مسلمان اور سینما 

cinema and muslim countries مسلمان اور سینما
Image Credits: The Middle East Eye

مسلمان اور سینما 

از، ذوالفقار علی زلفی

مسلمان اور سِینَما کا رشتہ ہمیشہ سے متنازِع رہا ہےـ مسلم سماج کا غالب ترین حصہ ہمیشہ سے سِینما کو غیر شرعی اور حرام سمجھتا رہا ہے؛ گو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تنازِع کی شدت میں کمی آئی ہےـ مسلم سماج اب سِینَما کے حوالے سے اس شدید ردِ عمل کا مظاہرہ نہیں کرتا جو ماضی میں اس کا خاصا رہا ہےـ

مسلم عُلَماء کی اکثریت تصویر اور موسیقی کو خلافِ اسلام تصور کرتی رہی ہےـ غالباً یہ نقطۂِ نظر آج بھی برقرار ہےـ عرب عالِموں، بالخصوص مصری عُلَماء کا ایک حلقہ تصویر اور ویڈیو کو جائز قرار دیتا ہے، تاہم عرب عُلَماء کا بھی وسیع اتفاق ہے کہ یہ حرام ہےـ برّ صغیر کے علماء، بالخصوص دارُ العُلوم دیوبند سے اتفاق رکھنے والے واضح طور پر تصویر کو نا جائز قرار دیتے ہیں۔

پاکستان میں ماضیِ قریب تک وقتاً فوقتاً سینما اور ٹی وی کے خلاف پَیمفلٹ اور کِتابَچے تقسیم کیے جاتے رہے ہیںـ جمعہ کے وعظ میں بھی فلم بِینی کو فِسق و فُجُور کے نام سے یاد کیا جاتا رہا ہےـ عام مشاہدہ یہی ہے کہ پاکستان کے عام مسلمان فکری طور پر آج بھی فلم بِینی کو گُناہ سمجھتے ہیں۔

ایران میں سینما کا معاملہ نسبتاً مختلف رہا ہےـ پہلوی شہنشاہیت کے خلاف انقلابی تحریک کے دوران یعنی سنہ 70 کی دھائی کے اواخر میں تہران میں بعض سینما گھر اور تِھیئَٹر نذرِ آتش کیے گئے تھےـ اس عمل کو مغربی دانش وروں نے اسلام اور سینما کے درمیان تضاد سے منسلک کیا تھاـ حالاں کہ ایسا قطعاً نہیں تھاـ

پہلوی انتظامیہ نے ایک مخصوص سیاسی و ثقافتی پالیسی کے تحت برہنگی،  شراب نوشی اور سیکس کو نمایاں رکھنے والی فلموں کی حوصلہ افزائی کی تھی جو ایرانی سماج کے ثقافتی اقدار و روایات سے متضاد تھاـ اس تضاد کی وجہ سے انقلابیوں نے جن کی اکثریت سیکولر تھی نے ایسے سینما گھروں پر حملہ کر دیا جہاں با قاعدگی سے اس قسم کی فلموں کی نمائش ہوتی تھیـ ان واقعات کا اسلام یا مسلم عُلَماء سے کوئی تعلق نہیں تھاـ

ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد شیعہ مسلمانوں کے اہم ترین مذہبی پیشوا آیت اللہ خمینی نے ایران میں فلم سازی کی بھر پُور حوصلہ افزائی کیـ اسلامی حکومت نے فلم سازی کے شعبے کو سرکاری خزانے سے سہارا بھی دیاـ نتیجہ یہ ہے آج اسلامی ممالک میں ایرانی سِینما قابلِ مثال اور ایران میں فلم سازی کو ایک قابلِ احترام شعبہ سمجھا جاتا ہے۔

پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے مذہبی طبقات ایران کے بر عکس فلم بِینی کے مخالف رہے ہیں۔ بہ ہر حال، انھوں نے کبھی بھی سِینما گھروں یا تِھیئٹروں پر منظم حملہ نہیں کیاـ اِکّا دُکّا واقِعات شاید ہوئے ہوںـ تاہم برّ صغیر کے کسی با رُسوخ عالِم نے کبھی بھی فلم سازی کی حوصلہ افزائی نہیں کی ہےـ

مسلم سماج اور سِینما کا تعلق متضاد بھی ہے: یعنی جہاں علَمائے دین تصویر کو نا جائز تصور کرتے ہیں وہاں وہ خود بڑے اہتمام کے ساتھ ویڈیوز بھی بنواتے ہیں۔ یہی حال سماج کے دیگر اراکین کا بھی ہےـ وہ فکری لحاظ سے لاکھ مخالفت کریں لیکن عملی طور پر وہ اس نا جائز عمل میں شامل بھی ہوتے ہیں۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے سِینما ایک ایسا شعبہ بن چکا ہے جسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتاـ

اسی طرح ترکی میں سِینما کا معاملہ مذہبی سے زیادہ سماجی لحاظ سے متنازِع رہا ہےـ جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال پاشا ایک سیکولر حکم ران رہے ہیںـ انھوں نے مذہبی طبقے کی مخالفت کو نظر انداز کر کے سینما کو ترقی دینے کی پالیسی اپنائی۔

تاہم ترک سماج اپنے فرسُودہ اقدار و روایات کے باعث فلموں میں عورت کی موجودگی سے خائف رہاـ نتیجہ یہ ہے کہ کم از کم دو دھائیوں تک ترک فلمیں عورت گریز رہیں۔ رفتہ رفتہ ترک سماج میں تبدیلیاں آتی گئیں اور ترک عورت کو سِینما میں جگہ ملنی شروع ہوئی۔

نظریاتی سطح پر البتہ یہ سوال اب بھی موجود ہے کہ کیا ترک فلمیں عورت کو مساوی نمائندگی دیتی ہیں؟ یہ سوال چُوں کہ فیمی نِسٹ ڈسکورس کا حصہ ہے، اس لیے فی الحال اس کو یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔

ترکی جیسا معاملہ بلوچ سماج کے ساتھ بھی ہواـ 70 کی دھائی میں جب پہلی بلوچی فلم ھمل ماہ گنج کی نمائش کا اعلان ہوا تو بلوچ سماج میں ہنگامہ کھڑا ہو گیاـ سیکولر قوم پرستوں نے انجمن تحفظ ثقافتِ بلوچاں کے نام سے تنظیم بنا کر شد و مد کے ساتھ فلم مخالف تحریک چلائی۔

سیکولر بلوچ قوم پرست بھی ترکوں کی طرح فلم میں بلوچ عورت کو نمائندگی دینے کے لیے تیار نہیں تھےـ وہ اسے بلوچ اقدار و روایات کے منافی تصور کر کے اسے بلوچی غیرت پر حملہ سمجھتے تھےـ

بلوچ عورت بھی ھمل ماہ گنج مخالف تحریک کے بعد کم از کم مزید دو دھائیوں تک ٹی وی سکرین سے غائب رہیـ بلوچی فلموں میں ابھی حال ہی میں عورت کو تھوڑی بہت جگہ ملنی شروع ہوئی ہےـ

بلوچ مذہبی طبقہ ہر چند کہ سینما گریز ہے، تاہم بلوچ سماج پر چُوں کہ مذہبی طبقات کا اثر نسبتاً کم ہے اس لیے بلوچ سماج میں فلم مذہبی سے زیادہ سماجی مسئلہ ہےـ

سینما ایک پُر اثر شعبۂِ ثقافت ہےـ فلم کسی بھی سماج، قوم، مذہب یا کمیونٹی کی مَثبت یا منفی شبیہ عوام کے ذہنی کینوس پر اتار کر اسے اپنا ہم نوا بنا لیتا ہےـ کسی بھی وجہ سے چاہے وہ شرعی معاملہ ہو سماجی اقدار کا تحفظ، سِینما کو مسترد کرنا سرا سر گھاٹے کا سودا ہےـ

“اب کوئی مانے یا نہ مانے، زمین تو سورج کے گرد گھومتی رہے گی۔” گلیلئیو