شعبہ تعلیم کی مکمل پرائیویٹائزیشن

شعبہ تعلیم کی مکمل پرائیویٹائزیشن

صفدر سحر

شعبہ تعلیم کی مکمل پرائیویٹائزیشن سے مراد ہے کہ ریاست کا نہ تو سلیبس میں عمل دخل ہو، نہ عمارتوں پر قبضہ ، نہ تعلیمی بیوروکریسی کا تعلیمی اداروں پر اجارہ ہو۔ ریاست ہر شہری کی تعلیم کی ذمہ دار ہے اور اس کا عہد دستور پاکستان میں بھی کیا گیا ہے مگر اس سے قطعا یہ مراد نہیں کہ تعلیمی شعبے پر ہی ریاست کا مکمل اجارہ قائم ہو جائے۔ کیونکہ تعلیمی شعبے کی مکمل نجکاری ایک وسیع موضوع ہے اس لیے کوشش یہ کی جائے گی کہ مضامین کے ایک سلسلے کی شکل میں ایک ایک تحتی موضوع کو علیحدہ سے موضوع بحث بنایا جائے۔ پہلا سوال اٹھتا ہے کہ سرکاری جبری لازمی تعلیم کی صورت میں غریب طبقات کو ’جیسی بھی‘ تعلیم حاصل کرنے کی حق تو مل رہا ہے۔ تعلیم اگر پرائیویٹائز ہوتی ہے تو بھاری فیسیں ادا کرپانا اس طبقے کے بس میں نہ ہوگا۔ اس سوال کا بہترین جواب ہے ’وائوچر سکیم‘۔ کیا یہ ضروری ہے کہ ریاست پورے شعبے کو ہی خود فنانس کرے۔ ریاست کے ذمے سکول چلانا یا بینک چلانا نہیں بلکہ ریاست کا اولین فرض فرد کے مسائل کو سامنے رکھ کر پالیسی سازی کرنا ہے۔

سکول وائوچر یا ایجوکیشن وائوچر ایک ایسی سکیم ہے جس کا منشا تعلیم کی بجائے طالب علم کو فنانس کرنا ہے۔ اس سکیم کے تحت ریاست ایک سرٹیفکیٹ کی شکل میں ایک وائوچر جاری کرتی ہے۔ طالب علم یا اس کے والدین کو یہ سکول وائوچر یہ حق دیتا ہے کہ بچہ جہاں اور جس سکول سے بھی تعلیم حاصل کرنا چاہے، تعلیم حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان کے سماجی پس منظر، جس میں امیر و غریب کی خلیج کافی گہری ہے، کو سامنے رکھیں تو سادہ صورت حال یوں بنتی ہے کہ کسی غریب کا بیٹا بھی ان سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کا حق پالیتا ہے جہاں ملک کے وزیراعظم کا بیٹا زیور تعلیم سے آراستہ ہوتا ہے۔ اس سکول وائوچر پر وہ تمام اخراجات درج کر دیے جاتے ہیں جو ایک طالب علم کے تعلیمی سالوں پر اٹھتے ہیں۔ جب یہ بچہ اپنی مرضی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کمانے کے قابل بنتا ہے تو اپنی تعلیم پر اٹھنے والا خرچ آسان اقساط کے ذریعے ریاست کو واپس لوٹا دیتا ہے۔ اس سکیم کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ غریب گھروں کے بچوں کو بھی سکول کے انتخاب میں آزادی میسر آجاتی ہے۔

سکول وائوچر سکیمز کی مختلف شکلیں کئی دہائیوں سے دنیا میں رائج ہیں۔ امریکہ میں 1869سے ایسی مثالیں موجود ہیں۔ 1917میں ہالینڈ میں بھی یہ نظام متعارف ہوا۔ جدید شکل میں سکول وائوچر سکیم کے بانی نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات ملٹن فریڈمین ہیں۔ فریڈمین کا موقف یہ ہے کہ کسی بھی صنعت میں آزاد مقابلہ ترقی کا باعث ہوتا ہے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ سکولوں کے درمیان اس قسم کا مقابلہ معیار تعلیم کو بہتر بنائے گا۔ اس تصور کو مزید مقبولیت 1980کی ٹی وی نشریات کے ذریعے ملی جس میں ملٹن فریڈمین کی کتابfree to choose کو لیکچرز کی شکل میں نشر کیا گیا تھا۔ اس کتاب کا باب نمبر چھ اسی وائوچر سکیم کے بارے میں تھا۔

سکول وائچر سکیم کے حامیان کا کہنا ہے کہ اس سے فری مارکیٹ مقابلے کو تقویت ملے گی جس سے نہ صرف نجی بلکہ سرکاری سکولوں کو بھی مقابلے میں بنے رہنے کے لیے محنت کرنا پڑے گی کیونکہ طالب علموں کے پاس سکول وائوچر کی شکل میں حق انتخاب کی آزادی ہوگی اور وہ بہتر سکول کا انتخاب کریں گے۔ سکولوں کو اپنی تعداد قائم رکھنے کے لیے بہترین اساتذہ اور بہترین تعلیمی کورسز کا اہتمام کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اس میں گاہک کو مکمل اختیار حاصل ہو گا اس لیں دوکانوں(سکولز) کو اپنی پراڈکٹ بہتر سے بہتر انداز میں پیش کرنا ہوگی۔

اس سکیم کے حامیان کو واقعاتی شواہد کی تصدیق بھی حاصل ہے۔ مین ہٹن انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریسرچ(2003)کے سروے کے مطابق جن نجی سکولوں کے لیے سکول وائوچرز کی منظور دی گئی اس کا اثر قریبی سرکاری سکولوں پر بھی پڑا اور ان کی کارکردگی بہتر ہوئی جبکہ جن سکولوں کے قرب و جوار ایسی سکیم نہیں تھا وہاں زوال کے آثار واضح تھے۔اس کے علاوہ بھی متعدد ایسے جائزے اور موجود ہیں جو سکول وائوچرز کی تائید کرتے ہیں۔ ایپل کے بانی سٹیو جابز کہتے ہیں:

’’مسئلہ بیوروکریسی ہے۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو یہ مانتے ہیں کہ جو بہترین کام ہم کر سکتے ہیں وہ یہ کہ واوچر سکیمیں شروع کی جائیں‘‘

آسٹرین سکول آف اکنامکس کے اہم ترین دانشور اور لبرل مفکرین اس سکیم کے حامی ہیں