سیلفی جو آن پڑی ہے

 (اظہروقاص خٹک)

سیلفی کو اکیسویں صدی کا سب سے جدید اندازِ منظر کشی کہا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں سیلفی کو جدت کے پیشِ نظر عام تصویر سے زیادہ افضل مقام حاصل ہوا ہے، جو کہ سیلفی کی مقبولیت کی ایک وجہ بھی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ سیلفی کی ابتدا ایک معجزاتی اور تجرباتی عمل کا نتیجہ ہے جو کہ غالباً لڑکیوں کے مرہونِ منت ہے۔

اب پھر بھی کوئی مجھ سے پوچھے کہ سیلفی کا بانی کون ہے؟ تو مجھے بالکل نہیں معلوم مگر شاید اسکی ابتدا ان نظریات کو پرکھنے سے ہوئی کہ آئینہ جھوٹ نہیں بولتا؟ یا آئینہ جھوٹ بولتا ہے؟ کیونکہ اتنی کاریگری آئینہ نہیں کر سکتا جو کہ اکثر اوقات ایک سیلفی میں پنہاں ہوتی ہے. اور نہ ہی میں آئینے سے اس درجہ سچ پرکھنے کی توقع رکھتا ہوں. کیونکہ کافی عرصہ تک ایسی سیلفیز بھی دیکھنے میں آئیں جو دیکھنے کے کابل نہ تھیں اور ہر قص و ناقص جہاں اپنی ریفلیکشن دیکھتا، کھچک– اس کی تصویر بنا لیتا۔

اس طرح کافی عرصہ یہ جمالیاتی حِس آئینوں، ونڈسکرینز اور پانی کی مرہونِ منت رہی اور آخر کار مستورات کے نازک پن کے پیش نظر سیلفی سٹینڈ متعارف کرا دئیے گئے کیونکہ یہ بھی ایک فن ہے کہ آپ اپنے سے دوگنا بری تصویر بنا لیں. اگر اس عمل کے بَینَ ا لسُّطُور پرکھاجائے تو سیلفی ایک ایسا عمل ہے جس میں کوئ معاون میسر نہ ہو اور بندہ بذات خود اسی محرومی کا ثبوت اپنے ہی ہاتھ سے کیمرے میں محفوظ کر لے۔

اگر اس میں ایک سے زیادہ لوگ اگر شریک بھی ہوں تووہ شہد کی مکھیوں کی طرح آپس میں چپکے دکھائی دیتے ہیں.اس طرح وہ سارا گروہ ایک ہی تصویر میں سما جاتا ہے اور بندہ واحد محض آنکھ، کان، ناک، یا ناک ک نکیل سے پہچان لیا جاتا ہے. غرض اپنے دستِ مبارک سے لی گئی اپنی ہی تصویر کو سیلفی کہتے ہیں اور اس محرومی کو چھپانے کے لئے لوگ اس طرح کے مصنوعی  انداز اپناتے ہیں جو کےکم سے کم شرافا کا پیشہ نہیں رہا اور نہ ہی پہلے پہل لوگوں کی زبانوں، آنکھوں، ہاتھوں اورلاتوں میں اتنی لچک تھی۔

سیلفی کی مقبولیت کی ایک دوسری وجہ وہ لوگ ہیں جو ہر پکنک پوائنٹ، مسجد و مندر کے اندر باہر تصویر بنانے کے خواہش مند ہوتے ہیں. پہلے پہل لوگ یہ شوق پکنک پوائنٹس پر موجود بندروں، مداری والے بکروں اور ریچھوں کے ساتھ تصویر بنا کر پورا کیا کرتے اور بدلے میں ان کو دس، بیس روپے دیا کرتے تھے. مگر اس ذاتی و زیادتی (چاہے وہ ناز کی ہو یا انداز کی) والی تصویر کو سیلفی کا نام دینے سے مداری والوں کا کام بھی ٹھپ ہو گیا ہے۔

اب یہ کام محض دوستوں یاروں میں مفت ہو رہا ہے بلکہ ایک ذات تو ایسی بھی ہے کہ بھولی صورت اور بھینگی شکلیں بنائے بِنا تصویر بناتی ہی نہیں. ہاتھوں، پاؤں اور ناک کو یوں موڑ کر دم سادہ لیتی ہے گویا ترکھان کی گھڑی مورتی ہو. یوں سیلفیز سے یہ انداز انتہائی مقبول ہوئے ہیں. جبکہ پہلے اور پرانے ادوار میں مداری والے بندروں اور ریچھوں کے کچھ انداز بہت مقبول تھے۔جیسے کہ بابُو سٹائل، بسنتی اور بِلُو وغیرہ اور یہی انداز انکی کمائی کا واحد ذریعہ بھی تھے۔ مگر اب سیلفی کے نام پر کھلے بال, بڑے بڑے ناخن، ترچھی ترچھی نگاہیں اور بَابُو سٹائل میں تصویریں بناتے لوگ ہر جگہ نظر آتے ہیں تو ظاہر ہے مداری والوں کو اب کون پوچھتا ہے۔