خواب نگر کا باسی 

Azhar Nadeem book

خواب نگر کا باسی

 ستارے سوچتی آنکھیں از، ازہر ندیم کے تناظر میں 

از، سمیرہ رفیق اسلام آباد

ازہر ندیم صاحب کی پہلی کتاب نظم میرا زینہ ہے سے دوسری کتاب تک کے سفر میں مجھے زندگی سے متعلق ارفع خیالات، افکار اور مسائل پر غور و فکر کا رجحان ساز رویہ نظر آتا ہے۔ خاص طور پر دوسرے شعری مجموعے میں ہر درد کا مداوا اور اس کا اظہارِ محبت کی صورت میں ایک منفرد اپروچ کو تشکیل دیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

ازہر ندیم کے ہاں نہ صرف تخلیقی شعور کی فراوانی ہے بل کہ progressive thought کی بھی جھلک نمایاں ہے۔ جس کی نمائندگی کتاب کا ٹائٹل، ستارے سوچتی آنکھیں بھی کر رہا ہے جو استعاراتی طور پر ہمیں ظلمت میں ستاروں کی بلندی، چمک یا روشنی کی جانب دعوتِ فکر دیتا ہے۔ آخر ایسا کیا ہے کہ کتاب کا نام ستارے سوچتی آنکھیں منتخب کیا گیا؟

نئی تنقید ( (New Criticism نے متن کے لغوی یا ظاہری معنی کے علاوہ علامتی یا پوشیدہ معنی تک رسائی کا جو طریقۂِ کار فراہم کیا ہے، اس کے مطابق دیکھیں تو معنیاتی ساخت کے اعتبار سے اور literal meaning کے بر عکس ستارے سوچتی آنکھیں میں لفظ آنکھیں metaphorical meaning کے تحت در اصل شاعر کا وہ ذہن ہے جو اندھیر نگری میں روشنی تلاش کر رہا ہے، کیوں کہ ازہر ندیم جہاں روشنی سے محبت کا درس دیتے ہیں، وہیں روشنی بھی ان کے لیے محبت کا ہی پر تو ہے۔

؎ ستارے سوچتی آنکھیں

افق کے اس طرف کے خواب میں گم ہیں

فضا کو دیکھتی رہتی ہیں اک بے نام حسرت سے

کسی موہوم سی امید کا موسم

سجا کر بیٹھتی ہیں روز پلکوں پر

کہیں کوئی مسافر آسماں کی وسعتوں سے بھی کہیں آگے

سندیسے بھیجتا ہے روشنی کے اور رنگوں کے

ستارے سوچتی آنکھیں

اگر چِہ جان لیتی ہیں محبت کے اشاروں کو مگر اس درمیاں کے فاصلے سے مضطرب رہتی ہیں راتوں میں

ہوا سے پوچھتی رہتی ہیں اکثر وصل کے امکاں

کہ ہم پہ نور آخر چاہتوں کا کب اترنا ہے

ہمیں کب جھلملانا ہے

ہمیں کب مسکرانا ہے

کسی کی جھیل سی آنکھیں

ستارے سوچتی آنکھیں

(نظم: ستارے سوچتی آنکھیں صفحہ ۴۸)

محبت سے جڑ کر ہی حیات اور وجود کی تکمیل ممکن ہے تو در حقیقت یہی وہ روشنی ہے جو کبھی ستارے سوچتی آنکھیں کے نام سے منظوم ہو جاتی ہے، کبھی اسے کہنا پڑتا ہے کہ اسی محبت سے’’ستارے کچھ اور تخلیق ہوتے ہیں،‘‘ اور کبھی ’’سبھی ستاروں کا فیصلہ ہے۔‘‘ تبھی محبت کو وہ ’’آ محبت زندگی کو معنویت سے کریں اب ہم کنار‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ محبت کبھی اگلے جنموں کا گیان بن کر سامنے آتی ہے اور کبھی مختلف رنگوں میں اورعلامتی انداز میں ہَوا، چاند اور ستاروں کی روشنی اور سنگت سے ہمیں فردا کی راہ دکھاتی ہے۔

؎ محبت مستقبل میں جانے کی خواہش کا نام ہے

وہ خواہش جو بے بنیاد نہیں ہوتی

جس کے دامن میں کائناتی خوب صورتی موجود ہوتی ہے

محبت جمالیات کی تخلیق پر یقین رکھتی ہے

جس کے بغیر ماضی اور حال کے دُکھ بے معنی ہیں

محبت ان زمانوں کا وقوف ہے

جن کے روز و شب میں تکمیل بھری ہوتی ہے

وقت کے اشاروں کو محبت سے خالی دل نہیں جان سکتا

محبت فہم ہے، محبت وجدان ہے

محبت اگلے جنموں کا گیان ہے۔

(نظم: محبت اگلے جنموں کا گیان ہے صفحہ: ۷۵)

باطن میں محبتوں کا جہان بسانے والا خواب نگر کا باسی سوچوں میں کہیں کوئی ایسی بستی بھی بسائے ہوئے ہے جسے وہ ’’گمان آباد اک بستی‘‘ کے نام سے موسوم کرتا ہے‘‘۔ جہاں یقین و بے یقینی، مکمل سے نا مکمل ہونے کا گمان اور بہت سے پر پیچ و پُر اسرار زمانے پھیلے ہوئےہیں۔ وہاں اداسی برف کی مانند پھیلی ہے، جہاں شاعر کی حسین یاد کا ایک حسین منظر (مثالی جہان کا تصور) رکا ہوا یقین اور بے یقینی میں کہیں ڈول رہا ہے۔

محبت کے گیت گانے والا یہ پیارا شاعر بھی آخر انسان ہے اور امید اور نا امیدی کے ما بین کئی دھاروں سے الجھتا ہے۔ لیکن اس کے با وجود وہ کنارے لگنا اور ڈوبتی انسانیت کی نیا کو بھی کنارے لگتا دیکھنا چاہتا ہے۔

وہ ایک طرف جہان میں پیار و محبت دیکھنے کا خواہاں ہے، تو دوسری جانب نا امیدی اور بے یقینی کا ٹھہرا ہوا احساس نہایت منفرد انداز سے نظم گمان آباد اک بستی میں سمو دیتا ہے۔ یوں خیال کی اس انفرادیت کو محسوس کر پانا سنجیدہ قاری کے لیے نہات لطف کا باعث ہے:

؎ جہاں پر سب یقین اور بے یقینی ساتھ رہتے ہیں

جہاں ممکن سے نا ممکن نہیں ہے دور کوئی پل

گمان آباد کے رستے

بہت پر پیچ، پر اسرار، پھیلے سب زمانوں میں

سراب آسا، زمین و آسماں میں گم شدہ اکثر

کوئی رہ رُو کوئی رَہ بر، کوئی رہ زن نہیں ملتا

کئی جنگل، کئی صحرا، کئی پربت اکیلا پن

گمان آباد کا موسم

کبھی اک سوچ کی بارش کبھی اک خواب کا بادل

سبھی گلیوں میں گرتی ہے اداسی برف کی مانند

نمی سی فضاؤں میں سدا موجود رہتی ہے

یہاں پر مستقل ٹھہرا ہوا اک یاد کا موسم

گمان آباد اک بستی

گمان آباد آؤ گے

گمان آباد میرا دل

(نظم: گمان آباد اک بستی صفحہ : ۹۸)

ایسے میں اپنی تھکن زائل کرنے اور زندگی محسوس کرنے کو محبتوں کے لا زوال جہان کھوجتا مسافر کچھ نرم و نازک لمحوں کا طالب ہے۔ جس کے باعث وہ محبوب سے تمنا کرتا ہے کہ وہ اسے کچھ پھول بھیجے۔

یہاں سوال یہ ہے کہ تازگی لانے کو پھول تو بازار سے بھی خریدے جا سکتے ہیں! لیکن محبوب سے ہی پھول پانے کی خواہش کیوں ہے؟ ممکنہ جواب شاید یہ ہے کہ زمانے کی بے حسی اور عالمِ کرب میں محبوب در اصل تازگی کا وہ جہان ہے جس کے لمس سے مَس ہو کر آئی پتیاں مزید نرم اور خوش بُو دار ہو جائیں گی، تبھی شاعر کی روح کی سرشاری کا سامان کر پائیں گی۔

آغاز دیکھیں کتنا خوب صورت اور دل پذیر ہے۔ شاعر اپنی تکان کو محبوب سے ملنے والے پھولوں کی نرمی سے مٹانا چاہتا ہے۔ یہ نفیس و لطیف احساس کی انتہا ہے۔ اصل میں نرم و نازک لمحات شفقت و محبت کی وہ علامت ہیں جن کی تمنا تھکا دینے والےشب و روز میں ہر ذی روح کی طلب ہے۔ معنوی لحاظ سے مجھے کچھ پھول بھیجو گے ایک نہاہت بلیغ اور خوب صورت نیم استعاراتی نظم معلوم ہوتی ہے:

؎ مجھے کچھ پھول بھیجو گے

جہاں میں ہوں وہاں گہری اداسی ہے

کسی خاموش سی اک شام کا کب سے بسیرا ہے

حصار وقت کے اندر مقید جسم ہے میرا

فضا میں درد ہے پھیلا

ہوا بھی بے بضاعت ہے

مرے دست سوالی کی جسارت اور ہمت پر ابھی ناراض نہ ہونا

مرے احساس کی بے مائیگی کو دھیان میں رکھنا

مرا وجدان ویراں ہے

مجھے خوش بُو کی خواہش ہے

مجھے مہکے ہوئے رنگوں سے کوئی بات کرنی ہے

مجھے کچھ تازگی درکار ہے اس روح کی خاطر

مجھے کچھ نرم اور نازک سے لمحوں کی ضرورت ہے

مجھے کچھ پھول بھیجو گے۔

(نظم: مجھے کچھ پھول بھیجو گے صفحہ: ۲۴)

سماجی معنویت کے حوالے سے بھی دیکھیں تو جا بَہ جا ہمیں یہ اشارہ ملتا ہے کہ بے حسی، جبر اور ستم کی تند و تیز ہوا تھم جائے اور امن و آشتی اور محبت و سلامتی کی خوش بُو پھیل جائے۔ یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ شاعر اپنے اور سماج کےکرب کو محسوس کرتے ہوئے پھولوں کی طلب کے ہم راہ اپنے باطنی جہان کی طرف objectivity سے subjectivity کی طرف رُخ کرتا ہے تا کہ تازگی اور آسودگی میسر ہو۔ اس طرح وہ پھر سے جی اٹھے گا تا کہ پیار اور محبت کے گیت اور نغمے گنگنائے، سب کو پیار کی طرف بلائے اور امر ہو جائے:

؎ میں ایک گیت بن کر گونجنا چاہتا ہوں

اس کائنات کی آخری سرحد تک

میں زمان و مکان کے پیالوں سے چھلک جانے کا متمنی ہوں

مجھے محبت کی چاشنی اور سرور دو

میں رقص کرتے ہوئے جانا چاہتا ہوں

(میں اک گیت بن کر گونجنا چاہتا ہوں صفحہ : ۷۷)

’’مثالیت‘‘ در اصل خارج یعنی زندگی سے ہی باطن کی طرف رخ کرتی ہے۔ جس میں شاعر یا آرٹسٹ اَز خود پناہ گزین ہے تو جینے کا بہانہ بن گیا ہے ورنہ ان خوب صورتیوں اور لطافتوں کے بغیر جینا دو بھر ہو جاتا۔

اس تناظر میں شاعر کی شخصی جہت کا رخ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تخلیق کار کے فن کی آبیاری اِسی شفافیت اور کوملتا کے ہم راہ ہوئی ہے۔ احساس کی نزاکت اور باطنی نرمی و لطافت اس نظم سے ملاحظہ کریں:

؎ تمھارے رنگوں کو دیکھتے ہوئے

یا کسی چڑیا کو

تمھاری نزاکت کو تصور کرتے ہوئے

تمھاری سبک رو شرارتیں

ایک گلہری کو بھی دھیان میں لے آتی ہیں

جو کسی درخت کی سکھ بھری طمانیت کی راز دار ہوتی ہے

تمہارے ہونے کی لطافت

پھولوں کی پتیوں اور ننھی سیپیوں کی یاد دلاتی ہے

جو اس زمین کے حسن کا نا مختتم خزانہ ہیں

اور شاعری کی بہترین بنیاد

لفظوں میں جگنووں سی روشنی

تمھیں سوچنے کی کوشش میں

میں کائنات کی سب نرم کومل چیزوں پر نظر ڈالتا ہوں

لیکن تم ان سب سے زیادہ خوب صورت ہو

میں زیادہ سے زیادہ ایک تتلی کو سوچ سکتا ہوں

(نظم: لیکن تم ان سب سے خوب صورت ہو صفحہ: ۱۱۸)

زمانے کی سختیاں اور آلام جھیلنے کے با وجود لطافت و نرمی ازہر ندیم کا وہ سرمایہ اور باطنی جوہر ہے جو اب تک ضائع نہیں ہوا۔ جسے اظہار کا وہ بہترین موقع میسر آیا کہ اُن کا فطری میلان اور فکری کاوش ایک واضح  فلسفہ سے مملو ہو کر شاعری کے قالب میں ڈھل گئے ہیں۔ یہ شاعری ہمیں نہ صرف خواب نگر کے باسی کے تصورِ تخلیق سے ملواتی ہے، بل کہ اُن کے پیغام کو اگر ہم معاشرتی زندگی پر generalise کر کے دیکھیں تو ہمیں بہت سے دکھوں کا مداوا ہوتا نظر آئے گا۔ نظم کسی نظم کا سفر ہو میں ان مداووں کی امیج ہم یوں دیکھتے ہیں:

؎ کوئی ایسا ہو ستارہ جسے راہ بَر بنائیں

کسی سوچ کی ڈگر پر یونھی دور جا کے نکلیں

جہاں روشنی محبت میں نگینے سی جڑی ہو

جہاں اپنے پورے قد سے یہ زندگی کھڑی ہو

جہاں لفظ اور معنی میں وصال ہو مکمل

جہاں خلق کے دکھوں کا ہو مداوا مسلسل

(نظم : کسی نظم کا سفر ہو صفحہ: ۵۴)

مگر یہ مداوا یا تلافی اس بات پر منحصر ہے کہ ان خوب صورتیوں کو مٹھی میں قید کرنے کی بَہ جائے ان کی خوش بُو کو بانٹنے کے قابل ہوا جائے۔ بہ صورتِ دیگر ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح تیرہ و تار موسم یعنی منفی طاقتیں جب معاشرے پر راج کرتی ہیں تو ہنسی، خوشی، حسن و خیر اور لڑک پَن ایسے معصوم جذبوں اور چاہتوں کو ہمیشہ کے لیے موت کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ اسی تند و تیز ہَوا یعنی طاقت و اقتدار کے ہاتھوں عام انسان کی زندگی، حیثیت اور وقار کو خشک پتے کے وقار کی آبرُو ریزی کے مترادف گردانا ہے :

؎ وہی ہوا ہے کہ جس کے ہاتھوں میں خشک پتوں کی آبرو بے وقار ٹھہری

وہی فضا ہے جس میں کہ تیرہ و تار موسم تھے راج کرتے،

دعا پلٹتی ہے آسمانوں سے آ کے واپس ہتھیلیوں پر،

وہی قبر ہے کہ جس میں کوئی لڑک پَن سلا دیا تھا،

 وہی فنا ہے جسے میں کہتا تھا رائیگانی۔

وہی عدم ہے، وہی ہوا ہے

وہی نہ ہونے کا کھیل پھر سے شروع ہوا ہے

(نظم : وہی عدم ہے، وہی ہوا ہے صفحہ: ۲۶) 

’’ہَوا‘‘ دنیا بھر کی شعری روایت میں ایک بلیغ استعاراتی علامت ہے۔ کبھی زندگی اور سانس ہے، کبھی سماج دشمن قوتیں یا اقتدار اور کبھی تاریخ کا ایک طویل سفر جو ہمیں ماضی سے مستقبل میں لے جاتا ہے چناں چِہ ازہر ندیم نے بھی ’’ہَوا‘‘ کو مختلف سیاق میں یوں برتا ہے کہ واضح امییجری کے ساتھ قاری تک معنی کی ترسیل بھی بَہ خوبی ہوتی دکھائی دیتی ہے ۔

پی۔بی۔ شیلے نے Ode to the West Wind میں ہَوا کے دو مختلف روپ destroyer اور preserver تعمیر و تخریب) کے طور پر دکھائے ہیں۔ ایک طرف سماج میں تبدیلی اور ارتقاء کا پہلو دکھایا تو دوسری طرف انسان کو فطرت سے جوڑ کر اپنے احساسات و جذبات سے قریب تر کیا۔

معروف شاعر توفیق رافت نے بھی اپنے پہلے شعری مجموعے Arrival of the Monsoon میں اسی شعری سٹرکچر کی مدد سے ہَوا اور دیگر فطری مظاہر کا ذکر عمدہ پیرائے میں کیا ہے؛ اور اسی ساخت پر ازہر ندیم کی شاعری میں بھی فطرت سے قرب اور سرشاری کا احساس، جذبات و احساسات کی گہرائی و گیرائی کا شعور، تخلیقی و جمالیاتی ہنر مندی، امیجری، تنہائی اور اداسی، اعلیٰ باطنی واردات، نیم علامتی اور تمثیلی انداز بیان یا استعارہ سازی جیسی تمام خصوصیات، رومانویت کے ہی رنگ اور پہلو ہیں جو آپ کی بیش تر نظموں میں reflect ہوتے دکھائی دیتے ہیں:

؎ ہوا میں ہجر ہے، نم ہے، اداسی ہے

ہوا میں اک آزردہ جھلک ہے بیتے موسم کی

ہوا میں رنگ ہیں آشفتگی کے، رائیگانی کے

ہوا میں بے بضاعت خواہشوں کی راکھ اڑتی ہے

ہوا میں نقش ہے ہر سو اک معلوم کا چہرہ

ہوا میں خواب ہیں اور ان کی تعبیریں

ہوا فردا کو جاتی ہے زمانوں کا نشان بن کر

ہوا ہے زندگی کے چار سو پھر بھی

ہوا سب کو دکھائی کیوں نہیں دیتی

(نظم: ہوا سب کو دکھائی کیوں نہیں دیتی صفحہ ۳۲)

 منفی طاقت اور جبر و استحصال نے معاشرے کو آرزووں اور چاہتوں سے خالی کر دیا۔ ظلم و بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ تمناؤں اور بہاروں سے خالی سر زمیں پر اب دعائیں بھی اپنا اثر نہیں رکھتیں۔ پھول موسم اور خوابوں سے بانجھ جیون اب خوف کی لپیٹ میں ہے۔ اس زمین پر محض حسرتوں اور بے یقینی کی گرد اڑتی ہے۔ سب بیدار جذبے بھی سو چکے ہیں اور کوئی پُرسانِ حال نہیں:

؎ یہاں پھول موسم قیام کرتے تھے دیر تک

یہاں چاہتوں کا رواج تھا

یہاں پانیوں میں یہ زہر کس کی رضا سے ہے

یہاں خوف پہرے پہ لا کے کس نے بٹھا دیا

یہاں سایے بستے ہیں جسم جانے کہاں گئے

یہاں بے یقینی کی گرد اڑتی ہے چار سو

یہاں لب ترستے ہیں بات کو

یہاں کتے روتے ہیں رات کو

(نظم: یہاں خوش گمانی کا راج ہے صفحہ : ۱۲۳)

رائیگانی، لا یعنیت اور کچھ نہ ہونے کے احساس یا وجودی کرب کے عالم میں، محبت کا پیغام اور معاشرے کے لیے محبت جیسی نعمت کا ادراک ہونا کوئی چھوٹی بات ہے کیا؟ نقطۂِ آغاز کوئی تو ہو، پھر اپنے اپنے حصے کا دِیا ہر ایک جلائے تو کچھ اجالا ہو گا، روشنی پھیلے گی اور اندھیرا چھٹنے لگے گا۔ پھر محبت اور اس سے وابستہ جذبے امن و امان لے کر دلوں پر بھی اترنے لگیں گے؛ کیوں کہ روشنی کی تمنا کرنے والے شاعر کے راکھ ہونے میں شاید ذرا دیر ہے:

؎ روشنی گو ہے کم

ایک ہالہ نما دائرہ تو فضاؤں میں موجود ہے

ایک احساس تو اس دیے کے بطن میں ہے جلتا ہوا

اس کی مدھم سی لو

آسمانوں تلک گو کہ جاتی نہیں

اس زمیں پر مگر ٹمٹماتی ہے یوں

جیسے تنہا ضیا پاشیوں کی روایت کی وارث ہے یہ

اس کو بجھنے نہ دو

یہ تفاخر نہیں ایک عرفان ہے

اپنے ہونے کی خواہش کا اعلان ہے

آخری فیصلے کی گھڑی تک سلگتے رہو

شب ہے باقی ابھی دیر تک سلگتے رہو

(نظم: راکھ ہونے میں شاید ذرا دیر ہے صفحہ ۱۰۸)

ستارے سوچتی آنکھیں میں محبت کے احساسات جا بَہ جا ملتے ہیں اور دھیمے دھیمے انداز میں تیرہ و تار موسموں کے راج کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے لیکن پہلو بہ پہلو شاعر نے محبوب کی محبت کو آسمان و زمین، اس جہان اور کائنات کی وسعتوں اور رنگینیوں میں یوں پھیلا کر دیکھا اور محسوس کیا ہے کہ یہی ایک احساس جینے کا جواز بن جاتا ہے۔

یوں ہم کہہ سکتے ہیں محبت کے نغمے اور شاعری کا حاصل محض ایک محبوب کے لیے ہی نہیں ہے، در اصل اس ذاتی محبت یا عمیق احساس سے شاعر کو وہ عرفان حاصل ہوا ہے جو کسی عام سے احساس یا چند لمحوں میں نہیں ہو سکتا، اس کے پسِ پردہ برسوں کی ریاضت اور فکر کا سفر ہے۔

؎ تختۂِ خاک سے حد افلاک تک

جس قدر تھے زمانے درخشاں ہوئے

یہ مرے لفظ تھے اک محبت کی حدت سے دہکے ہوئے

یہ جو روشن ہوئے

لوگ سمجھے مجھے مہر و مہ کی طرح یہ مری روشنی مدتوں کی ریاضت کا اعجاز ہے

اک انساں کے ہونے کا آغاز ہے

(نظم: میں ستارہ نہیں صفحہ: ۷۹)

 محبوب یا محبت کے نہ ہونے سے یوں لگتا ہے جیسے زندگی رک سی گئی ہو، گردش اور نمو کا احساس ختم ہو گیا ہو۔ نہ ہی کہیں کوئی حرکت پذیری کا عمل باقی رہا ہو۔ ہر شے جامد محسوس ہوتی ہے۔ جہاں ایک طرف محبت، خوب صورتی، حسن و خیر ہے تو دوسری جانب متضاد (paradoxes) رویے اور طاقتیں بھی سماج میں عمل پیرا ہیں۔ ایسی صورت میں جب انسانی زندگی اور اس کے سب جذبے ارزاں ہیں اور انتشار اور ذہنی تناؤ tension کا دور دورہ ہے تو ہمارے شاعر زندگی سے نبھاہ اور مصلحت کوشی کا پہلو ڈھونڈ نکالتے ہیں کہ بَہ ہر حال چلنا تو پھر بھی ہے خواہ باطنی دنیا میں سب کیوں نہ رک ہی جائے تو بھی حیات کو مسلسل آگے بڑھنا ہے، کہیں رکنا نہیں۔

؎ اصول یہ ہے کہ لفظ، خواہش، خیال، سب کچھ ہی عارضی ہیں

کبھی بھی سیلِ رواں کے آگے نہ رکا ہے کوئی نہ رک سکے گا

اصول یہ ہے کہ وقت قالب بدل کے اپنا

تمام رشتوں کی معنویت کو رائیگانی کا رنگ دے کر پکارتا ہے

کہ خود کو دیکھو ذرا عدم میں

جہاں پہ خوابوں کی راکھ تک کا نشاں نہیں ہے

سو اپنی اپنی محبتوں کے علم اٹھائے اداس لوگو!

کسی بھی لمحے یہ بھولنا مت

اصول یہ ہے کہ زندگی کا بہاؤ ٹھہرا نہیں کسی پل

(نظم: اصول یہ ہے صفحہ: ۸۸)

ازہر ندیم کے دونوں شعری مجموعے سامنے رکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلا شعری مجموعہ نظم میرا زینہ ہے گویا شاعر کے باطن اور شعور سے اٹھتی وہ باتیں، سوالات، احساسات، افکار اور مسائل ہیں جن سے وہ طویل عرصہ نبرد آزما رہے ہیں یوں ان کی پہلی کتاب ابتدائی شعری مرحلے کے طور پر بنیادی thesis argument بُنتی محسوس ہوتی ہے۔ جب کہ دوسرا شعری مجموعہ جیسے کوئی مستقل حل یا جینے کا سلیقہ اور جواز پیش کر کے، مجموعی دکھ کا مداوا کر رہا ہے اور personal سے impersonal approach قائم کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

پس سادہ دکھنے والی ان نظموں میں معنیاتی نظام کی جو تہہ داری موجود ہے وہ فلسفۂِ زندگی اور بے پایاں محبت کو انفرادی و اجتماعی سطح پر اپناتے ہوئے راہ نجات تلاش کرنے میں کوشاں ہے۔ یوں ازہر ندیم کی شاعری ادب برائے ادب کے زمرے سے نکل کر ادب برائے زندگی کے مدار میں داخل ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

ازہر ندیم نے اظہار کے لیے نظم کے میڈیم کو جس احسن طریقے سے برتا ہے وہ نہایت قابلِ تعریف اور منفرد ہے۔ ان کی نظموں کے نام ملاحظہ فرمائیں:

 آ محبت نظم لکھیں

اک نظم کھو گئی ہے

 مجھے اک نظم لکھتی ہے

کسی نظم کا سفر ہو

 ایک اداس نظم

نظم پاس رکھ لینا

ابھی اک نظم رہتی ہے

 نظم گواہ ہے … 

 نظم اور خواب

گویا نظم ہی ازہر ندیم کا اوڑھنا بچھونا اور حیات کا کل سرمایہ ہے۔

 ایک آرٹسٹ کے فن پارے میں اپنے سچے اور کھرے احساسات کی تصویر دیکھنا اور پھر سنجیدہ قاری کا اس کی نرمی یا کرب کو محسوس کر پانا یقیناً ایک کمال ہے یا زیادہ سے زیادہ فن کار کی اپنے فن، ہنر اور ریاضت میں ایمان داری کا مظہر ہے۔ ورنہ لفاظی سے اٹے موٹے موٹے الفاظ اور بڑی بڑی باتیں جو محض قرطاس کا تن کالا کر دیں ،سیاہ دھبوں کے مترادف ہیں۔ جن سے نہ روشنی پھیل سکے اور نہ انسانیت کا بھلا ہو۔

ایسے میں ہمیں لطیف و نفیس اور شفاف احساسات کی اشد ضرورت ہے تا کہ ہم بھی فطرت سے ہم آغوش ہو کر اس کی خاموشی اور محبت کی آواز سن سکیں کہ شاید کوئی ازہر ندیم پھر سے آئے پیار اور محبت کے نغمے گائے اور امر ہو جائے۔ یہاں پر ہی بس نہیں کیوں کہ جو اک نظم کھو گئی ہے ابھی وہ ایک نظم رہتی ہے۔

’’میرے نزدیک نظم شاعر کے وجدان کے تخلیقی منطقے میں رُونما ہونے والا ایک ایسا مربوط جمالیاتی واقعہ ہے جسے وہ اپنے معروض کے حوالے کرتے ہوئے ایک بڑے معاشرتی تخلیقی عمل کا حصہ بنا دینے کا خواہاں ہوتا ہے۔‘‘

ازہر ندیم