ادب اور بشریات

Saqlain Sarfraz
ثقلین سرفراز

ادب اور بشریات

از، ثقلین سرفراز 

ادب، سماج کا آئینہ ہوتا ہے۔ سماج انسانوں کے درمیان رشتوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ جہاں انسان ضروریاتِ زندگی پوری کرتے ہوں، اور باہم مل جل کر رہتے ہوں، سماج کہلائے گا۔ لہٰذا ادب و سماج لازم و ملزوم ہیں۔

ادب، بنیادی طور پر انسان کو زیرِ بحث لاتا ہے۔ ہر دور میں انسان کے مزاج و رویے مختلف رہے ہیں۔ انسانی مزاج، جینیاتی کے ساتھ ساتھ ماحول سے بھی برابر جڑا رہا۔ ہر دور میں جغرافیائی ماحول اور انسانی ماحول اپنی فطرت و ضرورت کی بنیاد پہ الگ الگ رہے۔

اگر ہم یہاں بشریاتی انسان کی بات کریں تو وہ ما فَوقُ الفطرت وادیوں میں کھویا رہا اور اوپر آسمان میں ہی آنکھیں گاڑے رکھیں۔

انسان نے (تخیلاتی طور پر) خود ساختہ ما وَرائی ہستیوں اور اوپر کی اشیاء سے ہی امیدیں لگائے رکھیں۔ اس سے ایک چیز جو ہومو-سَیپی-اَنز سے بشریاتی انسان، اور پھر جدید انسان تک قائم رہی وہ ہے ایک ما ورائی دنیا سے تعلق۔ اسی وجہ سے انسان (بالخصوص مذہبی انسان) آج بھی یوٹوپیائی دنیا میں حقیقی دنیا کی تلاش میں سَر گرداں ہے۔

بہ ہر حال، سائنس و جدید ٹیکنالوجی نے آ کر بیش تر مغالطے اور کئی ایک گتھیاں سلجھا دی ہیں۔

اگر ہم ادب کو بشریاتی انسان کے حوالے سے دیکھیں تو ایک بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ ابتدائی ادب نے کہانی پن سے جنم لیا۔

اُس وقت کی کہانی، اُس دور کے سماج کی پیداوار تھی اور وہ سماج، خیال کی دنیا میں ما ورائیت یا تجریدیت سے جڑا ہوا تھا۔ بَل کہ انھوں نے مادی اشیاء کی تعبیریں بھی ما وَراٸی ہستیوں یا (کسی نا کسی) اوپر سے نا گزیر کر رکھی تھیں۔

ایک بات واضح رہی ہے کہ ما ورائیت، انسانی ارتقاء کے ساتھ برابر قائم رہی۔ ادب کا آغاز چُوں کہ کہانی پن سے ہوا تھا اور کہانی پن میں افسانوی پن بھی اٹل بنیادوں پہ آغاز ہی میں شامل ہو گیا تھا، بعد اَز علم کو جب فلسفیانہ بنیادوں پر پرکھا جانے لگا تو ادب میں بھی حقیقت نگاری کو شامل کیا گیا، اور پھر با قاعدہ ادب میں حقیقت کو رواج دیا گیا۔

 آج بھی ادب تقریباً تخیل پہ بنیاد کرتا ہے اور غور کریں تو تخیل کا کسی نہ کسی سطح پہ ما وَرائیت سے تعلق برقرار رہتا نظر آتا ہے۔

پھر آپ تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو اس کے تانے بانے بشریاتی انسان و سماج سے واضح طور پر جڑتے نظر آتے ہیں، کیوں کہ ما ورائیت ابتداٸے انسان کی ہی پیداوار ہے اور برابر قائم رہی ہے۔

لہٰذا اسی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ادب کا بشریات سے گہرا تعلق ہے۔