شراب سیخ پر، کباب بوتل میں:اسیری، رہائی اور دہائی

(عثمان غنی)

Eldrige Cleaverکے بقول You’re either part of the solution, or you’re part of the problem دھرتی کے ساتھ کھلواڑ مگر زیادہ دیر نہیں چل سکتے، ظالم اور مظلوم کا بیک وقت دم بھرنے والے معاشرے نیست و نابود ہو جاتے ہیں، خون کے دھبوں کو مصنوعی اور بے انصافی کی برساتوں سے دھویا نہیں جا سکتا، بقول شاعر

عجیب تیری سیاست، عجیب تیرا نظام

حسین سے بھی مراسم، یزید کو بھی سلام

آزادی کا مہینہ ہمارے ہاں اگست کا مہینہ ہے، جسے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے حالانکہ ہمیں ہر دن کو بھرپور اورآزادی سے منانا چاہیے، ہم آزاد قوم ہیں اس کیلئے ہمارے آباؤ اجداد نے ان گنت قربانیاں دی ہیں مگر نہ جانے کیوں منیر نیازی کی بات سچ معلوم ہوتی ہے کسی ’’آسیب‘‘ کے سایہ کی وجہ سے ’’حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ۔۔۔”

آزادی کے مہینے کا ذکر اس لیے آگیا کہ اس مہینے میں ہر طرف چاند ستارے والے سبز پرچم اور جھنڈے لہراتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر اگست سے اگلے مہینے یعنی ستمبر میں سبز ہلالی پرچموں اور جھنڈوں کی جگہ کچھ بے تکے، مصنوعی اور انتقامی جذبات سے بھرپور ڈنڈوں اور غنڈوں نے لے لی ہے، سرکار کا حکم ان کو مگر یہ ہے جس نے بھی ’’جاتی امراء ‘‘ آنے کی کوشش کی، اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ جس زمین و آسمان کو بنانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے، اسی زمین پر چلنے پھرنے کے لائسنس اسی سیارے سے تعلق رکھنے والے کچھ ’’حشرات‘‘ نے اپنے جیبوں میں رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ معاملہ ہلکی پھلکی موسیقی تک ہی محدود رہے گا، پکے ’’راگ‘‘ کی دھائی مگر سنائی نہیں دے رہی، تحریک انصاف کے سوا دیگر جماعتوں نے کمال ’’عقلمندی‘‘ سے داتا کی نگری میں قدم رکھنے سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔

حقیقتاً یہ Distance رکھنا ان کی ’’مجبوری‘‘ ہے وجہ مگر بالکل واضح ہے کہ سب ’’صالحین‘‘ کے Genes آپس میں ملتے جلتے ہیں اس لیے ان کی ’’عادات‘‘ کا ایک جیسا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں، جب پانامہ سکینڈل آیا تھا تو میں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’’یہ جنگ عمران خان کو تنہاء لڑنا پڑے گی۔ ‘‘ اکیلے ہی جانب منزل قدم اٹھانا کپتان کی مجبور ی بن چکی ہے جسے سولو فلائٹ کہا جاتا ہے ’’لوگوں ‘‘ کے ملنے سے کارواں کا بننا دور دور تک نظر نہیں آرہا ، بھٹو کی پارٹی خود گردش دوراں کی ستائی ہوئی پارٹی ہے ۔ اسکے چیئرمین ملک میں موجود نہیں جبکہ ’’جمہوری‘‘ چادر والی سرکار اور اسلام کے بجائے اسلام آباد پر ’’نظر‘‘ رکھنے والی برگزیدہ ہستی نواز شریف کا ساتھ دینے کی منہ بولی قیمت وصول کرنے میں مصروف ہے، چوہدری نثار نے بتایا تھا کہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے دھرنے میں حکومت کا ساتھ دینے پر اس کی ’’قیمت‘‘ وصول کی تھی، یہ نصیب کے فیصلے Bilateral چلتے ہیں جس کا عوام کے مفاد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، تحریک انصاف کی احتساب ریلی اور لال حویلی کے One Man Show شیخ رشید کی نجات ریلی سے قوم کو احتساب اور نجات کا راستہ ملے نہ ملے لیکن کچھ وزیروں کو اپنی وزارتوں سے متعلقہ کام چھوڑ چھاڑ کر ’’قدم بڑھاؤ نواز شریف ، ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘، کے نعرے لگانے کا جی بھر کے موقعہ مل جائے گا اور 24/7چینلز پر خوب ’’رونق‘‘ لگے گی ۔

ایسی ہی رونق کچھ دن پہلے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن کی ’’غیرمتوقع‘‘ گرفتاری اورپھر ’’اچانک ‘‘رہائی سے لگی تھی۔ بقول شاعر

اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا

کیا اسیری ہے ، کیا رہائی ہے

خواجہ اظہار کو Encounter Specialist راؤ انوار نے گرفتار کیا تھا مگر سندھ کے وزیراعلیٰ نے برقت نوٹس لیتے ہوئے نہ صرف انہیں رہائی دلوائی بلکہ ایس ایس پی کو بھی معطل کر دیا ہے۔ وزیراعلیٰ کا کہنا یہ تھا کہ اس گرفتاری کے لئے سپیکر کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ یعنی اگر کوئی ملزم کوئی جرم کر ے تو اس ادارے کے سربراہ کی اجازت کے بغیر اسے گرفتار نہیں کیاجاسکتا ، بالفرض کسی ABCکو گرفتار کرنا مقصود ہو تواس ادارے کے سربراہ سے اجازت لینا درکار ہو گا، وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔

شراب سیخ پر پر ڈالی، کباب شیشے میں

اور تو اور وزیراعظم کو بھی بروقت معاملہ رفع دفع کرنے کی ہدایت کرنا پڑی توجہ طلب یہ ہے کہ خواجہ اظہار اگر ’’بے گناہ ‘‘ تھے تو وہ عدلیہ میں اپنی بے گناہی ثابت کر سکتے تھے مگر ایک پولیس آفیسر کو معطل کر کے ’’مجرم‘‘ کو Out Of The Way جاکر رہائی دلانا کئی شکوک و شہبات کو جنم دیتا ہے ، صرف ایک جماعت کو دیوار سے لگانے کی باتیں احمقانہ ہیں۔ کراچی میں بسنے والی دوسری جماعتوں نے کبھی یہ گلہ کیوں نہیں کیا۔ 92کے آپریشن میں حصہ لینے والے سب پولیس افسروں (ماسوائے راؤ انوار) کو کس نے قتل کیا، بلدیہ فیکٹری میں تین سو لوگ زندہ جلا دئیے گئے مگر مجرموں کو قرار واقعی سزا کیوں نہ مل سکی، کیا وزیراعظم حقیقی بے گناہوں کی گرفتاری کا بھی نوٹس لیتے ہوئے ان کی رہائی کیلئے بھی اقدامات کرنے کا حکم دینگے ۔ نہیں کبھی نہیں ! انصاف کے تقاضے مگر ہمارے ہاں ہر کسی کے معاشرتی Status کے مطابق ہیں۔ تھر میں سینکڑوں بچوں کی اموات کا مقدمہ ’’کسی ‘‘کے خلاف اب تک درج کیوں نہ ہو سکا؟ ایک عدالت اللہ کی عدالت ہے جس سے کسی کو کوئی استثنیٰ حاصل نہیں۔ جس میں ہر محمود و ایاز کا درجہ برابر ہے۔ جہاں معاشرتی Status کے مطابق کوئی تمیز نہیں ، عوام کو انصاف ملنے کی عدالت یہی عدالت ہے جہاں حقیقی معنوں میں انصاف ہوگا ، وقت ، لوگوں اور ضمیر کی عدالتوں میں انصاف کے تقاضے بڑے کڑے ہیں ،عوام مگر ان تقاضوں کی تاب نہیں لا سکتے۔

کشمیر میں 75روز سے کرفیو نافذ ہے اور پیلٹ گولیوں کی بوچھاڑ کشمیریوں کی بینائی تو چھین سکتی ہے مگر آزادی کی منزل سے انہیں دور نہیں کر سکتی، اڑی میں بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کا الزام پاکستان پر لگانا بھارتی بوکھلاہٹ کا واضع ثبوت ہے کہنا صرف یہ چاہ رہا ہوں کہ ن لیگ والے جو ڈنڈے پی ٹی آئی کو دکھلا رہے ہیں بلکہ جھوم جھوم کے لہرا رہے ہیں وہ ڈنڈے کشمیریوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم کرنے پر مودی سرکار کو دکھاتے تو شاید’’کسی‘‘ کے کشمیری ہونے کا حق ادا ہو جاتا۔