کفر کا نظام، بلے بلے شاوا شاوا

Mubashir Ali Zaidi

کفر کا نظام، بلے بلے شاوا شاوا

از، مبشر علی زیدی

میں شمالی ورجینیا کے جس قصبے میں رہتا ہوں، اس میں ہر طرف ہریالی ہے۔ گھر کے چاروں طرف اتنے اور ایسے اونچے اونچے درخت ہیں کہ جنگل کا گمان ہوتا ہے۔ سڑکوں کے اطراف گھاس کے قطعات اور رنگ بہ رنگے پھول نظر آتے ہیں۔

صبح گھر سے نکلتا ہوں تو خوش آواز پرندے گیت گاتے ملتے ہیں۔ سہ پہر کو واپسی پر تتلیاں استقبال کرتی ہیں۔ مغرب کے بعد جگنو روشنی بکھیرتے ہیں۔ یہ کوئی شاعرانہ تخیل نہیں، حقیقت کا بیان ہے۔

گھر کے عقب میں ایک ندی بہتی ہے۔ سردیوں میں سکڑ جاتی ہے لیکن گرمیوں میں خوب شور مچاتی ہے۔

سال کا بیش تر حصہ موسم خوشگوار رہتا ہے۔ اکثر بادل چھائے رہتے ہیں۔ ہفتے میں ایک دو بار بارش ہوجاتی ہے۔ صبح یا شام کو ہوا تیز چلتی ہے تو خنکی ہو جاتی ہے۔

محلہ صاف ستھرا ہے اور کئی اقوام کے تارکین وطن آباد ہیں۔ ہمسائے ہم درد ہیں۔ بجلی پانی جانے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔
اس قصبے کی آبادی صرف چالیس ہزار ہے، لیکن بہترین اسکول، اپنا کالج اور کئی اسپتال ہیں۔ ڈاک خانہ، لائبریری اور عجائب گھر ہے۔ مسجد اور امام بارگاہ بھی ہے۔

یہاں دنیا جہان کے برانڈز کی دکانیں موجود ہیں۔ سوپر مارکیٹس ہیں۔ پاکستانی مال کی دکانیں اور ریسٹورنٹ ہیں۔ گرمیوں میں سورج نو بجے غروب ہوتا ہے لیکن بہت سی دکانیں پانچ بجے اور باقی سات بجے تک بند ہو جاتی ہیں۔ سوپر مارکیٹس کا وقت نو بجے ہے۔ سیون الیون اور بعض میڈیکل اسٹورز چوبیس گھنٹے کھلے رہتے ہیں۔

ہر گلی محلے میں دکان نہیں ہوتی۔ کمرشل ایریا مخصوص ہیں جہاں رہائش نہیں ہوتی۔ شمالی ورجینیا میں ایسے ہر مقام پر مفت بے حساب پارکنگ دستیاب ہوتی ہے۔

آٹے، دال اور دوا سمیت ہر شے خالص ملتی ہے۔ کھانے پینے کے ہر آئٹم پر استعمال کی آخری تاریخ درج ہوتی ہے۔ مسلمان دکانوں کے علاوہ دوسرے سوپر اسٹورز بھی حلال گوشت مل جاتا ہے۔

نہ کوئی فون چھینتا ہے، نہ گاڑی چوری ہوتی ہے، نہ کبھی کوئی پولیس والا دکھائی دیا۔ ڈاکیا گھر کے باہر کتابوں کے پیکٹ رکھ جاتا ہے۔ کوئی ہاتھ نہیں لگاتا۔ شراب ہر اسٹور میں بکتی ہے لیکن آج تک کسی کو نشے میں دھت نہیں دیکھا۔

ہمارے محلے میں زیادہ ہندوستانی پاکستانی نہیں۔ لیکن کہیں ملیں بھی تو آنکھیں نہیں ملاتے۔ باقی ہر قوم کے واقف اور اجنبی سب مسکرا کے ملتے ہیں۔ ہیلو ہائے اور گڈ مارننگ ضرور کہتے ہیں۔ سڑک کی صفائی کرنے والا محنت کش میکسیکن ہر صبح “یو ہیو اے بلیسڈ ڈے” have a blessed day کہتا ہے۔

علاج مہنگا ہے اور اسپیشلسٹ ڈاکٹر کا اپائنٹمنٹ ہفتوں بعد ملتا ہے۔ لیکن اسپتالوں کی ایمرجنسی چوبیس گھنٹے کھلی رہتی ہے۔ نام پتا بعد میں پوچھتے ہیں، طبی امداد پہلے فراہم کرتے ہیں۔ کوئی حادثہ ہوجائے تو ایمبولینس، فائر بریگیڈ اور پولیس چند منٹ میں پہنچ جاتی ہے۔ ایمبولینس میت ڈھونے والا کیری ڈبا نہیں، جان بچانے والی گاڑی ہوتی ہے۔

سڑکوں پر اسپیڈ بریکر نہیں ہوتے۔ سائیکل چلانے والوں کے لیے بیش تر سڑکوں پر الگ لین بنی ہے۔ اسٹریٹ لائٹس رات بھر روشن رہتی ہیں۔ سگنل آدھی رات کے بعد بھی کام کرتے ہیں اور قانون پسند شہری ان کا احترام کرتے ہیں۔

پاکستان کی طرح یہاں بھی سگنل پر کبھی کبھی خیرات مانگنے والے مل جاتے ہیں۔ لیکن نہ گاڑی کے سامنے آتے ہیں، نہ انگلی سے شیشہ بجاتے ہیں، نہ کچھ کہتے ہیں۔ بس ایک پلے کارڈ لے کر کھڑے رہتے ہیں۔ کسی کو گانا بجانا آتا ہے تو اپنا ساز لے کر میٹرو اسٹیشن کے سامنے پہنچ جاتا ہے۔

ہر سڑک پر راستہ بتانے والے بورڈ لگے ہیں۔ ٹریفک کی علامتوں کے علاوہ جگہ جگہ حد رفتار کی نشان دہی کی گئی ہے۔ عام طور پر سرِ راہ اشتہاری بورڈ نہیں لگائے جاتے۔

ہر آبادی کی طرح ہمارے قصبے کے برابر سے بھی ہائی وے گزرتی ہے۔ اس ہائی وے پر آپ ایک لین میں رہتے ہوئے ایک رفتار سے سیکڑوں میل سفر کر سکتے ہیں۔ نہ کوئی ہارن بجاتا ہے، نہ ڈِپر مارتا ہے۔ سوپر ہائی وے پر کوئی پیٹرول پمپ تک نہیں ہوتا۔ ایندھن لینا ہے یا کچھ کھانا پینا ہے تو ہائی وے سے اتریں اور قریبی کمرشل ایریا جائیں۔

ہمارے گھر سے چار قدم پر بس اسٹاپ ہے جہاں آٹھ مختلف روٹس کی بسیں ہر چند منٹ بعد ٹھہرتی ہیں۔ بہت سے بس اسٹاپس پر بینچیں لگی ہوتی ہیں اور بارش سے بچنے کے لیے کورڈ ہوتے ہیں۔ اسکول بس رکتی ہے تو آتے پیچھے کی تمام گاڑیاں ٹھہر جاتی ہیں۔ جب تک اسکول بس دو بارہ نہ چلے، کوئی گاڑی حرکت نہیں کرتی۔
شمالی ورجینیا کے اسکول اچھی پڑھائی کے لیے مشہور ہیں۔

بارہویں تک تعلیم مفت ہے۔ فیس، کتابوں کاپیوں اور لیپ ٹاپ کے لیے ایک پیسہ نہیں دینا پڑتا۔ کوئی یونیفارم نہیں۔ بچہ جو مرضی کپڑے پہن آئے۔ اسکول وین بھی مفت۔ لیکن یہ سہولت ایک میل سے کم فاصلے پر رہنے والے بچوں کے لیے دستیاب نہیں۔ انھیں پیدل اسکول آنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔

تعلیمی ادارے بڑے رقبے پر ہیں۔ کئی عمارتیں اور کئی میدان۔ لیب اور جمنازیم۔ ہر بچے کے لیے روزانہ ورزش، بھاگ دوڑ اور کھیل میں حصہ لینا لازم ہے۔

محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت کہتا ہے کہ آپ ہم سے اپنی زبان میں بات کریں۔ اسکول یا اسپتال میں کوئی آپ کی زبان جاننے والا نہیں تو وہ ایسا شخص بھرتی کرتے ہیں۔

چہار جانب درختوں کے با وجود قصبے میں کئی پارک ہیں۔ ایک پارک ایک مربع میل کا ہے۔ کسی کو درخت کاٹنے کی اجازت نہیں۔ کسی کو بہتے پانی کا رخ بدلنے کی اجازت نہیں۔ کسی کو کوئی جانور یا پرندہ مارنے کی اجازت نہیں۔ کئی تنظیمیں ہیں جو مالک سے بچھڑ جانے والے پالتو جانوروں کو سنبھالتی ہیں۔ انھیں بچوں کی طرح پالتی ہیں۔ کوئی گود لینا چاہے تو مفت فراہم کرتی ہیں۔

صبح سویرے لوگ جاگ جاتے ہیں اور سرِ شام سو جاتے ہیں۔ صبح اور سہ پہر ایک دو گھنٹوں کے سوا زیادہ ٹریفک نہیں ملتا۔ کسی گاڑی یا گھر سے تیز موسیقی بلند نہیں ہوتی۔ مسجد، امام بارگاہ یا گرجا گھر پر لاؤڈ اسپیکر نہیں لگایا جاتا۔

About مبشر علی زیدی 15 Articles
مبشر علی زیدی کم لفظوں میں زیادہ بات کرتے ہیں۔ سنتے بھی ہیں اور سوچتے بھی ہیں۔ روز گار کے لئے براڈکاسٹ جرنلسٹ ہیں اور جیو نیوز سے وابستہ رہنے کے بعد اب وائس آف امریکہ سے منسلک ہو گئے ہیں؛ لیکن دل کی اور شعور کی گتھیاں لفظوں میں پرونے کو ادیب بھی ہیں۔ سو لفظوں میں کہانی لکھنا، لوگوں کو مبشر زیدی نے سکھایا۔