ریاست پاکستان کے من بھاون فقرے

ایک روزن لکھاری
ذولفقار علی

ریاست پاکستان کے من بھاون فقرے

(ذوالفقار ذلفی)

ریاست پاکستان میں جو لوگ بستے ہیں وہ ریاستی جبر کو بھی کسی نہ کسی شکل میں محسوس ضرور کرتے ہونگے۔ جبر کے اس فلسفے کو کچھ سادہ سے فقروں کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جن کو ریاست اپنے تنخواہ داروں سے عام آدمی کے دماغ اور سماعتوں میں گُھسیڑتی رہی ہے۔ اگرچہ یہ فقرے بڑے سادہ ہیں مگر ان پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اس ریاست کی ترجیحات، سوچ اور پالیسی کس طرح کی ہے۔

1۔ پاکستانی افواج نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے دشمن کی توپیں خاموش کروا دیں۔

2۔ بھارت کو اقوام متحدہ میں منہ کی کھانی پڑی

3۔بھارت کی سازش ناکام ایک اور ” را” کا ایجنٹ گرفتار

4۔پاک فوج نے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیئے

5۔مجاہدین نے تین بھارتی فوجیوں کو جہنم واصل کر دیا

6۔ پاک فوج دشمن کے ہر حملے کا منہ توڑ جواب دے گی

7۔کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔

8۔ جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی

9۔پاکستانی فوج دُنیا کی نمبر ون فوج ہے

10۔ہم ایک زندہ قوم ہیں

11۔ پاکستانی شاہینوں نے بھارتیوں کو دھول چٹوا دی

12۔ امت مسلمہ پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے

13۔پاکستان اسلام کا قلعہ ہے

14۔ پاکستان کا دفاع نا قابل تسخیر ہے

15۔ چین پاکستان دوستی سمندر سے گہری، ہمالیہ سے اونچی اور شہد سے میٹھی ہے

16۔ حکومت ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹے گی۔

17۔ دہشت گردی میں شہید ہونے والے پاکستانیوں کا مقدمہ نا معلوم افراد کے خلاف درج کر لیا گیا

18۔عسکری قیادت پر لوگوں کا اعتبار ہے۔

19۔ شُکریہ راحیل شریف

20۔سارے سیاست دان کرپٹ اور نکمے ہیں

21۔زرداری نے پیپلز پارٹی کو جتنا نقصان پہنچایا ہے اتنا کسی نے نہیں پہنچایا

22۔سندھ کی حالت دیکھ کر رونا آتا ہے

23۔بلوچ دہشت گرد تنظیمیں مُلکی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں

24۔پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب کے ذریعے دشمن کی کمر توڑ دی

25۔ کالعدم تنظیموں کا صفایا کر دیا گیا

26۔ دشمن کا اُس کے مکمل خاتمے تک پیچھا کیا جائیگا

اس طرح کے روزمرہ کے فقرے ہم یقینا سنتے ہوں گے اگر ان فقروں کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں ایک چیز واضح طور پر نظر آتی ہے کہ کونسا ادارہ میڈیا پر سب سے زیادہ اجارہ داری رکھتا ہے اور کس طرح میڈیا کو اپنی تعریف و تکریم کیلئے استعمال کرتا ہے۔ ان فقروں کے پیچھے بہت سارے پیغامات ، احساسات اور جذبات چھپے ہیں جن کا تعلق ہماری ریاست کی ترجیحات سے ہے۔ جب تک یہ نعرے نہیں بدلتے ریاست نہیں بدلے گی۔جب تک ریاست نہیں بدلتی تب تک حالات نہیں بدلیں گے۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس مُلک میں جمہوری ادارے مضبوط ہو رہے ہیں، عام لوگوں کے مسائل کو اجاگر کیا جائیگا تو یہ اُن کی خام خیالی ہے کیونکہ یہ مُلک عام لوگوں کیلئے نہیں بنایا گیا تھا یہ اشرافیہ نے بنایا تھا اور اشرافیہ ہی اس کو اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے استعمال کر رہی ہے۔ اوپر بیان کیئے گئے روزمرہ کے نعرے اور فقرے اس دلیل کی تائید کرتے ہیں کہ یہ مُلک کن کا ہے اور ہم خواہ مخواہ اس میں امید لگائے زندگی کاٹے جا رہے ہیں۔ مگر عوام سیاسی عمل کے ذریعے ریاستی پالیسیوں اور ترجیحات کو اپنے حق میں استعمال کر سکتی ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ عام لوگ ریاست کی ترجیحات کو سمجھیں اور  اپنے بنیادی حقوق کیلئے پُرامن جدو جہد کریں۔

اس مقصد کے حصول کیلئےکچھ بُنیادی باتیں طے کرنی پڑیں گی مثلا ہمیں جمہوری عمل کو ہر حالت میں سپورٹ کرنا پڑیگا،  جنگی حکمت عملی سے جان چھڑانا پڑیگی،  اپنے ہمسائیوں سے بہتر تعلقات پر مبنی سوچ کو پروان چڑھانا پڑیگا، مذہبی شدت پسندی کو اپنے دماغ سے نکالنا پڑیگا اور پوری اُمت کی ٹھیکیداری لینے سے بہتر ہے پہلے اپنے مُلک کے حالات کو بہتر کرنے کی سوچ کو اپنانا پڑیگا۔

بطور عوام ہمیں اپنے بنیادی مسائل پر توجہ دینا ہو گی اور ان بنیادی مسائل کی بنا پر ووٹ کی طاقت کو استعمال کرنا ہو گا ، معاشرے میں برداشت، آزادی اظہار رائے اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینا و گا ورنہ ان نعروں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرے گا اور نہ ہی ان نعروں سے ہماری قسمت بدلے گی۔

اشرافیہ اپنا کھیل خوب کھیل رہی ہے اب عوام کو بھی ایک کھیل کھیلنا ہو گا جسمیں دلیل، عقل، حکمت عملی ، تدبر اور اٹکل سے کھیل کا پانسہ اپنے حق میں پلٹنا ہو گا۔ ورنہ احسان اللہ احسان جیسے ریاستی اثاثے کے احسانوں کے بوجھ تلے ہم اپنے بچوں ، عورتوں، بزرگوں کو رینگتا ہوا پائیں گے۔

About ذوالفقار زلفی 63 Articles
ذوالفقار علی نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہے۔ آج کل کچھ این جی اوز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایکو کنزرویشن پر چھوٹے چھوٹے خاکے لکھتےہیں اور ان کو کبھی کبھار عام لوگوں کے سامنے پرفارم بھی کرتے ہیں۔ اپنی ماں بولی میں شاعری بھی کرتے ہیں، مگر مشاعروں میں پڑھنے سے کتراتے ہیں۔ اس کے علاوہ دریا سے باتیں کرنا، فوک کہانیوں کو اکٹھا کرنا اور فوک دانش پہ مبنی تجربات کو اجاگر کرنا ان کے پسندیدہ کاموں میں سے ہے۔ ذمہ داریوں کے نام پہ اپنی آزادی کو کسی قیمت پر نہیں کھونا چاہتے۔