دیوار برلن اور تاریخی حقائق

aik rozan writer
شاداب مرتضٰی ، صاحبِ مضمون

دیوار برلن اور تاریخی حقائق

 شاداب مرتضی

دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر یالٹا کانفرنس کے بعد 1949 سے لے کر جرمنی میں 12 سال بعد دیوارِ برلن کی تعمیر (اگست 1961) تک مشرقی و مغربی جرمنی کے لوگ بغیر کسی رکاوٹ کے مغربی و مشرقی جرمنی میں آتے جاتے تھے۔ محققین کے مطابق جرمنی کی تقسیم امریکہ کا اصرار تھا سوویت یونین کی خواہش نہیں۔

دیوارِ برلن کی تعمیر سے مغربی جرمنی کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ لگاتے ہوئے اخبار نیویارک ٹائمز نے 1963 میں لکھا۔۔۔”دیوار کی تعمیر سے مغربی جرمنی کو 60 ہزار باہنر مزدوروں کا نقصان ہوا جو مشرقی برلن میں اپنے گھروں سے روزآنہ پیدل چل کر مغربی برلن میں اپنے کام کی جگہوں پر جاتے تھے۔۔۔”! یہ بات دو لحاظ سے نوٹ کرنے کی ہے۔ ایک تو یہ کہ دیوارِ برلن کی تعمیر سے قبل مشرقی (کمیونسٹ) جرمنی کے لوگ مغربی (سرمایہ دارانہ) جرمنی روز آتے جاتے تھے۔ دوسرا یہ کہ اگر سرمایہ دارانہ اکنامی سوشلزم سے زیادہ کامیاب اور ترقی یافتہ تھی تو پھر مغربی جرمنی کو مشرقی جرمنی کے باہنر مزدوروں کی ضرورت نہیں پڑنی چاہیے تھی!

اسی طرح لوگ خریداری کرنے، گھومنے پھرنے، تعلیم و علاج کے لیے بھی روزآنہ ہزاروں کی تعداد میں جرمنی کے مشرقی اور مغربی حصوں میں بنا کسی رکاوٹ کے آیا جایا کرتے تھے۔

دیوار برلں کی تعمیر کے بعد بھی مشرقی جرمنی کے لوگوں کے لیے مغربی جرمنی جانے آنے پر پابندی نہیں تھی۔ اعداد و شمار کے مطابق دیوارِ برلن کے انہدام سے پہلے مشرقی جرمنی سے 1984 میں 40 ہزار لوگ مغربی جرمنی منتقل ہوئے۔ 1985 میں قریبا 20 ہزار افراد مغربی جرمنی سے واپس مشرقی جرمنی میں آبسے۔ ان کا کہنا تھا کہ مغربی جرمنی کے ترقی یافتہ نظام کے بارے میں ان کے تصورات غلط تھے۔ مغربی جرمنی کی حکومت کے مطابق دس سال میں مشرقی جرمنی سے آکر مغربی جرمنی میں بسنے والے لوگوں میں سے قریبا 15 ہزار لوگ واپس مغربی جرمنی چلے گئے اور وہیں سکونت اختیار کی۔

یہ حقائق واضح کردیتے ہیں کہ دیوارِ برلن کے حوالے سے مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ حکومت کے بارے میں یہ تاثر بھی بالکل غلط ہے کہ اس نے مشرقی جرمنی میں جرمن لوگوں کو محصور کر رکھا تھا اور ان کے آزادنہ نقل و حمل پر کمیونسٹ حکومت نے کڑی پابندی لگا رکھی تھی جیسا کہ دیوارِ برلن کو پھلانگ کر مشرقی جرمنی سے مغربی جرمنی “فرار” ہونے والوں کی تصویروں سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس حوالے سے مشرقی جرمنی کے ایک نوجوان بارڈر گارڈ کونراڈ شومین کی تصویر بہت استعمال کی جاتی ہے جس میں اسے خاردار تار پھلانگ کر مشرقی جرمنی سے مغربی جرمنی بھاگتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ مغربی میڈیا نے اس تصویر کو “آزادی کی چھلانگ” کا عنوان دے کر دنیا بھر میں اس کی تشہیر کی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ مغربی جرمنی کے سرمایہ دارانہ نظام میں اپنی ترقی اور خوشحالی کے جو خواب اس نے دیکھے تھے ان کا انجام مایوسی کے عالم میں درخت سے پھانسی کا پھندا لگا کر اس کی خودکشی پر ہوا۔ رونالڈ ریگن کے ساتھ اس کی تصویریں امیر بننے کا اس کا خواب پورا نہ کر سکیں۔

یہ حقائق، اس کے علاوہ، سرد جنگ کے زمانے میں کمیونزم، سوویت یونین اور جوزف اسٹالن کو بدنام کرنے کے لیے اختراع کی گئی جھوٹی اور منافقانہ سرمایہ دارانہ لبرل تاریخ نویسی کو بھی بے نقاب کرتے ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ یہ حقائق اس پروپیگنڈہ کی بھی نفی کرتے ہیں کہ دیوارِ برلن کی تعمیر کا مقصد جرمنی کے لوگوں کو تقسیم کرنا تھا، مشرقی جرمنی کے لوگوں کی آزادیاں سلب کر کے ان کے اوپر جبر و تشدد کے زریعے سوویت یونین کی عالمی پالیسی کے تحت کمیونزم کی آمریت کا نظام مسلط کرنا تھا۔ دیوارِ برلن کی تعمیر کے بعد بھی مشرقی جرمنی کے لوگوں کی مغربی جرمنی جانے اور مغربی جرمنی سے آنے پر پابندی نہیں تھی۔

وڈرو ولسن انسٹیٹیوٹ فار اسکالرز، جو امریکی سرد جنگ کا قدامت پرست نظریاتی اڈہ تھا، اپنے کولڈ وار انٹرنیشنل ہسٹری پروجیکٹ ورکنگ پیپر (نمبر 58) میں رقمطراز ہے کہ…”…برلن میں موجود کھلی سرحد نے مشرقی جرمنی (کمیونسٹ جرمنی) کو وسیع پیمانے کی جاسوسی (espoinage) اور بغاوت (subversion) کے لیے کھلا چھوڑ دیا، اور، جیسا کے دونوں ضمیموں کی دستاویزیں دکھاتی ہیں، اس کی (سرحد کی) بندش نے کمیونسٹ ریاست کو زیادہ تحفظ دیا۔۔۔”

یہاں ایک دلچسپ بات نوٹ کرنے والی ہے کہ اخبار USA Today کی 1991 کی ایک رپورٹ کے مطابق “… جب دیوارِ برلن منہدم ہوئی تو مشرقی جرمنی کے لوگوں نے ایسی آزاد زندگی کا تصور کیا جس میں کنزیومر مصنوعات کی فراوانی ہو گی اور مشکلات ختم ہو جائیں گی۔ دس سال بعد 51 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ وہ کمیونزم کے ساتھ زیادہ خوش تھے۔” اخبار واشنگٹن پوسٹ کی 2009 کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ:”برلن میں موجود مغربی (مغربی جرمنی والے) اپنے مشرقی ہم نفسوں کے اس رجحان سے تنگ آگئے ہیں کہ وہ کمیونسٹ دور کو بہت یاد کرتے ہیں۔۔۔”.

دوسری عالمی جنگ کے بعد سے امریکی فوج اور CIA کی عالمی سازشوں پر تحقیقی کتاب لکھنے والے، امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے سابق اہلکار، ولیم بلم کے مطابق مشرقی جرمنی میں ہٹلر کے نازی جرمن فاشزم کی باقیات کا خاتمہ کر دیا گیا تھا لیکن مغربی جرمنی میں عالمی جنگ کے اختتام کے دس سال بعد بھی انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے اعلی ترین حکومتی عہدوں پر فائز متعدد افراد سابق نازی جرمن تھے۔

اپنی تحقیق کی بنیاد پر ان کا ماننا یہ بھی ہے کہ مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ حکومت کو ناکام بنانے کے لیے امریکہ نے اور اس کے یورپی حلیفوں نے ہر طرح کی سازشوں اور بغاوتوں کا سہارا لیا اور اس مقصد سے مشرقی اور مغربی جرمنی دونوں میں ایسے گروہ تیار کیے جو مشرقی جرمنی کی حکومت کے خلاف عوام کو اکسانے کے لیے حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے سے لے کر دہشت گردی، توڑ ہھوڑ، آتش زنی کی وارداتیں کر کے صنعت، ٹرانسپورٹ اور زرعی شعبوں کے انفراستڑکچر اور مشینری کو نقصان پہنچایا کرتے تھے۔

ولیم بلم کے مطابق مشرقی جرمنی امریکہ اور یورپی سرمایہ دارانہ ریاستوں کی ریشہ دوانیوں سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے دیوارِ برلن تعمیر کرنے پر مجبور ہوا۔ تاہم، لبرل سرمایہ دارانہ تاریخ نویسی اور زرائع ابلاغ دیوارِ برلن کی تعمیر کو کمیونزم کا جرم اور اس کے انہدام کو سرمایہ دارانہ نظام کی فتح سے تعبیر کر کے لوگوں کے ذہنوں میں مشرقی جرمنی، کمیونزم اور سوویت یونین کے عظیم الشان انسان دوست اور ترقی پسند کردار کے شعور کو جھوٹی تاریخ اختراع کر کے مسخ کرتے ہیں اور سرمایہ دارانہ طاقتوں کے جرائم پر انسان دوستی، خوشحالی، ترقی اور انسانی آزادی کی جھوٹی ملمع کاری کرتے ہیں۔

اسی قسم کی منفی اور منافقانہ کوشش سرمایہ دارانہ زرائع ابلاغ میں آج کل شمالی کوریا کو بدنام کرنے کے لیے زور و شور سے جاری ہے۔