اردو بحیثیت سرکاری زبان

شعبۂ اردو جامعہ کراچی کے زیرِ اہتمام ایک روزہ قومی کانفرنس رپورٹ

اردو بحیثیت سرکاری زبان

اردو بحیثیت سرکاری زبان

(ڈاکٹر تہمینہ نور)

4 مئی 20177ء بروز جمعرات ، جامعہ کراچی کے شعبہ اردو نے ایک روزہ قومی کانفرنس کا انعقاد کیا جس کا موضو ع، اردو بحیثیت سرکاری زبان تھا۔ اس کانفرنس کی صدارت کے فرائض مشہور شاعر اور صدر نشین ادارہ فروغ قومی زبان (مقتدرہ قومی زبان) جناب افتخار عارف نے کی۔ اس کانفرنس کے مہمان خصوصی جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل خان شیخ الجامعہ جامعہ کراچی اور مہمان اعزازی جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری رئیس کلیہ سماجی علوم تھے۔ شعبۂ اردو کے استاد ڈاکٹر رؤف پاریکھ، اردوڈکشنری بورڈ کے مدیرِ اعلیٰ عقیل عباس جعفری، ماہرِ تعلیم جناب ہارون رشید، انجمن ترقی اردو، پاکستان کی معتمد محترمہ ڈاکٹر فاطمہ حسن صاحبہ، شعبۂ اردو کے استاد پروفیسرڈاکٹر شاداب احسانی کے علاوہ کے ۔اے ۔ ایس ۔ بی ۔ آئی ۔ٹی ۔ کے ڈائریکٹر اور سابق رجسٹرار جامعہ کراچی جناب پروفیسر رئیس علوی صاحب مقررین میں شامل تھے۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شعبۂ اردو جامعہ کراچی کے استاد جناب ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے کہا کہ اردو پچانوے فیصد پاکستانیوں کی زبان ہونے کے باوجود اب تک سرکاری زبان نہ بن سکی اور غیر فطری انداز میں انگریزی کا تسلط قائم کیا گیا ہے۔

1973 کے دستور کے مطابق 1988ء میں اردو کو دفتری اور سرکاری سطح پر رائج ہوجانا چاہیے تھا مگر اب تک اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت سے رائج نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا اردو کے رواج میں رکاوٹ لسانی و ثقافتی استحصال کی وہ سوچ ہے جسے نو آبادیاتی نظام نے جنم دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری اشرافیہ میں اب تک اس استحصالی فکرکی باقیات موجود ہیں جو اردو دشمنی کے نئے نئے حیلے تلاش کرتی رہتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے انتہائی مدلل گفتگو کرتے ہوئے اس امر کو بھی واضح کیا کہ پاکستان میں موجود تمام زبانیں پاکستانی زبانیں ہیں اور ان سب کی تحفیظ و ترویج ضروری و لازمی ہے۔ لیکن قومی امور میں ترقی کا تقاضا ہے کہ ہم اردوکے رواج و نفاذ میں تاخیر نہ کریں۔
مدیرِ اعلی اردو لغت بورڈ عقیل عباس جعفری نے پرزور انداز میں مطالبہ کیا کہ اردو کو جلد از جلد سرکاری اور دفتری زبان کے طور پر رائج کیا جائے۔ انھوں نے اپنے مقالے میں اردو زبان کی آئینی حیثیت پر روشنی ڈالی اور فرمایا کہ اردو کے حوالے سے پاکستان کے علمی اداروں نے وہ تمام ضروری تیاریاں کر لی ہیں جو سرکاری امور کی انجام دہی کے لیے درکار ہیں۔ محض ایک قوتِ نافذہ کی ضرورت ہے۔ انھوں نے یہ اطلاع بھی دی کہ اردو لغت بورڈ کی تیار کردہ ’’اردو لغت تاریخی اصول پر‘‘ کی تمام بائیس جلدیں از سر نو کمپوز کی جا چکی ہیں اور مئی کے آخر تک موبائیل پر پڑھنے کے لیے دستیاب ہو ں گی۔
معروف ماہر تعلیم پروفیسر ہارون رشید نے کہا کہ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم ملی جلی زبان کے استعمال سے گریز نہیں کرتے درحقیقت نہ ہم مکمل طور پر اردو سے واقف ہیں نہ زیادہ دیر تک انگریزی بول سکتے ہیں۔ محترمہ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہا کہ ’’اردو زبان کو متنازعہ بنا کر آدھا پاکستان گنوا دیا گیا اور آج بھی اردو زبان کی آئینی اور قانونی حیثیت کو متنازع بنانے کی کوشش جاری ہے۔ سب سے نازیبا امر یہ ہے کہ اردو کو پاکستانی زبانوں کا حریف بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔”
شعبہ اردو کے استاد اور سابق صدرِ شعبہ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ یہ سمجھنا بڑی تاریخی غلطی ہے کہ اردو اس خطے کی کسی بھی زبان کو کسی نوع کا نقصان پہنچا سکتی ہے بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ اردو نے ایک نمو پسند زبان کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے ارد گرد موجود زبانوں کی نشو و نما میں ہمیشہ معاونت کی ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ جن خطوں میں مقامی زبانوں اور بولیوں نے غیر ملکی زبانوں سے نجات حاصل کی وہاں ترقی کے امکانات روشن ہوگئے جس کی سب سے بڑی مثال انگلستان کی بولیوں کا لاطینی زبان سے نجات حاصل کرنا ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی قائدِ اعظم کے فرمان اور آئینِ پاکستان کی روح کے مطابق جلد از جلد سات سمندر پار کی زبان سے نجات حاصل کرکے ترقی کے راستوں پر پیش قدمی کرنی چاہیے۔ پروفیسر رئیس علوی صاحب نے فرمایا کہ آئینِ پاکستان اپنی شق نمبر 251 میں جہاں ارد و زبان کی قومی اور دفتری و سرکاری حیثیت کا تعین کرتا ہے وہاں اسی شق میں نمبر 3کے تحت دیگر پاکستانی زبانوں کے تحفط، فروغ اور ترویج کی ضمانت بھی فراہم کرتا ہے۔ ہمیں اردو زبان کی بطور سرکاری و دفتری زبان کے نفاذ کی جدوجہد میں اس امر کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
اس کے بعد جناب افتخار عارف نے اپنے مخصوص پر لطف انداز میں خطاب کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ جامعہ کراچی اور شعبہ اردو سے ان کا ہمیشہ ایک غیر معمولی ربط رہا اور انھیں بہت خوشی ہے کہ آج شعبہ اردو نے ایک بہت اہم موضوع پر کانفرنس کا انعقاد کیا۔ انھوں نے کہا کہ اردو زبان کی قومی و سرکاری حیثیت کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ لیکن اس رواج و نفاذ کے لیے مقتدر طبقوں کی خواہش ہمیشہ سے کمزور رہی ہے۔ جب بھی اس ضمن میں کوئی قابلِ ذکر پیش رفت ہوتی ہے کوئی نہ کوئی ایسا معاملہ کھڑا کر دیا جاتا ہے جس سے رواج و نفاذ کا عمل سست رفتاری کا شکار ہوجائے۔ یہ امر تو طے شدہ ہے کہ تدریسی عمل کا آغاز اگر مادری زبان سے ہو تو سب سے بہتر ہے لیکن اگر کسی بنا پر یہ ممکن نہ ہو تو کسی مقامی یا ما حول کی ترقی یافتہ زبان کا انتخاب ہی مؤ ثر ہوسکتا ہے نا کہ ایک غیر ملکی زبان کو نوخیز ذہنوں پر لاد دینا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اردو زبان میں مقابلوں کے امتحانات نہ ہونے کی وجہ سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک جانب ذہین اور تخلیقی صلاحیت رکھنے والے بے شمار نوجوان مسابقت میں پیچھے رہ جاتے ہیں بلکہ دن بدن ان امتحانات کا معیار بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کی بڑی تعداد اپنے معاشی و سماجی حالات کی بنا پر انگریزی زبان میں وہ مہارت حاصل نہیں کر پاتی جو ان امتحانات کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے ان امتحانات میں اس طبقے کے لوگ ہی کامیاب ہو پاتے ہیں جو انگریزی زبان میں مہارت حاصل کرنے کے لیے اضافی وسائل صرف کر سکتے ہیں۔ انھوں نے بڑی تعداد میں طلبہ و طالبات کی موجودگی کو دیکھتے ہوئے یہ مشورہ بھی دیا کہ علوم و فنون کے جدید تر رجحانات سے فیض اٹھانے کے لئے انگریزی سیکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں بلکہ بہت ضروری ہے لیکن ایک غیر ملکی زبان سیکھنا اور بات ہے اور کسی غیر ملکی زبان کو تعلیم و تدریس اور امور دفتری کی زبان بنا لینا بالکل اوربات ہوتی ہے۔
جناب افتخار عارف کے بعد رئیس کلیہ سماجی علوم پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری نے صدر نشین شعبۂ اردو پروفیسر ڈاکٹر تنظیم الفردوس کو ایچ ای سی کی قائم کردہ ’’ قومی کمیٹی برائے نفاذ اردو‘‘ کی چئیر پرسن مقرر ہونے پر مبارکباد پیش کی اور کہا کہ جامعہ کراچی میں شعبۂ اردو کا کردار ،اردو زبان کی ترویج کے حوالے سے ہمیشہ حوصلہ افزا رہا ہے۔ اور میں بطور رئیسِ کلیہ آئندہ بھی اپنے ہر ممکن تعاون کا یقین دلاتا ہوں۔
شیخ الجامعہ جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل خان نے اس نوعیت کی کانفرنس منعقد کرنے اور نفاذ اردو کے سلسلے میں شعبۂ اردو کی کوششوں کوقابلِ تحسین قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ جامعات میں پڑھنے والے طالب علموں کو اپنے ذوقِ مطالعہ کو نکھارنے کی ضرورت ہے۔
آخر میں صدر نشین شعبۂ اردو پروفیسر ڈاکٹر تنظیم الفردوس نے مہمانوں اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ اس کانفرنس میں جامعہ کراچی کے طلبأ و اساتذہ کے علاوہ کالجوں کے اساتذہ اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ شرکا نے نہ صرف ’’ اردو بحیثیت سرکاری زبان‘‘ کے موضوع پر کانفرنس کے انعقاد کو وقت کی ضرورت قرار دیا بلکہ خواہش ظاہر کی کہ اس طرز کی مفید اور معلوماتی نشستیں ہوتی رہنی چاہئیں۔