صوفیانہ واردات کی تفہیم ، از, ولیم جیمز حصہ چہارم و آخر

Jamshed Iqbal
جمشید اقبال

صوفیانہ واردات کی تفہیم ، از, ولیم جیمز، حصہ چہارم و آخر

ترجمہ: جمشید اقبال

اس صورتِ حال میں شعوری کیفیات کو بھی الفاظ کی بیڑیوں میں نہیں جکڑا جا سکتا۔ اس بات پر دنیا بھر کے صوفیائے کرام کا اتفاق ہے۔ سولہویں صدی کے صوفی شاعر سینٹ جان آف کراس اس حالت کو(مسلمان صوفیائے کرام کی طرح ) ”حالتِ وصل ” کہتے ہیں۔ جس کا حصول ”تفکرِ محجوب” سے ممکن ہے:

”اس صورت حال میں روح کا قطرہ حقیقت کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔ یا پھر حقیقت کا سمندر روح کے قطرے میں آن گرتا ہے۔ لمحۂ وصال صدیوں کی ریاضتوں کا ثمر ہوتا ہے۔ اس دوران لفظوں کے گورکھ دھندوں کون الجھے؟ کون اس لطافت کو عالمِ  کثافت میں کھینچ لائے؟ جس کی مثال نہ ہو، جو لاثانی ہو۔ اس کی کیا مثال دی جائے؟ اس تجربے کی دانش اور خلوص کے اظہار کے لائق کوئی لفظ ۔۔ کوئی تمثیل ۔۔ کوئی استعارہ ۔۔ کوئی اشارہ ۔۔ کوئی کنایہ ہے؟ ہمیں خدا کا صوفیانہ علم کسی مجازی شکل میں نہیں ملتا۔ اس لیے اس کا مجازی استحضار ناممکن ہے۔ چونکہ اس تجربے کے دوران حواس اور تخیل کے پر جھڑ  چکے ہوتے ہیں اس لیے ہیت کشائی اور خاکہ کشی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی ہم اس تجربے سے کسی ملتے جلتے تجربے سے اس سے قبل واقف ہوتے ہیں۔ ہاں یہ تجربہ ہمیں حلاوت آمیز دانش عطا کرتا ہے۔ ہماری نظر بدل دیتا ہے۔ ہماری آرزوئیں بدل دیتا ہے۔ یہ دانش ہماری عقل پر نہیں  قلب پر نازل ہوتی ہے۔ اُس آدمی کا تصور کریں جو کوئی ایسی چیز دیکھ رہا ہے جو اُس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ وہ اُسے دیکھ سکتا ہے۔ لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ لیکن اُسے کوئی نام نہیں دے سکتا۔ نہ ہی اُس کے بارے میں کسی کو بتا سکتا ہے حتیٰ کہ اُس کا تجربہ محض حسیاتی تجربہ ہوتا ہے۔ اُس وقت اُس شخص کے نطق و کلام  کی بے بسی کا کیا عالم ہوگا جب اُس کا تجربہ ماورائے حواس ہو۔ الوہی زبان کی یہ خصوصیت ہے حقیت یا آپ کا تجربہ ،جس قدر سادہ ، لطیف ، شناساں، ماورائے حواس ہوگا اس کے اظہار کے لیے خاموشی کی زبان اُتنی کارگر ہوگی۔ روح کو (تجربۂ وصل کے دوران) یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ کہنہ سکوت میں اُتر گئی ہے۔ ایسی دنیا  میں جہاں سب کچھ تھم گیا ہے، جم گیا ہے۔ ایک ایسا مقام جہاں عالمِ خلق میں کسی کی رسائی ممکن نہیں۔  جیسے کوئی بے کنار بے موج بحرِ سکوت جہاں تنہائی اور سکون کے علاوہ کسی رشتے کا احساس نہیں۔ یہ دانش کی تحت الثریٰ ہے۔ سب اشارے یہاں سے بھیجیے جارہے  ہیں۔ یہ سرچشمۂ  عشق و مستی ہے۔ یہیں سے روح غذا اور تقویت پاتی ہے۔ ہم جس قدر قادر الکلام  اور بحر العلوم ہوجائیں اس مقام پر زُبان احساسِ افلاس سے پانی پانی  ہوجاتی ہے۔ انسان کس قدر ادنیٰ، کورِچشم اور احساسِ جمال سے عاری ہوجاتا ہے جب بے مثال کی بے مثل لطافت کو نام دے کر آلودہ کرنے کی ضد پر اُتر  آئے؟‘‘۔

میں تصوف کے متعدد و متفرق سلاسل اور مراحل پر بات نہیں کروں گا۔ کیونکہ وقت اس مفصل گریز کی اجازت نہیں دے گا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اِس دنیا میں نام اور زبان مختلف سہی لیکن اشارہ ایک حقیقت کی جانب ہے۔ اتنے لوگ، اتنے ذہن، ہر ایک نے ایک تجربے کو مخصوص مذاق اور اسلوبِ مزاج سے  جامائے اظہار عطا کیا ہے۔ اس لیے جتنی زبانیں اُتنے اسلوب لیکن قصہ ایک ہے۔

ہمارا موضوع یا گفتگو کا مقصد صوفیانہ واردات کی وقوفی، ادراکی یا عرفانی تفہیم ہے۔ اِن تجربات سے حاصل ہونے والی دانش اور کشف کی قدرپیمائی بھی آج کی گفتگو کے مقاصد میں شامل ہے۔ اس لیے ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ صوفیانہ واردات نے لوگوں پر کیا اثرات مرتب کیے کہ اُن کی زندگیاں ہی بدل گئیں۔ سولہویں صدی کی ہسپانوی صوفیہ اور لکھاری سینٹ ٹریسا وصل کی حالتوں کے اظہار میں ملکہ رکھتی تھیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ لمحۂ وصل کے بارے میں کیا لکھتی ہیں:

”جب روح دنیا میں سوجائے اور خدا میں بیدار ہو۔ اس مختصر لمحے کے دوران وصل کی گھڑی آسکتی ہے۔ اُس لمحے ہر احساس ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ اگر وہ (روح) کچھ اور سوچنا بھی چاہے تونہیں سوچ سکتی۔ اس لیے قوتِ ادراک کی زیرکی کسی کام نہیں آتی۔ محبوب کی آمد کی گھڑی کا طبل بجتے ہی سب ٹھہر جاتا ہے۔ سب گِر جاتا ہے۔ محبت کے سارے آداب اور سلیقے بھی فراموش ہوجاتے ہیں۔ اختیار اور ارادے کے واہماتی ہتھیار خود بخود گر جاتے ہیں۔ روح دنیا کے لیے مرجاتی ہے اور خدا میں حقیقی جنم لیتی ہے۔ اُسے سانس لینے کی بھی فرصت نہیں ہوتی۔ یہ روحانی خود فراموشی کا لمحہ ہوتا ہے۔ روح اپنے آپ سے واقف نہیں رہتی۔ محض اپنے ماخذ میں گم ہوجاتی ہے۔ قوت ِ فکر یہ جاننے سے عاری ہوتی ہے کہ اُس کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ تاہم اُسے وہ کچھ کرنا ہے جس کا اُسے حکم ملا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ اس لیے وصالی لمحے سے گزرنے والا شخص دنیا کو مردہ دکھائی دے سکتا ہے لیکن حقیقت میں  وہ حیات کے بلند ترین مقام پر موجود ہوتا ہے۔

جب خدا پاک روحوں کو اپنے وصال کے لیے خود معراج نصیب کرتا ہے۔ ان  کی روح کو دنیا و مافیھا سے بیگا نہ کر دیتا ہے۔ اس کے تمام عمومی اور دنیوی اعمال و اشغال موقوف کر دیے جاتے ہیں۔ اُس کی ہر وہ چیز جو دنیوی فہم و فراست کا باعث بنتی ہے چھین لی جاتی ہے تاکہ الوہی کشف و الہام کی گھٹا ٹوٹ کر برس سکے۔ بحر آسا خدا  پیغمبرانہ شعور پر اپنی مہر ثبت کر دیتا ہے۔ جو مٹائی نہیں جا سکتی۔ جسے مادی شعور کی کثافتیں چھو نہیں سکتیں۔

لیکن یہ لمحہ ہمیشہ مختصر سہی لیکن لاکھوں صدیوں پر  بھاری ہوتا ہے۔ اس دوران روح اپنے ماخذ سے وصل کا لطف اٹھاتی ہے۔ قطرہ جان لیتا ہے کہ وہ سمندر ہے۔ خدا روح کے بطن البطون میں اس طرح سما جاتا ہے کہ جب وہ لوٹتی ہے تو یقین سے کہہ سکتی ہے کہ وہ خدا سے مل کر آئی ہے۔ حقیقة الحقائق میں ڈوب کر نکلی ہے۔ روح اس کے بعد ہمیشہ اپنے آپ کو خدائی ”آغوش” میں پاتی ہے۔

وصل کی حقیقت روح کی تختی پر ثبت ہوجاتی ہے۔ سال گذر جائیں۔ صدیاں بیت جائیں۔ وصل کے ایک لمحے کا سُرور کہیں نہیں جاتا  کیونکہ اس لمحے اِس نے جام ِ دوام پیا ہے۔ اُسے پورا یقین ہوتا ہے کہ اُسے حقیقت کا وصال نصیب ہوا  ہے۔ وہ اس عنایت کے   لمحے کو کبھی نہیں بھول سکتی”۔

آپ یہ سوال پوچھ سکتے  ہیں کہ  روح کو یہ یقین کیسے حاصل ہوتا ہے کہ اُسے وصلِ خداوندی کا لمحہ نصیب ہوا ہے؟ کیونکہ دوران ِ وصل وہ قوتِ ادراک اور حواس سے محروم ہوچکی تھی۔ میں اس پر یہ کہوں گی  کہ یہ حقیقت اُس پر بعد میں کھلتی ہے۔ دورانِ مراجعت وہ یہ جان پاتی ہے کہ وہ اپنی حقیقت میں ضم ہونے کے تجربے سے گذری ہے۔ اس یقین کی وجہ کوئی واہمہ نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ  یقین ہوتا  ہے جس کی دولت  نے اُسے سیر کر دیا ہو۔

میں ایک ایسے شخص سے واقف ہوں جو یہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھا کہ خدا ہر چیز میں توانائی، وجود، ذات اور حقیقت کے طورپر موجود ہے۔ جب ذاتِ  خداوندی کی عنایت ہوئی۔ اُسے یہ کریم لمحہ میسر آیا۔ وہ اس حقیقت کا ابطال کرنے طاقت سے محروم ہو چکا تھا۔ آپ ایک بار پھر اس سوال پر زور دیں گے کہ جسے ہم نے نہیں دیکھا۔ ہم یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم اُسے دیکھ چکے ہیں۔ مجھ میں اس سوال کا جواب دینے کی سکت نہیں ہے۔ یہ خدائی راز ہیں۔ میں اس قابل نہیں ہوں کہ اُس کے رازوں سے پردہ اٹھا سکوں۔ میں صرف یہ کہہ سکتی ہوں کہ جسے ایمان کی دولت نصیب نہیں ہوتی۔ اُس کا صوفیانہ تجربہ جھوٹ ہے”۔

اس کے باوجود کہ صوفیانہ تجربہ قوتِ بیان سے ماورا ہے  یہ واردات جداگانہ نوعیت کے نظری انحراف کو سامنے لاتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ صوفیائے کرام کے روحانی تجربات کو فلسفیانہ رنگ میں رنگ دیا جائے۔ ان پر عقلی اصطلاحات کے ورق چڑھا دیے جائیں یا منطقی غلاف پہنا کر  پیش کیا جائے۔ اگر ایسا کیا جائے تو دو صورتیں سامنے آتی ہیں: رجائیت پسندی یا وحدیت۔

ہم خام شعور سے صوفیانہ شعور میں داخل ہوتے ہیں۔ ندی سے نکل کر بے کراں سمندر میں داخل ہوتے ہیں۔ تنگ و تاریک زندان سے وسیع و عریض وادی میں آجاتے ہیں۔ دنیائے انتشار اور جدال وقتال سے سکون اور ٹھہراؤ کی دنیا میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اس لیے ہم اس حالت کو مرہمی و مسّکن  حالت قرار دیتے ہیں۔ اس لیے یہ کیفیات منکرانہ جذبات کی بجائے اثباتی  احساس پیدا کرتی ہیں۔ ان کیفیات کے دوران لامحدود محدود کو اپنی لا متناہی آغوش میں بھر لیتا ہے اور سب دنیوی بہی کھاتے بند ہوجاتے ہیں۔ ہم اُس سچائی تک پہنچتے ہیں جو صفات کی کثافتوں سے بھی پاک ہے۔ ایسی حقیقت جو بے مثل ہے۔ جس کی کوئی ضد نہیں۔

اپنشدوں میں لکھا ہے:

”آتما کا خاصہ” نیست ۔۔ نیست” ہے”

علمِ نفسیات کی اصطلاح میں ہم اِسے ”بے فعلی” (non-function) سے تعبیر کریں گے۔ یہ ظاہری ”انکار” دراصل گہرے اور غیر شکستہ  باطنی ”اقرار” کی گونج ہے۔ آپ حقیقتِ مطلقہ کو کچھ بھی کہیں۔ کچھ کہنا محدود کرنا ہے۔ کچھ ”خاص” ہونا باقی ماندہ امکانات کی نفی ہے۔ اس لیے صوفیانہ الٰہیات میں ”اقرار براہِ انکار” (via negativa) کی روایت موجود رہی ہے۔ اُن کا انکار دراصل ایسا پختہ اقرار ہے جسے علم الادیان میں ایمان کہا گیا ہے۔

پہلی صدی عیسوی کے مسیحی مبلغ سینٹ جان پال کے الفاظ میں:

”میں جی رہا ہوں۔ لیکن نہیں! میں نہیں میرے اندر مقدس عیسی ٰ سانس لے رہے ہیں۔ جب تک میں اپنی ذات کی نفی نہیں کرپاؤں گا۔ خدا اِس خرابے میں داخل نہیں ہوگا۔ نیستی دراصل میری ہستی کی تعمیر ہے”۔

انفرادیت اور مطلقیت کے درمیان حائل اناپ خلیج کو پار کرنے کی سعی تصوف کا طُرۂ امتیاز ہے۔ صوفیانہ تجربے کے دوران ہم حقیقت ِ مطلقہ میں فنا ہو کر وحدت کا راز پاتے ہیں۔ یہ ایک قائم و دائم بطلانہ (heroic) صوفیانہ روایت ہے جو زمان و مکان اور عقائد و مذاہب کی شکست و ریخت سے محفوظ رہی ہے اور محفوظ رہے گی۔ ہندومت، نو فلا طونیت، اسلامی تصوف، مسیحی تصوف (سریت پسندی) ، وِٹمین کی شاعری سب ایک ہی حقیقت کا اعلان کر رہے ہیں۔ صوفیانہ روایت کا نہ کوئی جنم دن ہے اور  نہ کوئی جنم بھومی۔ یہ انسان کی مشترکہ روحانی متاع ہے۔ تصوف صدیوں سے انسان اور خدا کے اٹوٹ رشتوں کے احساس کو تازہ کر تا رہا ہے۔ صوفیا کی زبان  زمانی زبانوں  سے ممتاز اور ماورا محبت کی زبان ہے  جو کبھی متروک نہیں ہوپائے گی۔