افرا تفریح

Jameel Khan aik Rozan writer
جمیل خان، صاحبِ مضمون

افرا تفریح

از، جمیل خان

ہمارے ہاں بہت بڑی تعداد ایسی ہے جس کا بعض مواقع پر تجسّس دیدنی ہوتا ہے، مثلاً بیشتر خواتین شادی کے موقع پر دلہن یا دولھا کی زیارت کے لیے ایک دوسرے کو دھکیل کر آگے بڑھنا چاہتی ہیں اور مرد حضرات کسی کی تدفین کے موقع پر مرحوم کے آخری دیدار کے لیے اس طرح اپنا اشتیاق ظاہر کرتے ہیں کہ اس مرحوم کے آخری دیدار کے بعد وہ خود بھی فوت ہوجائیں گے….!

حالانکہ اس طرح کے دیدار کے لیے کسی مرحوم کو ہی دیکھنا لازم نہیں!

ہمارے اردگرد کتنی ہی شخصیات، خاص طور پر معروف مذہبی شخصیات ایسی ہیں جنہیں دیکھتے ہی کانوں میں ایسی آوازیں گونجنے لگتی ہیں کہ….دیکھتے جائیے، آگے بڑھتے جائیے، مٹی نہ گرائیے، مردے کے لیے اس کا بڑا بوجھ ہوتا ہے، آگے بڑھیے، قبر پر پیر مت رکھیے….!

بہت سے چھوٹے اور بعض درمیانے شہروں میں جہاں وڈیروں، جاگیرداروں، سرداروں یا سرمایہ داروں نے عوام النّاس کی اکثریت کو اپنی تفریح و طبع کا سامان بنایا ہوا ہے، عوام النّاس کے لیے واحد تفریح یہ باقی رہ گئی ہے کہ جب سرعام کسی کو مار مار کر جان سے ہی مارا جارہا ہو، تو وہ ایسا منظر دیکھنے کے لیے ایک دوسرے پر گرے پڑے جاتے ہیں!

اوقات بھی ان کی یہی ہوتی ہے….!

ایسے شہروں، قصبات اور دیہاتوں میں عوام کے لیے اس طرز کی تفریحات آج کل تواتر سے فراہم کی جارہی ہیں….کبھی کسی کو سرعام نذرِ آتش کیا جاتا ہے، کبھی کُوٹ پیٹ کر کسی کی جان لی جاتی ہے اور کبھی کسی خاندان کی خواتین کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ان عام لوگوں کے لیے برہنہ رقص جیسی نایاب تفریح لائیو پیش کریں….!

تب تو لوگوں کے ذوق و شوق کا عالم دیدنی ہوتا ہے، جو اگلی صف میں ہوتے ہیں، وہ ہجوم کے دھکّوں سے گر کر کچلے چلے جاتے ہیں اور جو پیچھے ہوتے ہیں، وہ آگے والوں سے اس طرح درخواست کررہے ہوتے ہیں کہ جیسے انہیں کلاس روم میں بلیک بورڈ دکھا ئی نہیں دے رہا ہے!

ایسے میں محوِرقص خواتین کی وحشیانہ چیخوں کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے جملے بھی سنائی دیتے ہیں….او یار مینوں وی ویخن دے….او خدا دا بندہ بن….مینوں نظر نئیں آریا اے….!

اور ہوتا یہ ہے کچھ عرصے کے بعد پچھلی صف کے ان محرومین کی امّی جان، آپاجی اور باجیاں یہی رقص پیش کررہی ہوتی ہیں اور ان کی وحشیانہ چیخوں کے درمیان پچھلی صف میں کھڑے نیو کمرز کی زبان سے مذکورہ جملے ادا ہوتے رہتے ہیں….!

(طباعت کی منتظر کتاب ’’جستہ جستہ کچھ خستہ‘‘ سے اقتباس)