برصغیر میں لوک فنون کی جمالیات

(شکیل الرحمن)
 برِ صغیر میں قبائلی زندگی کی تاریخ کب سے شروع ہوتی ہے یہ بتانا نا ممکن ہی ہے۔ دس ہزار سال پہلے سے بھی سوچا جائے تو قبیلوں اور ان کی زندگی کے کلچر کے تعلق سے دھندلکوں میں کچھ دکھائی نہ دے۔ ہزاروں برس قبل آدم گڑھ، مدھیہ پردیش کے غاروں کی بابت جو تحقیق سامنے آتی ہے وہ بھی گزرے ہوئے ہزاروں برسوں کی جانب ہلکے ہلکے اشارے کر کے خبر دیتی ہے۔ ابتداء میں قبائلی زندگی میں شکار کی اہمیت زیادہ تھی، پتھر کے زمانے میں گنگا کے آس پاس جو قبیلے آباد تھے شکار کے عاشق تھے، عورت مرد دونوں چھوٹے چھوٹے پتھروں اور ہڈیوں سے زیورات بناتے اور پہنتے، ماقبل تاریخ حسن کا ایک کلچر موجود تھا۔

بھیل (Bhil) تھارو (Tharu) ناگا (Naga) گُجر (Gujjar) گدّی (Gaddi) مُوریا (Muria) پہاڑی کھاریا (Kharia) بھوٹیا (Bhotia) تری پورہ کے قبائل، اُڑاؤں (Oraon)کھونڈ (Khond) منڈا (Munda) آسورا (Asura)اور جانے کتنے قبائل اس کلچر کو بنانے سنوارنے میں پیش پیش رہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ قبائلی عورتوں کی وجہ سے حسن کا معیار بلند ہوا ہے۔ وہ حسن کے معیار کو اوپر لے جانے میں مردوں سے آگے رہی ہیں۔ لباس، بالوں کی آرائش، زیورات اور گودنے (Tattooing)سے خود کو خوب سجایا اور اپنے دور کے حسن کی علامت بن گئیں۔ قبائلی عورتیں پھولوں کی عاشق رہی ہیں۔ آج بھی اُن کے بالوں میں کانٹوں اور لکڑی کی کنگھیوں کا استعمال موجود ہے۔

’الاؤ‘کے گرد بیٹھ کر قصے کہانی سنانے اور رقص اور گیتوں میں اپنے احساسات کو پیش کرتے رہنے کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ کہانیوں اور رقص اور گیتوں کا تعلق عام زندگی کے تجربوں اور انسانی رشتوں سے بہت گہرا ہے۔ گانوں گیتوں اور موسیقی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کی روایات بہت قدیم ہیں، مثلاً لڑی شاہ، (کشمیر) پے نا، (Pena) (منی پور)، کم سالے (کرناٹک) وغیرہ۔ لوک فنون میں رقص کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔ معنیٰ اور اسلوب پر گہری نظر رکھیں تو اندازہ ہو گا کہ رقص کا دائرہ کافی پھیلا ہوا ہے۔ کم و بیش یہی حال موسیقی کا ہے، ہلکے پھلکے آہنگ سے ایک فضا بن جاتی ہے۔ قبائلی زندگی میں حکایتیں، ڈراما، رقص اور موسیقی سب ایک دوسرے میں جذب ہیں۔ قبائلی حلقوں کے رقص کو دیکھیں تو سادگی کا عجب احساس ملے گا، سادگی کا حسن متاثر کرتا رہے گا۔ ہر رقص میں موسیقی کے آہنگ سے عجب اُبال پیدا ہوتا ہے۔ کچھاری (Kacharis) کے رقص ’ دی ماسا، (Dimasa) گاروس(Garos)کے ’وانگلا‘ (Wangala)ناگا (Nagas) کے ’کمبو‘ (Kimbu) وغیرہ کے رقص کو دیکھیں تو سادگی اور پُر کاری دونوں کی پہچان شدّت سے ہو گی۔ کہتے ہیں لوک فنون کہانیوں یا حکایتوں نے ڈراما کو جنم دیا اور ڈراما نے رقص اور موسیقی کو عروج پر پہنچا دیا۔ رقص، ڈراما اور موسیقی کے مترنم ہم آہنگی کو کیریلا کے ’’کتھا کلی‘‘مہا راشٹر کے ’تماشا، (Tamasha) اور کرناٹک کے ’’یاک سا گانا (Yaksagana) نے اس طرح قائم اور زندہ رکھا ہے کہ پس منظر میں لوک فَنُون کی تکنیک، موضوع اور اظہار کی پہچان بہت حد تک ہو جاتی ہے۔

قبیلوں کی ’فکری سطح، پر رومانیت ’فینتاسی‘ کی پہچان مشکل نہیں ہے۔ کچھ قبیلوں میں یہ سوچ تھی کہ ابتداء میں کہیں کوئی ’صورت، موجود نہیں تھی، ہر جانب تاریکی پھیلی ہوئی تھی، آسمان (Sedi) اور زمین (Melo) ایک دوسرے میں جذب تھے۔ ان کے ملاپ کی وجہ سے تمام اشیاء و عناصر وجود میں آئے، آہستہ آہستہ روشنی ہونے لگی، پھر پہاڑ، زمین اور پانی سب دکھائی دینے لگے۔ یہ خیال آئندہ ہلکے پھُلکے فلسفے اور نیم مذہبی خیالات کی بنیاد بن گیا۔ کہیں کہیں اس خیال کی وضاحت اس طرح بھی ہوئی کہ زمین اور آسمان ایک دوسرے کے عاشق تھے، درخت، گھاس، جانور پرندے سب اسی محبت کی وجہ سے وجود میں آئے۔ آسمان اور زمین کو جدا ہونا تھا، اس لئے بھی کہ جو بچّے جنم لے رہے ہیں وہ کہاں رہیں گے۔

قبیلوں میں سیکڑوں کہانیاں حکایتیں مقبول رہی ہیں، ایک حکایت میں ایک بڑے پتھر سے تین اشخاص جنم لیتے ہیں، دو یتیم بچّوں کے پاس آتے ہیں ایک لڑکا اور ایک لڑکی خاموش عبادت کرتے نظر آتے ہیں، ایک روح آسمان سے اترتی ہے، یتیم بچّوں سے معلوم کرتی ہے ’’تم کیا کر رہے ہو؟‘‘ دونوں جواب دیتے ہیں ’’عبادت کر رہے ہیں تاکہ فصل اچھی ہو، روح شب بھر اُن بچّوں کے ساتھ رہتی ہے جاتے وقت اپنے جسم سے پیدا ہوئے اناج اُنہیں دیتی ہے اور گم ہو جاتی ہے۔ درمیان میں کچھ واقعات ہوتے ہیں، آخر میں دونوں یتیم بچّوں کے گھٹنوں سے کچھ پتھر نکلتے ہیں اور وہ انسان کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ ایک کہانی اس طرح ہے کہ پوری دنیا میں صرف ایک ہی انسان تھا بہت مضبوط جسم کا مالک، جنگل میں لکڑیاں کاٹ رہا تھا کہ ایک بڑے دیوتا کی خوبصورت لڑکی کی نظر اس پر پڑی، عاشق ہو گئی اُس پر، زمین پر آ گئی اور اس شخص کی بیوی بن گئی۔ ان ہی دونوں کے ملاپ سے ایک بڑے قبیلے کا جنم ہوا۔

ہر قبیلہ ’تخلیق، اور تخلیقی عمل کی اپنی کہانی رکھتا ہے۔ کبھی یہ کہانی حکایتوں کی صورت ہوتی ہے اور کبھی منظوم۔ ایک معروف قبیلہ ہے اس کا عقیدہ یہ ہے کہ غیب سے ایک پرندہ آیا اس کا نام ’’او۔پلیک پی‘‘ (Wo-Plak-Pi) تھا، اسی کے انڈوں سے انسان نے جنم لیا۔ اس پرندے نے ہزاروں انڈے دئے۔ ہر انڈے سے ایک قبیلے کا جنم ہوا۔ اسی طرح انسان کی ہزاروں نسلوں کی پیدائش ہوئی۔ ’کار بس، (Karbis) قبیلے کا اعتقاد یہ ہے کہ دنیا میں بد روحوں اور دیوتاؤں وغیرہ کی کمی نہیں ہے۔ اس قبیلے کے لوگ بد روحوں، خبیثوں اور دیوؤں سے ہمیشہ خوفزدہ رہتے ہیں۔ ’اوپلیک پی، (Wo-Plak-Pi) کے پہلے انڈوں سے پہلے انسانوں نے جنم لیا، لہٰذا آسام کے لوگ دنیا کے پہلے انسان ہیں۔ آسامی ’ناگا، کھاسی سب اسی پرندے کے انڈوں کے بچّے ہیں۔

کسی قبیلے کا یہ خیال کتنا لطیف ہے کہ ندیوں دریاؤں کے نرم آہنگ سے انسان نے ’میلوڈی‘ کا سبق پڑھا ہے، لوک آہنگ کی یہ پہلی منزل ہے۔

 ہندوستان کے شمال مشرقی ریاستوں میں مختلف اقسام کے قبیلوں کی آبادی زیادہ ہے۔ اُڑیسہ، بہار، مدھ پردیش، راجستھان اور گجرات میں ان کی تعداد زیادہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آبادی میں کم و بیش چار سو قبائلی حلقے ہیں، ایک ہزار مردوں پر ساڑھے نو سو سے کچھ زیادہ عورتیں ہیں۔ ان میں اُس نسل کے افراد بھی ہیں جو شکار کھیلتے تھے اور وہ بھی جو اناج پیدا کرتے اور انہیں جمع کرتے ہیں۔ مثلاً منڈا، اُڑاؤں سنتھال اور بھیل وغیرہ، عورتیں محنتی جفا کش اور بعض علاقوں میں مردوں سے آگے بڑھ کر کام کرنے والی ہیں۔ گیتوں اور نغموں کی خالق ہیں، رقص اور سنگیت کے نئے نئے انداز پیدا کرتی رہی ہیں، پہاڑوں، ندیوں، جنگلوں، کھیتوں اور محبوبوں کے نغمے بس اُن سے سنیئے، رقص اور گیتوں میں ہر قبیلے کا اپنا انداز ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر قبیلے کی عورتوں کی اپنی اجتماعی یا نسلی ’سائیکی‘ (Psyche) ہے۔

قبائلی عورتیں گیت گاتی ہیں تو اپنے الفاظ میں اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کرتی ہیں کہ صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ اُن کا نغمہ ہے۔ مثلاً اُن کا گیت ہے۔

میں اپنی ماں کے گھر جانا چاہتی ہوں

لیکن میرے سسر بیمار ہیں

بہت ہی بے چین ہوں۔ اپنی ماں کے گھر جانا چاہتی ہوں

لیکن

اس کی اجازت نہیں ہے،

اس لئے کہ میں چلی گئی تو گھر میں کوئی اور نہ ہو گا!

دوسرا گیت سنئے:

میری ماں غریب ہے

میرا باپ بھی غریب ہے

مجھ سے زیادہ اور کون غریب ہے

ہاں میرا چھوٹا بھائی اور بھی غریب ہے

اس لئے کہ وہ سات جوڑے بیلوں سے ہل جوتتا ہے۔

یہ گیت خاص توجہ چاہتا ہے۔

بھول جاؤ مجھے

اور میری محبت کو

تاکہ میرے ماں باپ کو اس کی خبر نہ ملے،

عمل: شاہینہ

میں اپنی ماں کو چھوڑ دوں گی

اور باپ کو بھی،

اپنے پیارے بھائی کو بھی چھوڑ دوں گی۔

بہتر ہے زہر کھالوں اور اس دنیا سے گزر جاؤں

تمہاری محبت اور تمہارے بغیر زندہ نہ رہ سکوں گی!

اور یہ گیت بھی توجہ طلب ہے:

میرے ساتھی ہم دونوں اُس بڑے پہاڑوں کے پار چلے جائیں

پھیلی ہوئی ندیوں کے پار پہنچ جائیں

مستقبل میں ہم دونوں ساتھ رہیں

جگہ ایسی ہو جہاں کوئی تکلیف میں نہ ہو سب خوش اور ہنستے رہیں۔

ایک لوک کہانی سے قبیلے کی نو جوان لڑکیوں کی نفسیات کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ قصّہ یوں ہے کہ کسی زمانے میں ایک خوبصورت نو جوان مرد پتھر توڑ رہا تھا، بہت محنتی تھا، اُسے دیکھتے بہت سی حسین لڑکیاں مچل مچل گئیں۔ سب چاہتیں کہ وہ مرد اُس کا بن جائے۔ ایک لڑکی تھی جو بہت ہوشیار تھی، اُس نے اس نو جوان خوبصورت لڑکے کی بہن سے دوستی کر لی۔ ایک روز جان بوجھ کر گر گئی جیسے اچانک پھسل گئی ہو اور لگی درد سے چیخنے۔ نو جوان لڑکے کی بہن نے بہت کوشش کی درد کم نہ ہوا۔ دوڑی اپنے بھائی کے پاس اُس سے گزارش کی کہ وہ جلد چل کر اس کی سہیلی کی حالت دیکھ لے، جب تک وہ واپس نہیں آئے گا وہ اُس کے بیلوں کی دیکھ بھال کرتی رہے گی۔ نو جوان مشکل سے راضی ہوا، اُس نو جوان لڑکی کو دیکھا وہ ٹانگوں کے درد سے آہ آہ کرتی جا رہی تھی، جب بھی اس جوان لڑکے نے جانا چاہا لڑکی نے کسی نہ کسی بہانے اُسے روک لیا۔ بہت وقت گزر گیا، اس درمیان میں اُس کے بیل پتھر میں تبدیل ہو گئے!!

ہر قبیلے میں عورتو ں کا احترام غیر معمولی نوعیت کا ہے، کہا جاتا ہے وہ جگہ کہ جہاں تاریکی دور ہو جاتی ہے اور روشنی وجود میں آتی ہے وہاں ندیوں اور دریاؤں کی دیکھ بھال مچھلی رانی کرتی ہے۔

کم و بیش تمام قبیلوں میں فوق الفطری عناصر پر اعتقاد بہت زیادہ ہے۔ عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ اُن کے چھو منتر سے بد روحیں دور بھاگ جاتی ہیں۔ کھیتوں کو کسی کی نظر نہ لگے، اناج اچھا ہو بیماریاں دور ہو جائیں، بچّوں کو بری نظر سے کوئی نہ دیکھے، وہ چھو منتر سے اور مختلف اقسام کی عبادتوں سے انہیں دور رکھتی ہیں۔ وہ ہر مشکل اور مصیبت میں سیاہ جادو ٹونے سے لڑتی رہتی ہیں۔ موسم اتنا خراب ہو کہ کھیتوں میں اچھی پیداوار کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو عورتیں اپنے ’’سفید ٹٹکا ٹونے‘‘ کا استعمال کرتی ہیں وہ مختلف قسم کی بیماریوں کے لئے جڑی بوٹیوں سے دوائیں تیار کرتی ہیں۔ شادی سے پہلے مینڈکوں کی شادی کرنے کا رواج آج بھی موجود ہے۔ عورتوں کی وجہ سے قبیلوں میں ایک فوق الفطری ماحول بنا ہوا ہے کہ جس سے مرد بھی کم متاثر نہیں ہیں۔

عورتوں کے چھوٹے چھوٹے بھگوان ہیں جو ان کی مدد کرتے ہیں، ہر بھگوان کا ایک نام ہے چند نام یہ ہیں، باک، چھامون، بیرا، بوکا کرما، وغیرہ۔ کوئی بھگوان ندی میں رہتا ہے، کوئی بانسواری میں، ایک بھگوان کبھی کبھی بھینس بن جاتا ہے اور اپنی خطرناک صورت دکھاتا ہے۔ بد روحیں منڈلاتی رہتی ہیں، عورتیں ہی اُن کا حساب کتاب کرتی ہیں۔ سب سے خطرناک بد روح، بوکا کرما ہے جس کا سر نہیں ہوتا، اندھیری رات میں گھومتا پھرتا ہے، اس کی دو آنکھیں چمکتی ہوئی حد درجہ ڈراؤنی اس کے سینے پر ہوتی ہیں۔ عورتیں بچّوں کو ان بلاؤں اور بد روحوں سے بچائے رکھتی ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ بچّوں کو بری نظر لگ جاتی ہے لہٰذا بچّوں کی خاص حفاظت کرتی ہیں۔

قبیلوں کی عورتوں کے تین پیکر واضح ہیں :

بیٹی، بیوی، ساس

ان کے علاوہ اور بھی پیکر ہیں لیکن مرکزی پیکر یہی تین ہیں۔
لڑکیاں کھیل کود کی زندگی سے فارغ ہو جاتی ہیں تو گھر کے کام کاج میں جٹ جاتی ہیں۔ ماں کی مدد کرتی ہیں۔ جنگل سے لکڑیاں لاتی ہیں کنویں سے پانی نکالتی ہیں، چھوٹی بچیوں اور بچّوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں، حیض یا ماہواری کے وقت اُنہیں کئی کام کرنے سے روک دیا جاتا ہے، لڑکوں سے دور رہتی ہیں۔ کھانا نہیں پکاتیں، کنویں سے پانی نہیں لاتیں۔ مہمانوں اور گھر والوں کے سامنے کھانا نہیں پروستیں۔ ماہواری کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ عورت بننے کو تیار ہو رہی ہیں، ماہواری پھول ہے جلد ہی پھل آئیں گے۔ بالوں میں تیل لگاتی ہیں اور اُن کے بال لکڑی کی کنگھی سے جھاڑے جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد نو جوان لڑکوں کے ساتھ رقص کرتی ہیں گیت گاتی ہیں۔ اُنہیں آزادی محسوس ہوتی ہے، کھانا پکاتی ہیں کھیتوں میں کام کرتی ہیں، لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے محبتیں بھی کرتی ہیں، گاتی اور رقص کرتی ہیں، محبتوں میں جنسی کھیل بھی کھیلتی ہیں۔

شادی کے بعد زندگی تبدیل ہو جاتی ہے۔ ایک دو ایسے قبیلوں کا ذکر پڑھا کہ شادی کے بعد اپنے شوہر کے بھائیوں کے ساتھ بھی جنسی رشتہ رکھتی ہیں۔ یہ عورت پر منحصر ہے کہ وہ اپنی پسند کے لڑکے کو پسند کرے۔

مختلف اقسام کے جنگلی پھلوں کو کشید کر کے شراب تیار کرتی ہیں۔ رات کے آتے ہی پھلوں کے رسوں کو پیتے ہی رقص جاری ہو جاتا ہے، مرد بھی شامل رہتے ہیں عورتیں کھیتوں میں بہت کام کرتی ہیں، اناج کے لئے زمین ہموار کرنے، بیچ ڈالنے، کٹائی کرنے، اناج کو صاف کرنے کے لئے مردوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ ایک مرد کی کئی بیویاں ہوتی ہیں لہٰذا عورتوں کا فرض یہ بھی کہ وہ اپنی ساس کے علاوہ بڑی بیوی کی بھی خدمت کرے، ایک شادی سے زیادہ شادی کا رواج پہاڑی علاقوں کے قبیلوں میں زیادہ ہے مثلاً کھاسی، نیشی، لاکھیرس اور آکاس وغیرہ۔
قبیلوں کی لڑکیاں اور نو جوان عورتیں رومانی ذہن رکھتی ہیں۔

اُن کے رومانی گانے انگنت ہیں۔

ایک گیت سنئے۔

میں تیری جدائی شدّت سے محسوس کرتی ہوں۔

ہر لمحہ تجھے دیکھنا چاہتی ہوں۔

کسی سے کہتی ہوں وہ تمہیں میری جانب سے خط لکھ دے

ہزاروں منتوں کے باوجود وہ خط نہیں لکھتا۔

میں تیری جدائی شدت سے محسوس کرتی ہوں۔

جوان ہوتے ہی لڑکیاں اپنے بناؤ سنگھار میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ کوشش کرتی ہیں نو جوان مرد ان کی طرف راغب ہوتے رہیں۔

’کھوڈ، (Khond) منڈا (Munda) اراؤں (Oraon)آسورا (Asura) [چھوٹا ناگ پور ] ’بستر‘ (Bastar) [مدھیہ پردیش] میں خود کو سنوارنے نکھارنے اور پر کشش بنانے کا رواج زیادہ ہے۔ لباس، بالوں کی آرائش گودنا (Tattooing) اور معمولی زیورات کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ بالوں میں جنگلی پھولوں کا لگانا عام ہے۔ لکڑی کی کنگھیاں لڑکیوں کے سر پر عموماً نظر آتی ہیں۔ گیت اور رقص جیسے ان کی جبلّت کا تقاضا ہے۔ رنگین لباسوں میں منی پور کی لڑکیاں مختلف قسم کے رقص کا مظاہرہ کرتی ہیں، رقص میں بڑا وقار ہوتا ہے۔ سنتھال پرگنہ میں ’سوہر، نام کا تہوار آتا ہے تو لڑکیاں عموماً یہ گیت گاتی ہیں۔

میری بہن میری بڑی بہن

چلو ہم چلتے ہیں

بہت بڑا تہوار نزدیک آ رہا ہے۔

تمہارے ہاتھ میں ایک پیالے میں پانی ہو

اور میرے ہاتھ میں ایک چھوٹے برتن میں پانی ہو۔

ہم دونوں چلتے ہیں اس بڑے تہوار کو دیکھنے۔

کھلے دل سے اس بڑے تہوار کا استقبال کریں گے۔

ایک دلچسپ گیت سنئے:

اے میرے باپ

میری شادی کسی بوڑھے شخص سے نہ کرو

اے میرے باپ

اگر تم نے کسی بوڑھے شخص سے میری شادی کر دی تو

میں بہت جلد بیوہ ہو جاؤں گی!

لڑکیاں رومانی گیت گاتے گاتے ماحول کی رومانیت پر بھی عاشق نظر آتی ہیں۔ ایک نغمہ یہ ہے:

میں محبت کرتی ہوں

پہاڑوں سے، ندیوں سے، خاموشی سے، دور بہت دور سے بنسری کی آواز سنائی دیتی ہے۔

لوک کہانیوں میں جانے کتنی دل چھو لینے والی حکاتیں ملتی ہیں۔ مثلاً یہ کہانی:

ایک بچّی کی ماں گزر گئی، اس کے باپ نے دوسری شادی کر لی، سوتیلی ماں اُسے پسند نہیں کرتی تھی، بات بات پر اُسے دکھ تکلیف دیتی ایک بار ایسا ہوا بچی کی سوتیلی ماں نے اُسے ایک باسکٹ میں بند کر دیا۔ کھانے کو کچھ بھی نہ دیا۔ چند پرندے آئے اُنہوں نے بچی کی حالت دیکھی اور رو پڑے۔ اُن پرندوں نے اپنے چند پَر بچّی کو دئے تاکہ وہ آزاد ہو جائے، چند ہی لمحوں میں وہ بچّی آزاد ہو گئی اور آسمان کی جانب اُڑ گئی جہاں اُس کی ملاقات اُن پرندوں سے ہوئی کہ جنہوں نے اُسے اپنے پَر دئیے تھے۔
بظاہر ایک ہلکی سی حکایت ہے لیکن دکھ درد اور اذیت سے پرے آزادی اور خوشی کے لمحوں کا احساس تازہ کرتی ہے۔
لوک کتھاؤں اور حکایتوں میں عام طور پر یہ موتف، (Motif) ملتے ہیں۔

1۔ وہ عورت کہ جسے شوہر نے چھوڑ دیا ہے۔

2۔ وہ بچّے جو سو تیلی ماں کی زیادتیوں سے بلکتے رہتے ہیں۔

3۔ بد دعائیں دیتی ہوئی عورتیں۔

4۔ پروں پر بیٹھ کر آسمان کی جانب اُڑ جانے والی بچیاں

5۔ ندی کے اندر ایک خوبصورت قلعہ۔

6۔ محبت کی انتہا۔

7۔ درخت پر چڑھ کر آسمان کی جانب پرواز۔

8۔ وحشت ناک ماحول میں زندہ رہنے کی کوشش

9۔ ایک عورت سے کئی مردوں کی شادی

10۔ انگوٹھی کے معجزے

11۔ مرد کا پھول بن جانا، خونخوار جانور بن جانا، چیونٹی بن جانا۔

12۔ برے کام کے برے انجام۔

13۔ سانپ، بلّی اور بندر۔ انتقام لینے کی سازشیں۔

14۔ رَب کی خوشنودی۔

15۔ بات کرنے والے پرندے، بات کرنے والے جانور اور پودے۔

16۔ کسی عورت پر مرد کے مظالم۔

17۔ عورت مینڈک کو جنم دیتی ہے۔

 آزادی سے پہلے سیاسی جدو جہد میں مختلف علاقوں کے قبیلوں نے برطانوی حکومت سے کئی بار ٹکر لی ہے، آزادی کے بعد ہر قبیلے میں سماجی زندگی کے مختلف شعبوں میں آ گئے بڑھنے کے حوصلے بڑھے ہیں۔ آج تو قبائلی طبقے بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔ نئی سیاسی اور تمدّنی زندگی میں ہر قدم پر آگے بڑھنے کی تمنّا جاگ اُٹھی ہے۔ اب تو بعض علاقوں میں سیاسی زندگی کو خوب پسند کیا جا رہا ہے، تعلیم و تربیت کے تئیں بیداری پیدا ہو چکی ہے، بچّے بڑے اسکول کالج جانے لگے ہیں، یونیورسٹیوں میں بھی کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں، عورتوں میں بھی بیداری آئی ہے۔

1830 سے پہلے بھی عورتوں کو عوامی زندگی سے دور رکھنے اور زراعتی زندگی سے ہی وابستہ رکھنے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔ 1830میں سنگھ بھوم میں عورت کی عزّت آبرو کی حفاظت کی تحریک چلی یہ ایک بغاوت تھی اس میں عورتوں نے بھی حصّہ لیا، برطانوی سپاہی عورتوں کے ذریعہ مردوں کی تحریک کی خبریں حاصل کرتے تھے، عورتوں نے یہ سلسلہ ہی بند کر دیا۔ برطانوی سپاہیوں نے اُن پر بڑے مظالم دکھائے، عورتیں بھی گرفتار ہوئیں ماری بھی گئیں، بہت سی سنتھال عورتوں کو کم و بیش تیس ہزار مردوں کے ساتھ کلکتہ بھیج دیا گیا۔

اسی طرح گیا منڈل کی رہنمائی میں برطانوی سپاہیوں کے ساتھ زبردست ٹکر ہوئی کہ جس میں تلوار لاٹھی اور تیر کمان سب کا استعمال ہوا۔

قبیلوں میں بیوی کو مارنے پیٹنے اور زیادہ شراب پینے کے خلاف بھی ایک دلچسپ تحریک چلی ہے۔

جھارکھنڈ میں جو تحریک چلی اس میں مرد عورت سب شامل تھے۔

بہار اور جھار کھنڈ اور دوسرے کئی علاقوں میں مرد شکار کھیلتے اور عورتیں پھل بٹورتی رہی ہیں۔

عورتوں کا ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ ایسی جڑی بوٹیاں تلاش کریں جن سے علاج میں مدد ملے۔ زراعتی زندگی میں عورت اور مرد دونوں کی محنت ہی سے اناج پیدا ہوتا ہے۔ منڈا (Munda) اوڑاؤں (Oraon) سنتھال (Santhal) اور گونڈ قبیلوں کی عورتیں مردوں کے ساتھ مل کر کھیتوں میں محنت کرتی ہیں اور جب اچھا اناج پیدا ہوتا ہے تو مہوا کی شراب پی کر رات بھر ناچتی گاتی ہیں۔

قبیلوں میں غالباً ہر علاقے میں بڑے بزرگوں کی بہت عزّت کی جاتی ہے، بڑے چھوٹے معاملے میں اُن سے مشورے لئے جاتے ہیں، اُن کی پنچائیت ہوتی ہے، پنچائیت میں صرف مرد ہوتے ہیں عورتوں کو شامل نہیں کیا جاتا۔ بڑے فیصلوں میں صرف تجربہ کار قبائلی مرد ہی شامل رہتے ہیں۔ اُڑیسہ کے کسان، راجستھان کے بھیل وغیرہ کے سماج میں یہ رواج آج بھی موجود ہے۔ کھیتوں کھلیانوں میں عورتیں کام تو کرتی ہیں لیکن اُنہیں ہل چلانے کی اجازت نہیں ہے۔

قبیلوں میں آج بھی بچپن کی شادیوں کا رواج ہے۔ بھیل (Bhils) جو گجرات، مدھ پردیش، راجستھان اور مہا راشٹر میں پھیلے ہوئے ہیں بچّوں کی شادیاں کم عمر میں کر دیتے ہیں۔ ضعیف اور بوڑھی عورتوں سے عام لوگ اس لئے بھی خوفزدہ رہتے ہیں کہ اُنہیں شک ہوتا ہے کہ یہ ڈائن ہیں۔ جادو منتر کرتی ہیں۔ اکثر ضعیف عورتوں پر فوق الفطری طاقت ہوتی ہے، وہ جسے چاہتی ہیں بر باد کر دیتی ہیں۔ اُن کی دوستی بھوت پرتیوں سے ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔

قبیلوں کی زندگی کا بغور مطالعہ کریں تو بہت سی عمدہ نفیس قدروں کی پہچان ہو گی قبیلے کے اندر سچائی کو پسند کرتے ہیں۔ جھوٹ بولنے کو برا سمجھتے ہیں، بہت صاف ستھری زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں، اخلاقی قدروں کو عزیز تر جانتے ہیں، بہادر ہیں، تخلیق صلاحیتیں رکھتے ہیں۔
لوک فنون کی جمالیات نے جمالیات میں بڑی وسعت اور تہہ داری پیدا کی ہے۔ کہانیوں حکایتوں سے قدروں کی کشمکش گیتوں اور موسیقی میں بچّوں جیسی معصومیت، کھیل کھیل میں زندگی کو سمجھ لینے کی کوشش، تاریک ماحول سے ٹکرانے کی اُمنگ، زندگی جیسی بھی ہو اُسے جیتے ہوئے زندگی پر سچّی تنقید، کردار اور ماحول کی پُر اسراریت، ایک خوشنما ماحول کو دیکھنے کی آرزو، ٹریجیڈی کے ہوتے ہوئے معاملات کو سلجھانے کی کامیاب کوششیں، اخلاقیات کے وسیع تر احساس کو اُبھارتے رہنے کی آرزو، جمالیاتی انبساط حاصل کرنے کی خواہش — یہ باتیں ایسی ہیں کہ بلند روحانی قدروں کی پہچان ہونے لگتی ہے۔ حکایتوں، کہانیوں اور گیتوں میں موجود حالات کی تشریحوں کو سمجھنے اور کبھی کبھی علاقوں میں اندر جھانکنے کا تحرک پیدا ہوتا ہے۔ لوک فنون نے جو ’’روحانی فینومینا‘‘ (Spiritual Phenomena) عطا کیا ہے اُس کی جتنی بھی قدر کی جائے وہ کم ہے۔