کچھ غیر سرکاری تنظیموں کے بارے میں

کچھ غیر سرکاری تنظیموں کے بارے میں

کچھ غیر سرکاری تنظیموں کے بارے میں

(سفیراللہ خان)

اگرچہ ’غیر سرکاری تنظیم‘ کی اصطلاح بہت وسیع ہے اور اس میں مذہبی جماعتیں، سیاسی جماعتیں اور کاروباری جماعتیں بھی شامل ہیں مثال کے طور پر شوگر ملز ایسوسی ایشن یا ڈبے کا دودھ بیچنے والی کمپنیوں کی ڈیر ی ایسوسی ایشن بھی تکنیکی طور پر غیر سرکاری تنظیمیں ہی کہلائیں گی۔ تاہم ہم اپنی آسانی کے لئے ایسی تنظیموں کو ’غیر سرکاری تنظیموں ‘ کے دائرے سے باہر نکال دیتے ہیں جو معاشرے کے پسماندہ طبقات کی بہتری کے لئے کام نہیں کرتیں یا رنگ، نسل، مذہب وغیرہ کی بنیاد پر لوگوں میں امتیاز کرتی ہیں( اگرچہ مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ یہ لکیر کھینچنا بھی کوئی آسان کام نہیں)۔ ذیل میں ہم خود کو ایسی تنظیموں تک محدود رکھیں گے جو یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ معاشرے کے محروم طبقات/گروہوں کی بہتری کے لئے کام کر تی ہیں اور اس مقصد کے لئے وہ سیاسی طاقت حاصل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتیں۔

غیر سرکاری تنظیموں میں ارتقاء کا عمل ہوا ہے ۔ میں ان کے اس ارتقا کو دیکھتے ہوئے ان تنظیموں کو تین قسموں میں تقسیم کرتا ہوں۔ غیر سرکاری تنظیموں کے ارتقا میں بھی وہی ہوا جو ڈارون کے نظریہ ارتقا کے ساتھ ہواکہ جدید یا ترقی یافتہ شکل سامنے آنے کے بعدبھی ان تنظیموں کی قدیم شکلیں ختم نہیں ہو گئیں۔ پاکستان میں ان تینوں قسم کی تنظیمیں پائی جاتی ہیں۔

۱۔ فلاحی تنظیمیں:

فلاحی تنظیمیں ایسی تنظیمیں ہیں جو معاشرے کے محروم لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرتی ہیں۔ یہ بھوکے کو کھانا کھلا نے کا انتظام کر دیں گی، بیماروں کے لئے دوا فراہم کردیں گی۔ اگر ان کے پاس وسائل زیادہ ہو ں تو باقاعدہ کوئی ہسپتال یا ڈسپنسری بنا دیں گی۔ پاکستان میں ایدھی فاؤنڈیشن اور شوکت خانم میموریل ٹرسٹ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ غیر سرکاری تنظیموں کی یہ قسم سب سے قدیم قسم ہے۔ اس طرح کی تنظیموں کے کام کرنے کے باوجود محروم لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ ہمارے ہاں بھی ایدھی فاؤنڈیشن جیسی تنظیم کے ملک گیر نیٹ ورک کے باوجود بے گھر بچوں، بے سہارا عورتوں اور بے سہارا بزرگوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آرہی۔ اسی طرح شوکت خانم کینسر ہسپتال کے ہوتے ہوئے بھی بے شمار مریض کیسنر کے علاج سے محروم رہ جاتے ہیں۔ سو کچھ ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ مسائل یوں حل نہیں ہورہے۔ اس سلسلے میں کچھ اور کرنا ہوگا۔

۲۔ ترقیاتی تنظیمیں:

چنانچہ ماہرین (یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ مغرب کے لوگ تھے)نے نیا حل یہ پیش کیا کہ بھوکے کو مچھلی پکڑ کر دینا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ بھوکے کو مچھلی پکڑنا سکھا دیں تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اس سوچ کے مقبول ہونے کی نتیجے میں لوگوں نے فلاحی تنظیمیں بنانے کی بجائے “ترقیاتی تنظیمیں” بنانا شروع کر دیں۔ ترقیاتی تنظیمیں سکول بناتی ہیں ، ٹیکنیکل ٹریننگ سنٹر بناتی ہیں، چھوٹے قرضے دیتی ہیں تاکہ لوگ اپنا کاروبار کر سکیں، ہنر سیکھ جائیں اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں۔

اس قسم کی تنظیموں کی بھی پاکستان میں بھرمار ہے ۔ ایک مثال کشف فاؤنڈیشن ہے جو غریب عورتوں کو چھوٹے قرضے فراہم کرتی ہے۔ اسی طرح اخوت نام کی ایک تنظیم بھی لوگوں کو ہنر سکھانے اور چھوٹے قرضے فراہم کرنے کا کام کر رہی ہے۔ غریبوں کے بچوں کو مفت یا سستی تعلیم فراہم کرنے کے لئے بھی بے تحاشا ادارے کام کررہے ہیں مگر اس کے باوجود پاکستان تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد کے حوالے سے دنیا کے ملکوں میں سر فہرست ہے۔ یعنی لوگوں کے مسائل پوری طرح حل کرنے میں یہ ماڈل بھی ناکام رہا۔

۳۔ حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں:

محققین اس مرتبہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ کام غیر سرکاری تنظیموں کے بس کا نہیں۔ غیر سرکاری تنظیموں کے پاس محدود وسائل ہوتے ہیں ۔ وہ صرف ایک حد تک کردار ادا کر سکتی ہیں مگر بنیادی طور پر لوگوں کی ترقی اور فلاح و بہبود حکومتوں کا کام ہے۔ اگر حکومتیں اپنا کام چھوڑ دیں تو غیر سرکاری تنظمیں ان مسائل سے نہیں نمٹ سکتیں۔

مزید یہ کہ لوگوں کو تعلیم دلانا، ہنر سکھانا، روزگار مہیا کرنا، سوشل سکیورٹی دینا، صحت کی سہولیات دینا حکومت کی بنیادی ذمہ داریاں ہیں۔ جب غیر سرکاری تنظیمیں یہ کام کرتی ہیں تو لوگ اپنے ایسے مسائل کے حل کے لئے غیر سرکاری تنظیموں کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں اور حکومت عوام سے ٹیکس وصول کرنے کے باوجود اپنی ان بنیادی ذمہ داریوں سے لا تعلق ہو جاتی ہے۔

خیر ماہرین نے یہ مشورہ دیا کہ دراصل غیر سرکاری تنظیموں کو حکومت کی ذمہ داریاں اپنے سر نہیں لینی چاہئے بلکہ حکومت کی گوشمالی کی ذمہ داری ادا کرنی چاہئے ۔ جو لوگ غربت کی وجہ سے اور اربابِ اختیار سے دوری کی وجہ سے حکمرانوں تک اپنے مسائل موثر انداز میں نہیں پہنچا سکتے ؛ غیر سرکاری تنظیموں کو چاہئے کہ ان کی آواز بن جائیں اور ان کے مسائل کو اجاگر کریں اور حکمرانوں پر ان کے مسائل حل کرنے کے لئے دباؤ ڈالیں۔

ماہرین کے اس مشورے کے نتیجے میں ایک اور طرح کی تنظیمیں وجود میں آئیں۔ ان تنظیموں کو اگر پریشر گروپ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ کیوں کہ یہ تنظیمیں خود کوئی کام نہیں کرتیں یعنی نہ تو یہ تنظیمیں بھوکے کو مچھلی فراہم کرتی ہیں اور نہ ہی اسے مچھلی پکڑنا سکھاتی ہیں۔ بلکہ یہ ہر وقت یہی شور مچاتی رہتی ہیں کہ حکومت بھوکے کو مچھلی پکڑنا سکھائے۔اس قسم کی تنظیموں کی ایک بہت عمدہ مثال پاکستان انسانی حقوق کمیشن ہے۔ یہ ادارہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھاتا ہے اور حکومت پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ لوگوں کے بنیادی حقوق پورے کرے۔

پاکستان کے لوگ اور غیر سرکاری تنظیمیں:

ہم ابھی تک پہلی دو اقسام کی تنظیموں کو اہم سمجھتے ہیں؛ چنانچہ ایدھی فاؤنڈیشن یا اس قسم کے فلاحی اداروں کو ہم لوگ کھل کر چندے دیتے ہیں۔ دوسری قسم کے اداروں کو بھی کچھ پڑھے لکھے یا سمجھدار لوگ چندہ دیتے ہیں لیکن تیسری قسم کی اداروں کے بارے میں ہر وقت یہی سوال اٹھایا جاتا ہے کہ انہوں نے کیا کیا ہے۔

(یاد رہے کہ سب سے زیادہ چندہ ہم لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے نہیں بلکہ جنت میں اپنا گھر بنانے کے لئے دیتے ہیں۔)

میرا ذاتی خیال ہے کہ ہمارے معاشرے کو تینوں قسم کی تنظیموں کی ضرورت ہے۔ معاشرے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو مچھلی پکڑنا نہیں سیکھ سکتے جیسے بوڑھے یا لاعلاج امراض /معذوری کا شکار لوگ جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں ۔ چنانچہ معاشرے کو ایدھی فاؤنڈیشن جیسے اداروں کی ضرورت بھی رہتی ہے۔ ہم ایسا نہیں کر سکتے کہ حکومت کے پیچھے پڑے رہیں کہ بزرگوں اور بیماروں کے لئے کوئی نظام بنائے اور جب تک حکومت ایسا کوئی نظام ترتیب دیتی ہے اور ادارے قائم کرتی ہے اُس وقت تک بیماروں، بوڑھوں اور بچوں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیں۔ تاہم ہمیں حکومت پر دباؤ ڈالنے کا عمل کسی طور پر بھی نہیں چھوڑنا چاہئے۔

پھر ہمارے مسائل حل کیوں نہیں ہوتے؟

ہمیں یہ بات کسی طور بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ اگر حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرے گی تو مسائل حل نہیں ہوں گے۔ حکومت کی پالیسیاں مسائل جنم دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر ہماری حکومت نے ستر کی دہائی سے مجاہدین (یا دہشت گرد) پالنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ ان کی وجہ سے ملک میں بد امنی میں مسلسل اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔ دھماکے اور قتل و غارت معمول کی بات ہو گئی ہے۔ جس کی وجہ سے معیشت تباہ ہو گئی ہے۔ ان کی وجہ سے ہمارے سارے پڑوسی ہم سے ناراض ہیں سوائے بحیرہ عرب کے۔ چنانچہ یتیم بچوں، بیواؤں، بے سہارا بزرگوں،اور معذور افراد کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں سرکاری سکول تباہ کر دئے گئے ہیں ۔ اگر حکومت ان دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں کرتی تو یہ مسائل بڑھتے ہی رہیں گے۔ غیر سرکاری تنظیمیں کتنے معذوروں کو مصنوعی اعضاء لگوا کر دیں گی؟ یو ایس ایڈ کتنے سکول دوبارہ تعمیر کر کے دے گی؟ ایدھی فاؤنڈیشن کتنے یتیموں کو رہنے کو جگہ فراہم کر پائے گی؟ اگر بجلی کی کمی کی وجہ سے صنعتیں بند ہوتی رہیں گی تو اخوت اور کشف فاؤنڈیشن جیسی تنظیمیں کتنے لوگوں کو ہنرسکھا کر اور قرضے دے کر روزگار فراہم کر پائیں گی۔

وہ تمام لوگ جو ملکی حالات پر کڑھتے رہتے ہیں مگر سیاست کو گندا کھیل سمجھتے ہیں اور اس سے دور رہنا چاہتے ہیں انہیں یہ بات سمجھنا ہو گی کہ سیاست سے دور رہ کر ملک کے حالات بہتر نہیں کئے جا سکتے۔ہمیں بہر حال سیاست میں حصہ لینا ہوگا۔ حکومتی پالیسیوں پر کڑی نظر رکھنا ہو گی اور جہاں گڑ بڑ ہوتی نظر آئے اُسے فوراً درست کرانا ہو گا۔ یہ کام غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے ذریعے کبھی نہیں ہو پائے گا۔ یہ کام سیاسی جماعتیں ہی کر یں گی۔ اگر سیاسی جماعتیں نہیں کریں گی تو پھر کوئی نہیں کر سکے گا۔ چنانچہ میرا نوجوانوں کو یہی مشورہ ہے کہ چاہے موجودہ سیاسی جماعتوں میں شامل ہو جائیں، چاہے کوئی نئی جماعت قائم کر لیں مگر سیاست سے دور نہ جائیں۔ سیاست میں شامل رہیں گے تو شاید کبھی حالات میں کچھ نہ کچھ بہتری لانے میں کامیاب ہوجائیں۔ سیاست سے دور رہ کر حالات میں معمولی سی بہتری بھی نہیں لا پائیں گے۔

About سفیراللہ خان 4 Articles
سفیراللہ خان نے انگریزی ادبیات میں ایم اے کر رکھا ہے۔ وہ اسلام آباد میں "تھیٹر والے" نامی ایک گروپ سے وابستہ ہیں اور پاکستان میں فنون بالخصوص تھیٹر کے فروغ کے لئے سرگرمی سے کام کر رہے ہیں۔ وہ پاکستان کو ہنستا بستا، پرامن اور خوشحال ملک دیکھنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لئے دامے، درمے، سخنے کام کرتے رہتے ہیں۔