اخلاقیات کی بنیاد کیا ہے؟

morality and religion rozan
morality and religion rozan

اخلاقیات کی بنیاد کیا ہے؟

از، عمران شاہد بھنڈر 

مذہبی احباب کی جانب سے اکثر یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ اگر خدا کا تصور مفقود ہو جائے تو تمام تر ”ملحدانہ اخلاقیات“ کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ اس بات کی یہ لوگ مختلف تاویلات بھی کرتے رہتے ہیں، جن تاویلات کا کہ ہم آگے جا کر جائزہ لیتے ہیں۔ لیکن اگر مذہب پرستوں کی اس بات کو مان لیا جائے تو پھر سب سے زیادہ لا قانونیت اور غیر اخلاقی اعمال الحادی یا سیکولر معاشروں میں ہی دکھائی دینے چاہییں۔

تاہم حقیقت اس کے یک سر بر عکس ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ الحادی معاشروں میں اخلاقیات کی بنیاد کسی متصورّہ ہستی کے تصور پر نہیں رکھی جاتی کہ جہاں یہی پتا نہ ہو کہ کوئی عمل اگر اچھا ہے تو کیوں ہے، اور اگر بُرا ہے تو کیوں ہے؟ 

مفروضاتی ہستی پر اخلاقیات کا سب سے بنیادی نَقص ہی یہ ہے کہ اس میں اخلاقی عمل کی کوئی بھی عقلی، منطقی بنیاد نہیں ہوتی۔ سب سے پہلے تو یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اخلاقیات اور اس کی مختلف اشکال سماجی ارتقاء کا نتیجہ ہیں۔ یہ کوئی ہمیشہ کے لیے تیار شدہ اور کہیں سے ودیعت کردہ احکامات کا پلندہ نہیں ہوتا کہ جس پر عمل کرنا ہر نسل پر فرض ہو۔

اخلاقیات کا بنیادی محرک، بہ قولِ عظیم فلسفی سپائینوزا، انسان کا سب سے بنیادی جذبہ اپنی ذات، اپنے قبیلے اور سماج میں عدمِ تحفظ کے احساس پر غالب آنا ہے جسے انسان اپنی عقل کے ذریعے ممکن بناتا آ رہا ہے۔ ذات کے تحفظ سے مراد کوئی ایک انسان نہیں، بَل کہ نوعِ انسانی ہے، جہاں ہر ایک کا مفاد ہر ایک سے جڑا ہو، جہاں نیکی، خیر، انصاف جیسی اقدار یونی وَرسل حیثیت رکھتی ہوں۔ یونی ورسل سے یہاں مراد یہ نہیں کہ ہر قدر کو تمام بنی نوعِ انسانی پر جبراََ مسلط کر دیا جائے، بَل کہ ہر قدر اپنے تخصیصی پسِ منظر میں مختلف ہو۔ مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ انصاف ایک یونی ورسل قدر ہے، لیکن ہر وہ واقعہ کہ جہاں انصاف درکار ہے وہ اس کی تخصیصی حیثیت میں ہو گا۔ 

ہم بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ہِیگل نے اپنی کتاب ”فینومینالوجی“ میں ”آقا اور غلام“ کے ما بین رشتے کا منطقی حل دریافت کیا تھا، جس کا کارل مارکس پر فیصلہ کُن اثر مرتب ہوا۔ تاہم مارکس کو محض عقل حل ہی درکار نہیں تھا، بَل کہ اسے عملی سطح پر یقینی بنانا بھی اس کے مقاصد میں شامل تھا، اور اس کے لیے مارکس نے انقلابی حل پیش کیا تھا۔ اس طرح ”استحصال“ سے پاک معاشرے کا تصور جو کہ جرمن عینیّت، فرانسیسی سوشلزم اور برطانوی معیشت کے مختلف مباحث کے لازمی نتیجے کے طور پر سامنے آیا تھا وہ بنیادی طور پر ایک ”اخلاقی“ تصور ہی تھا۔

دل چسپ نکتہ یہ ہے کہ استِحصال سے پاک معاشرے کے اس تصور کے بنیاد گزاروں میں سبھی عقلیت پسند شامل رہے ہیں۔ اس میں الحادی اور غیر الحادی مفکرین کی کوئی تخصیص نہیں ہے، البتہ عقلیّت اور غیر عقلیت (مذہب) کا فرق اس میں بہت واضِح ہے۔ اس مثالی معاشرے کی احتیاج عقلی مِنہاج کی داخلی پُکار تھی، نہ کہ کسی مُتصوّرہ دیوتا کے کسی مقصد کی تکمیل کی خواہش! لہذا نکتہ یہ ذہن میں رہے انسان کے سماجی، سیاسی اور فکری ارتقاء میں مبنی بر انصاف اور استحصال سے ما وراء معاشرے کا تصور از خود سماجی اور عقلی عمل کے طور پر ابھرا ہے۔ 

گزشتہ دنوں ایک دوست نے مجھے ایک پی ایچ ڈی مولوی کی ایک فیس بک پوسٹ بھیجی تھی، اور اس پر میری رائے طلب کی تھی۔ آگے بڑھنے سے پہلے اس پوسٹ کو دیکھ لیجیے تا کِہ پسِ منظر کی روشنی میں عقلی و منطقی نقطۂِ نظر کو سمجھنے میں آسانی رہے۔ ملاحظہ ہو:

”امریکہ میں جب ایک سیریئل ریپسٹ کو گرفتار کیا گیا اور اس سے پوچھا گیا کہ تم یہ کیوں کرتے ہو تو اس نے کہا کہ میں ملحد ہوں، خدا، رسول اور آخری کو نہیں مانتا۔ میرا نظریہ مجھے ”بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست کا سبق دیتا ہے اور جب میں نے یہ بات مان لی کہ یہ زندگی محض ایک بے معنی اندھے اتفاق کا نتیجہ ہے جس کے بعد مزید کچھ نہیں تو کسی کو ریپ کرنا اور نہ کرنا سب مساوی اعمال ہیں۔

”یہ الحادی اخلاقیات کا حقیقی نمونہ ہے، دنیا کے کسی ملحد کے پاس اس ریپسٹ کی بات کا کوئی معقول جواب نہیں ہے۔“ 

ریپسٹ کے اس بیان میں بنیادی کم زوری یہ ہے کہ اس ریپسٹ کو بتایا ہی یہ گیا تھا کہ جب ”خدا، رسول اور آخرت“ پر سے ”ایمان“ اٹھ جائے تو ریپ یا ہر طرح کا غیر اخلاقی عمل جائز ہو جاتا ہے۔ 

اس ریپسٹ کو اس ریپ تک لے جانے والے اصل لوگ وہی ہیں جو اخلاقیات کو سماجی ذمے داری کے بہ جائے خدا اور ہم نوا سے جوڑتے رہے۔

اب آخر میں جو پی ایچ ڈی مولوی نے کہا ہے، اگر اس کا اطلاق پی ایچ ڈی مولوی پر کر دیا جائے، یعنی مولوی کو بتا دیا جائے کہ خدا، رسول، آخرت سب جھوٹ ہیں تو کیا یہ جاننے کے بعد وہ مولوی بھی پہلا قدم یہی اٹھائیں گے کہ وہ ریپ کرنے چل پڑیں گے؟ 

ظاہر ہے اس کا جواب تو مولوی کو ہی دینا ہو گا، لیکن ہمارا کہنا یہ ہے کہ اخلاقیات کو خدا، رسول اور آخرت سے جوڑنا ہی ایک غیر اَخلاقی عمل ہے۔ اصل شے وہ احساسِ ذمے داری ہے، وہ بنیادی تربیّت ہے، وہ احساسِ فرض ہے جو ایک انسان کا دوسرے انسان کے حوالے سے بنتا ہے؛ وہ فلسفیانہ سوال ہے کہ جہاں ایک کے حقوق سب کے حقوق سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں، اور جہاں ایک کی آزادی سب کی آزادی سے منطقی تعلق رکھتی ہے۔

سیکولر ممالک میں یہ سب آدرش سکولوں سے ہی پڑھانے شروع کر دیے جاتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج تمام سیکولر ممالک بد امنی، لا قانونیت، ظلم، جبر اور دیگر بد اخلاقیوں کا شاخسانہ ہوتے۔

تاہم حقیقت اس کے بر عکس ہے، کیوں کہ جہاں یہ سب بد اخلاقیاں ہوں وہاں علمی، فکری، اخلاقی اقدار کبھی نہیں پنَپ سکتیں۔ سیکولر ممالک، جن کی اخلاقیات عقل کے تقاضے کے طور پر سامنے آئی ہیں، آج عُلوم کے ہر میدان میں وہی صفِ اوّل پر ہیں۔ اور کوئی بھی شعبۂِ حیات ہو، انھی ممالک کی وجہ سے اس کی عظمت برقرار ہے۔

عظیم فلسفی افلاطون نے اپنے مکالمے میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا کوئی شے صرف اس لیے اچھی ہے کہ وہ دیوتا کو پسند ہے، یا پھر اس لیے اچھی ہے کہ وہ شے بَہ ذاتِ خود اچھی ہے؟ 

اس پر اعلیٰ درجے کے مکالمے کے بعد یہی نتیجہ نکلا کہ اچھی شے بنیادی تصور ہے نہ کہ دیوتا کا اس شے کو پسند کرنا، اور اس کی بنیاد پر اپنی نام نہاد اخلاقیات کی بنیاد رکھنا۔

اچھا عمل وہی ہے جو سماجی وحدت کو برقرار رکھتا ہے، جو انسان کو انسان سے جوڑتا ہے، جس میں مَثبت اور منفی آزادی کو عقلی بنیادوں پر الگ کیا جاتا ہے، اور یہ سب کچھ خدا کے خوف یا جنت اور حُوروں کے لالچ کی بنیاد پر نہیں، بَل کہ خود انسانی اور اخلاقی اقدار کی عقلی تفہیم اور سماجی بقاء کے لیے عقل کے داخلی تقاضوں کی خاطر کیا جاتا ہے۔ 

آخر میں صرف یہ کہوں گا کہ جہاں تک خدا کے تصور سے اخلاقیات کی جانب ہانکنے کا سوال ہے تو ہمیں پتا ہونا چاہیے کہ جس اسلامی جمہوریہ میں ہم رہتے ہیں وہاں مساجد، مدرسے ریپسٹ کی آماج گاہ ہیں، جہاں دن میں پانچ بار بانگیں دی جاتی ہیں وہاں خواتین کو قبروں سے نکال کر ریپ کا جرم تک کیا جاتا ہو، اور کسی خدا کا تصور کسی مجرم کو روکنے میں ناکام رہتا ہے۔ جہاں حج کرنا برائی کی مصدقہ سند کہلاتا ہے، اور دفتروں میں مذہبی درندے رشوت لیتے ہی اٹھ کر نماز پڑھنے چل پڑتے ہیں، جہاں پانچ وقت کا نمازی اپنی ہی لڑکیوں کے حقوق کو غصب کرنے سے باز نہیں آتا۔ مختصر یہی کہ خدا کا ہونا اور نہ ہونا اخلاقی عمل کی بنیاد ہر گز نہیں ہے۔ پی ایچ ڈی مولوی کے لیے بھی ہمارا یہی مشورہ ہے کہ اخلاقیات میں انسان کی مرکزی حیثیت کو جگہ دیں، قطعِ نظر اس سے کہ خدا اور آخرت میں کیا حاصل ہونا ہے۔ ورنہ مولوی صاحب ایک متوقّع ریپسٹ کے سِوا کچھ بھی نہیں ہیں۔  

ان سوالات اور جوابات کو سمجھنے سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھیے کہ یہاں میں نے انسان کا ذکر کسی ایک انسان کو سامنے رکھ کر نہیں کیا ہے، بَل کہ انسان سے میری مراد نوعِ انسانی سے ہے۔

اس بات میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ انسان خوشی و رنج وغیرہ جیسی کیفیات اور خیر و شر، وغیرہ جیسی اقدار سے اپنے داخلی فطری رجحان کی وجہ سے آگاہ ہوتا ہے۔ خوشی و غم کیا ہیں یہ جاننے کے لیے انسان کو کسی ’حکم‘ کی ضرورت نہیں ہے۔

اسی طرح نیکی و بدی کیا ہیں یہ جاننے کے لیے بھی انسان کی اپنی کیفیات ہی کافی ہیں، وہ کیفیات جو نیکی اور بدی کا تعَیّن کرنے میں معاوِن ہیں۔

یہ سب ہم نے بہ حیثیتِ مجموعی ایک معاشرے میں رہتے ہوئے سیکھا ہے۔ آئیے مختصراََ ان چند بنیادی اَقدار و رجحانات کو ممَیّز اور ان کی تفہیم کو آسان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

سوال: ہمیں کیسے پتا چلتا ہے کہ خوشی و رنج کیا ہیں؟

جواب: چوں کہ میرا مقصد اخلاقیات کی، کسی بھی نظریے سے قبل، بنیادی حیثیت یا ماخذ کو سمجھنا ہے اس لیے میری توجہ کا مِحوَر بھی وہی رہیں گے۔ اگر کوئی انسان مجھے دھوکا دیتا ہے تو مجھے رنج ہوتا ہے۔ میرا رنج مجھے بتاتا ہے کہ اس انسان نے میرے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے۔ اور اگر میں کسی کے ساتھ بالکل ویسا ہی عمل کروں گا تو اس کو بھی رنج ہوگا۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ کوئی ایسا اصول بنا لیا جائے کہ دھوکے بازی سے نجات مل جائے۔ لہٰذا اپنے عمل سے سیکھتا ہوا انسان کسی اصول کی تشکیل کے لیے آمادہ ہوتا ہے کہ جس میں ایک دوسرے کو دھوکا دینے کے امکانات مفقُود ہو کر رہ جائیں۔

سوال: خیر و شر کیا ہے؟ 

جواب: یہ سوال بھی پہلے سوال کی توسیع ہے۔ اگر انسان کوئی ریڑھی لگا کر بیٹھا ہے اور کوئی دوسرا انسان اس کی ریڑھی کو توڑ پھوڑ دیتا ہے اور اس پر پڑی ہوئی چیزیں اٹھا کر چلا جاتا ہے، تو متأثرہ انسان کو جہاں دکھ یا غم لاحق ہوتا ہے تو وہاں اس انسان کا یہ عمل اس کو خیر کا عمل نہیں لگتا بَل کہ ایک ’شر انگیز“ عمل نظر آتا ہے، کیوں کہ اگر یہ عمل پھیل جائے تو معاشرہ انتہائی بد امنی کا شکار ہو جاتا ہے۔

واضح رہے کہ یہ داخلی رجحان ہے جس کا گہرا تعلق انسان کے محسوسات سے ہے؛ یعنی اس کو انسان کسی بھی ’ضابطے‘ کے بہ غَیر محسوس کرتا ہے اور اس کا تدارک چاہتا ہے تا کہ مزید شر سے بچ سکے۔ 

یہی اعمال ہماری اخلاقیات کی بنیاد بنتے ہیں، اور انھی کی بنیاد پر ہم اپنے لیے ایک اجتماعی نصبُ العین کا تعیُّن کرتے ہیں اور اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہی انسان کی ساری تاریخ ہے کہ اس نے ہمیشہ خود کے ساتھ ہونے والے واقعات سے سیکھا، اور آہستہ آہستہ ہر اس عمل کو فروغ دیتا گیا جو اس کی خوشیوں میں اضافہ کر سکے اور اس کے غموں میں کمی لا سکے۔ انسانی تاریخ میں آج تک جتنے بھی اخلاقی اصول و ضوابط بنے ہیں ان کی بنیاد انسان کا اپنا عمل ہے۔ فلسفیوں کی عظمت جو انھیں کُل کائنات کے تمام مُصلحِین سے بلند مقام پر فائز کرتی ہے یہ ہے کہ انھوں نے ان سماجی برائیوں اور غیر ہم واریوں کو ختم کرنے کی کوشش میں صرف انسانی عقل پر بھروسا کیا۔ انھوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ہمارے غم میں اضافہ کیسے ہوتا ہے اور اس میں کمی کیسے لانی ہے، یہی وہ اجتماعی خیر و نیکی ہے، جس کا منبع و ماخذ خود انسانی عقل ہے۔

مصلحین سے یہ گھناؤنی غلطی ہوئی کہ انھوں نے انسان کی اصلاح ’خوف‘ سے کرنے کی کوشش کی، تقدّس کو اذہان میں راسِخ کیا، جس کا خَمیازہ انسان آج تک بھگت رہا ہے۔ انسان نے خود اپنے لیے پہلے ’خوف‘ کو پیدا کیا، اور بعد ازاں اس’خوف‘ کو اپنے اعمال کی تصحیح کا ذریعہ بنا لیا۔ 

عقلیت پسند معاشرے اس حقیقت کا شعور حاصل کرنے میں کام یاب ہوئے کہ انسان کے لیے خیر و شر انسان کے اپنے اعمال ہیں۔ اگر وہ اجتماعی فلاح میں معاوِن ہیں تو خوشی و مسرت کا باعث ہیں؛ اگر وہ اعمال انسانوں کی فلاح میں مانِع ہیں تو شر کا باعث ہیں۔ جب کہ خوشی و رنج اور خیر و شر کی کیفیات و احساسات خود انسان کے اپنے محسوسات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فلسفے کی تاریخ کا ہر وہ فلسفی جس نے اخلاقیات پر اَن مِٹ نُقُوش چھوڑے، اس نے اخلاقی عمل کے لیے ’مسرت‘ کو بنیاد بنایا، اور اخلاقیات کو ’آفاقی‘ گَردانا۔