چھو ٹا یا بڑا نہیں ہو جاتاہے بلکہ تخلیق کا ر کی تخلیق اسے بڑا بنا تی ہے ۔اب قا ری یہ نہیں دیکھتا کہ کس افسا نہ نگا ر یا شا عر کے با رے میں فا روقی صا حب یا نارنگ صا حب نے کیا لکھا ہے بلکہ اب قا ری بذات خودتخلیق کا ر کی تخلیق کا مطا لعہ کرتا ہے۔ اگر وہ اس کے معیا ر پر پو ری نہیں اتر تی تو وہ اپنی را ئے کا اظہا ر صاف صاف کر دیتا ہے۔ بجا ئے اس کے کہ شمس الرحمن فا رو قی یا گو پی چند نا رنگ کی وجہ سے اس بے حیثیت تخلیق کا ر کا قد بڑھتا، الٹا ان شخصیات کی اہلیت پر سو الیہ نشا ن لگا دیا جا تا ہے ۔پس ثا بت ہو اکہ بے حیثیت کی تعریف سے سو ائے ذلت اور رسوائی کہ کچھ ہا تھ نہیں آ تا ،ٹھیک اسی طرح جس طرح اجمل کما ل کے تحریر کردہ الفا ظ ان کہ پاؤں کی بیڑی بننے وا لے ہیں ،جس سے فرا ر کی کو ئی صورت نظرنہیں آ تی ۔خا میا ں ہر انسا ن میں ہو تی ہیں خواہ وہ سا قی فا رو قی ہو ںیا اجمل کمال مگر بڑا انسا ن اپنی غلطیو ں کا اعترا ف بلکہ اعلا نیہ اعترا ف کرنے میں بھی نہیں ہچکچا تا۔ سا قی نے جو کہا اس سے اختلا ف کیا جا سکتا ہے مگر انھو ں نے جو لکھا وہ ان کو عظیم شا عر کے سا تھ سا تھ ایک صا ف گو انسا ن بھی بنا تا ہے ۔
جہا ں تک اجمل کمال کے دوسری جلد کے منتظر ہو نے کا تعلق ہے تو میں ان سے دست بستہ عرض کروں گا کہ جب پہلی ہی جلد آپ کے فہم کی دسترس سے با ہر کی چیز ثا بت ہو ئی تو دو سری جلد کا انتظا ر چہ معنی دا رد ۔یہ کا م با بصیرت لو گو ں کا ہے اور انھیں کو کرنے دیجئے ۔بقو ل علا مہ اقبال ؂
مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انھیں کا کام ہے یہ جن کے حو صلے ہیں زیاد