داستان ہندوستان پر برطانیہ کے احسانات کی

داستان ہندوستان پر برطانیہ کےاحسانات کی

داستان ہندوستان پر برطانیہ کے احسانات کی

(ابوشامل) 

لارڈ میکالے نے کہا تھا کہ ہمیں ہندوستان میں ایک ایسا طبقہ بنانے کی لازمی کوشش کرنا ہوگی جو ہمارے اور کروڑوں ہندوستانیوں کے درمیان ترجمان کا کام کرے، ایک ایسا طبقہ جو رنگت میں تو ہندوستانی ہو، لیکن اپنے مزاج، خیالات، اطوار اور سوچ میں انگریز ہو۔” آج یہی طبقہ زندگی کے ہر مرحلے پر انفرادی و اجتماعی دونوں سطح پر برصغیر کے عوام کو ہمہ وقت وہ احساس کمتری دلاتا رہتا ہے جو پیدا کرنے کے لیے اس طبقے کو تخلیق کیا گیا تھا۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت ہی نہیں، سوشل میڈیا پر آپ کا سابقہ ایسے بہت سے افراد سے ہوا ہوگا جن کے خیال میں ہمارا قومی ترانہ اردو نہیں بلکہ فارسی ہے، ہمارا یوم آزادی 14 نہیں بلکہ 15 اگست ہے، ہمارا “اصل” قومی ترانہ حفیظ جالندھری کا نہیں بلکہ جگن ناتھ آزاد کا لکھا ہوا تھا اور پاکستان کے قیام کا مقصد دراصل ایک سیکولر ریاست بنانا تھا وغیرہ وغیرہ۔ ایسی تمام بے سند باتوں کا مقصد صرف اور صرف ایک ہی ہے کہ ہم ہر وقت اس احساس کمتری میں رہیں کہ ہماری تو اتنی چھوٹی سی کل بھی سیدھی نہیں اور یوں لاشعوری طور پر گوروں کی عظمت کے قائل رہیں۔

برطانیہ نے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد اسے کیا دیا؟ اس موضوع پر حلقہ احباب میں بڑی سیر حاصل بحثیں ہو چکی ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت کے سیاست دان ششی تھرور کی نئی کتاب “Inglorious Empire” بالکل اسی موضوع اور دلائل کا احاطہ کر رہی ہے جن کی بنیاد پر ہماری بحثیں گرما گرم روپ اختیار کرتی رہیں۔ اس کتاب میں کون سے دلائل دیے گئے ہیں، ان کا کچھ خلاصہ خود ششی تھرور نے کیا ہے:

تقسیم ہند کے بعد سے اب تک پورے برصغیر میں ایک طبقہ ایسا ضرور پایا جاتا ہے جو نوآبادیاتی قبضے کے بارے میں معذرت خواہانہ لہجہ رکھتا ہے۔ وہ بدترین استحصال، لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا جواز تو پیش نہیں کر سکتا لیکن ایک نیا موضوع چھیڑ کر اس کی کراہیت کو کم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ برطانیہ دو صدیوں میں جو کچھ لوٹ سکتا تھا لے گیا، لیکن پیچھے کئی ایسی چیزیں چھوڑ گیا جن سے ہمیشہ فائدہ اٹھایا گیا۔ جیسا کہ سیاسی وحدت، جمہوریت، قانون کی حکمرانی، ریلوے نظام، انگریزی تعلیم، یہاں تک کہ وہ ان کے “احسانات” میں چائے اور کرکٹ کو بھی شمار کر دیتا ہے۔ بدقسمتی سے انگریزوں کے دو صدیوں پر محیط اقتدار نے ہندوستان کو اتنا پیچھے کردیا ہے کہ آج بھی علمی سطح پر ان تمام بے وقوفانہ دلائل کو رد نہیں کیا جاتا بلکہ ایک بہت بڑا عوامی طبقہ بھی ایسا ہے جو ان کی تائید کرتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان تو قبل از تاریخ سے ایک وحدت تھا اور اسے “متحد” کرنے کا سہرا برطانیہ کے سر پر سجانا کچھ جچتا نہیں ہے۔ قدیم ہندو مذہبی کتب دیکھ لیں، ہمالیہ اور سمندر کے درمیان کی سرزمین “بھارت ورش” کہلاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عرب اس علاقے کے تمام افراد کو ‘ہندی’ کہتے تھے۔ سلطنت موریا سے لے کے عظیم مغلوں تک، کئی سلاطین نے لگ بھگ پورے ہند پر حکومت کی ہے تو اس کا سہرا آخر برطانوی نو آبادیاتی قابضوں کو کیوں دیا جائے کہ انہوں نے ہند کو متحد کیا؟

حقیقت یہ ہے کہ یہ برطانوی راج کا دور ہی تھا کہ جس میں ملک کے سیاسی اداروں کی جڑیں کاٹی گئیں اور مذہبی و فرقہ ورانہ تقسیم اور باقاعدہ سیاسی امتیاز کے ذریعے اپنی حکومت کو مستحکم کیا گیا۔ 1757ء میں جنگ پلاسی کے بعد تو برطانیہ نے نہایت عیاری سے ہندوستانی ریاستوں کے درمیان دراڑیں پیدا کیں اور اپنی ‘تقسیم کرو اور حکومت کرو’ کی پالیسی کے ذریعے غلبہ حاصل کیا۔

جب ایک صدی بعد 1857ء میں ہندو اور مسلمان سپاہیوں نے مل کر راج کے خلاف بغاوت کی اور مغل بادشاہ کی اطاعت کا اعلان کیا تو قابض برطانوی سلطنت کے کان کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے اسی میں عافیت جانی کہ ان دو سب سے بڑے گروہوں کو ایک دوسرے سے بدظن کیا جائے اور یوں اپنے اقتدار کو طول دے۔ ہندو مسلم تصادم صرف نو آبادیاتی دور ہی میں ہوئے اور بالآخر اس کا نتیجہ 1947ء میں تقسیم ہند کی صورت میں نکلا جس میں 10 لاکھ لوگ فسادات کی نذر ہوئے، ایک کروڑ سے زیادہ بے گھر ہوئے، اربوں روپے کی املاک خاکستر ہوئی اور نفرت کی ایسی آگ لگی کہ جس کی حدت آج بھی خطے میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہ ہندوستان پر برطانیہ کے ناکام ترین اقتدار کا بدترین اختتام تھا۔

پھر تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ ہندوستان میں جمہوری اداروں کے فروغ کے لیے کام برطانیہ نے کیا جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ نچلی سطح پر مقامی حکومت کے نظام کو کھڑا کرنے کے بجائے ایسٹ انڈیا کمپنی نے جو سسٹم موجود تھا، اسے بھی برباد کیا۔ برطانیہ نے صرف حکومت کی، لگان اکٹھا کیا اور انصاف کے لیے عدالتیں سجائیں اور اس پورے عمل سے مقامی ہندوستانیوں کو کوسوں دور رکھا۔ پھر تاج برطانیہ کے زیر نگیں غیر منتخب شدہ صوبائی و مقامی “قانون ساز” کونسلیں تھیں جن کے اراکین تعلیم یافتہ اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے جو نہ عوام کو جواب دہ تھے، نہ انہوں نے کوئی اہم قانون سازی کی اور نہ ہی ان کے پاس کوئی طاقت یا اختیار تھا۔

1920ء کی دہائی کے اواخر میں جب “اصلاحات” کی گئیں اور ہندوستانی نمائندگان کو کونسلوں میں جگہ دی گئی تو اسے اتنا محدود و مخصوص رکھا گیا کہ 250 میں سے صرف ایک ہندوستانی ہی اپنا ووٹ استعمال کر سکا۔ پھر تعلیم و صحت کے شعبوں کی کوئی پروا نہیں کی گئی اور حقیقی طاقت کے سرچشمہ صوبائی گورنر ہی رہا جس کے پاس تمام اختیارات ہوتے تھے۔

بالفاظ دیگر 200 سالوں تک ہندوستان کے عوام پر ظلم و تشدد کیا گیا، انہیں قید و بند میں ڈالا گیا، غلام بنایا گیا، اپنی زمینوں سے بے دخل کیا گیا، سزائے موت تک دی گئیں اور اس کے بعد دعویٰ کیا گیا کہ ہم نے آپ کو جمہوریت دی۔

ایک پہلو یہ بھی دیکھیں کہ جب مقامی افراد کے خلاف گورا کسی جرم کا مرتکب ٹھیرتا تو کم سے کم سزا پاتا۔ ایک گورا اگر اپنے ہندوستانی نوکر کو گولی مار دے تو اسے چھ مہینے کی قید ہوتی تھی اور جرمانہ بھی معمولی سا، تقریباً 100 روپے۔ جبکہ اگر کوئی ہندوستانی کسی گوری سے زیادتی کی کوشش کرنے پر ہی 20 سال قید بامشقت کی سزا پاتا تھا۔ برطانوی عہد کی پوری دو صدیوں میں صرف تین ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں کسی ہندوستانی کو مارنے پر کسی انگریز کو سزائے موت دی گئی ہو۔ جبکہ گوروں کے ہاتھ ہزاروں دیگر افراد کے خون سے رنگے رہے اور انہیں کوئی سزا نہیں ملی۔ کسی گورے کے ہاتھوں ہندوستانی کا مارا جانا ہمیشہ حادثہ کہلاتا جبکہ کسی بھی مقامی کا معمولی سا قدم بھی ہمیشہ بڑا جرم۔

بلاشبہ برطانیہ نے ہندوستان کو انگریزی زبان دی جس کے فائدے آج بھی سمیٹے جا رہے ہیں لیکن کیا واقعی انہوں نے اپنی زبان دی؟ انگریزی زبان درحقیقت ہندوستان کے لیے تحفہ نہیں تھی بلکہ لارڈ میکالے کے مندرجہ بالا الفاظ میں ترجمانی کے لیے ایک مخصوص طبقے کو عطا کی گئی تھی۔ برطانیہ کو ہندوستانی عوام کی تعلیم کی نہ کوئی خواہش تھی اور نہ ہی اس سے اس مقصد کے لیے کوئی بجٹ رکھا۔ یہ ہندوستانی تھے، جنہوں نے انگریزی کا دامن پکڑا اور اسے تھامے رکھا اور اس کے بل بوتے پر اپنی آزادی کی راہ ہموار کی۔ انہوں نے برطانیہ کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے انگریزی کو آلے کے طور پر استعمال کیا۔

ریلوے کا قیام بھی برطانیہ کا ایک ایسا ہی “کارنامہ” ہے جس کا سہرا بلاوجہ برطانیہ کے قابضین کو دیا جاتا ہے جنہوں نے اصل میں یہ کام اپنے مفاد کے لیے کیا تھا۔ گورنر جنرل لارڈ ہارڈنگ نے 1843ء میں کہا تھا کہ ریلوے تجارت، حکومت اور ملک پر عسکری قبضے کے لیے اہم ہوگی۔ پھر برطانیہ نے ریلوے میں سرمایہ لگا کر اندھا پیسہ بنایا۔ ہندوستانیوں سے لیے گئے محصول کو ہی استعمال کیا، بلکہ دوگنا لگان تک لگا کر ریلوے بنائی جسے بنانے کا پہلا مقصد ہندوستان کی کانوں سے نکالے جانے والے کوئلے اور خام لوہے اور کپاس سمیت دیگر فصلوں کو ان بندرگاہوں تک پہنچانا تھا جہاں سے انہیں برطانیہ لے جایا جاتا۔ لوگوں کو سفری سہولت دینا تو بس اس کی ‘بائی پروڈکٹ’ تھی اور اس میں بھی نوآبادیاتی عمل صاف نظر آیا۔ تیسرے درجے کے ڈبوں میں بیٹھنے کے لیے لکڑی کے تختے ہوتے تھے، اور بیت الخلاء سمیت کوئی بنیادی سہولت دستیاب نہیں ہوتی تھی۔ یہ وہ “عظیم خدمت” تھی جس سے ہندوستانی “فائدہ” اٹھا رہے تھے۔

پھر ریلوے میں ہندوستانیوں کو ملازمتیں بھی نہیں دی گئیں۔ سرمایہ کاری کو تحفظ دینے کے لیے صرف گورے بھرتی کیے گئے۔ 20 ویں صدی کے اوائل تک ریلوے بورڈ کے ڈائریکٹرز سے لے کر ٹکٹ چیکر تک پورا عملہ انگریزوں پر مشتمل تھا۔ 1854ء سے 1947ء کے درمیان انگلستان سے ساڑھے 14 ہزار ریلوے انجن درآمد کیے گئے جبکہ 3 ہزار اضافی کینیڈا، امریکا اور جرمنی سے بھی منگوائے گئے اور 1912ء تک ہندوستان میں ایک بھی نہیں بنا۔ ٹیکنالوجی منتقل نہ ہونے کی وجہ سے آزادی کے بعدبھی ہندوستان کو بدستور انگلستان سے مدد لینا پڑی۔

ہندوستان میں نو آبادیاتی اقتدار اقتصادی استحصال اور کروڑوں زندگیوں کے خاتمے کا نام تھا۔ابھرتی ہوئی صنعتوں کی تباہی، مسابقت کے مواقع تک رسائی سے روکنا، حکومت کے مقامی اداروں کے خاتمے اور سب سے بڑھ کر اپنی شناخت اور عزت نفس کا خاتمہ تھا۔ 1600ء میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی بنی تو برطانیہ دنیا کے کل جی ڈی پی کا صرف 1.8 فیصد پیدا کرتا تھا جبکہ ہندوستان 23 فیصد جو 1700ء میں 27 فیصد تک پہنچا۔ لیکن 1940ء میں، دو صدیوں تک برطانوی راج کے اقتدار میں رہنےکے بعد برطانیہ عالمی جی ڈی پی کا 10 فیصد پیدا کرنے لگا اور ہندوستان “تیسری دنیا” کا غریب ملک بن چکا تھا۔ یہ ایک مفلس، کنگال اور بھوکا ہندوستان تھا، جو غربت اور افلاس کا عالمی مرکز تھا اور کسی حد تک آج بھی ہے۔ برطانیہ ایک ایسا ملک چھوڑ کر گیا جہاں شرح خواندگی صرف 16 فیصد تھی، متوقع عمر صرف 27 سال، جہاں کوئی مقامی صنعت نہیں تھی اور 90 فیصد سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی تھی۔ وہ ہندوستان جہاں جب برطانوی آئے تھے تو یہ ایک امیر، خوش حال، ترقی یافتہ ملک اور تجارت کا مرکز تھا اور ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میں دلچسپی کی وجہ بھی یہی خصوصیات تھیں۔ ہندوستان ہرگز پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ علاقہ نہیں تھا بلکہ قبل از نو آبادیاتی دور میں یہاں ایسی اعلیٰ معیار کی مصنوعات تیار ہوتی تھیں جن کی برطانیہ کی فیشن ایبل سوسائٹی میں بڑی مانگ تھی۔

برطانیہ کی اشرافیہ بھارتی لینن اور ریشم پہنتی تھی، اپنے گھروں کو ہندوستانی چیزوں سے سجاتی تھی اور ہندوستانی مصالحے یہاں عام تھے۔ 17 ویں اور 18 ویں صدی تک برطانوی کارخانے ہندوستانی کپڑوں کی جعلی نقلیں بنا کر انہیں ملک میں بیچ کر سادہ لوح عوام کو لوٹتے تھے۔

اپنی ہزاروں سالہ تہذیبی تاریخ میں ہندوستان کی داستان عظیم تعلیمی اداروں، عظیم شہروں، عظیم ایجادات، عالمی معیار کی عظیم صنعتوں اور زبردست ترقی کی کہانی ہے۔ اگر برطانیہ اس کے وسائل کو بری طرح نہ لوٹتا تو شاید آج کا برصغیر مختلف ہوتا۔

Courtesy and all rights of: abushamil.com