اساتذہ کے رٹے رٹائے جملوں سے باہر آئیے ، خود سوچئے

ایک روزن لکھاری
خرم شہزاد

اساتذہ کے رٹے رٹائے جملوں سے باہر آئیے ، خود سوچئے : اوئے زوال! تو

(خرم شہزاد)

سڑک کے کنارے بنے پارک میں ؛چائے والے کی طرف سے رکھی گئی بے ترتیب کرسیوں میں سے ایک کا انتخاب کیا۔بیٹھتے ہی خود کلامی کا آغازہوا۔ پاکستانی سماج میں پچھلے چند سالوں میں پریشان کُن حد تک جس طبقے میں اضافہ ہو ا ہے ۔وہ دانش ور طبقہ ہے۔ایک طالبِ علمانہ استعداد کے مطابق گمان کیا جا سکتا ہے کہ دانش ور طبقے کی ذمہ داری پامال فکری راستوں کو مسدود کر کے نئے تصورات سے روشناس کروانا ہے۔ لیکن اس مشکل کاکیاکیجیے کہ ہمارے سماج سے متعلق اس طبقے کی اپنی فکر،اساتذہ کے دکھائے،بتائے،پڑھائے اور ’’یاد کروائے‘‘ فکری فارمولوں تک محدود ہے۔ایسے میں سماجی صورتِ حال کو سمجھنے اور اس سے نمٹنے کے لیے تفکر و تدبر کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟

دیکھو اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اساتذہ نے (بہر حال )رائے قائم کرتے وقت اپنے عہد کے مسائل کوسامنے رکھا تھا۔ مگراُن کی رائے اسی عہد تک صائب تھی جب تک حالات ویسے تھے اب زمانہ بدل گیا ہے اس لیے چاہیے یہ کہ اساتذہ کے رٹے رٹائے جملے تھوکنے کے بجائے اپنے عہد کی سیاسی صورتِ حال کا بغور جائزہ لینے کے بعد رائے قائم کی جائے۔

ابھی کل ہی کی توبات ہے کہ ایک دانشور کی زبانی پانامہ کیس سے متعلق فیصلہ آنے سے قبل یہ عندیہ سنا گیا کہ ’’بھئی فیصلہ تو سول حکومت کے خلاف ہی آئے گا اوردیکھ لینا اس فیصلے کے خلاف ریفرنس دائر کر کے جج کو سزا واربھی نہیں ٹھہرایا جاسکے گا۔‘‘اب تو فیصلہ آچکا ہے اور ان صاحب کی رائے سے قطعاً مختلف بھی ہے توکیوں نہ ان صاحب کے پاس جا کر یہ سوال کیا جائے کہ کیا جمہوریت بچ گئی ہے؟

اس خیال کے آتے ہی میں اپنے وجود میں تجسس کی عجیب سی لہر محسوس کر سکتا تھا۔سو دانش ور صاحب کی گھر پر موجود گی جاننے کی غرض سے کال ملائی ۔تین بار کوشش کے باوجود جب رابطہ نہ ہو سکا تو فون جیب میں واپس ڈالا اور چائے کا ایک کپ منگوانے کے لیے چائے والے کو آواز دی ۔

چائے والا پارک میں پڑی خالی کرسیوں کی وجہ سے اپنے فون پربڑے انہماک سے بات چیت میں مصروف تھا۔ بائیں طرف رکھی کرسی کو غیر ضروری حد تک قریب کر کے ایک شخص میرے پاس بیٹھ گیااس پر اچانک نظر پڑنے سے میں کچھ چونکا ۔انتہائی سانولا رنگ ،چہرے پر بدنما داغ سے، ڈھیلی ڈھالی سی شلوار قمیض پہنے ہوئے وہ شخص پلکیں جھپکائے بغیر مجھے گھور رہا تھا۔

میں نے کچھ بولنے کے لیے ابھی لب کھولے ہی تھے کہ چائے والے کی آواز کان میں پڑی’’اوئے زوال! تو! تو میرے ہوٹل کی جان کب چھوڑے گا؟ الو کے پٹھے! میرے سب گاہک تو نے بھگا دیے۔دفع ہو جا۔مفت کی چائے پیتا ہے اور گاہکوں سے بھی پتا نہیں کیا کیا کہتا رہتا ہے کہ جو ایک دفع آیا۔مجال ہے جو دوسری دفعہ اس کی شکل دیکھنا نصیب ہوئی ہو ۔منحوس!چل دفع ہو جا یہاں سے!‘‘

وہ آدمی اٹھ کر چل دیا۔چائے والے نے مجھے چائے پیش کی ۔چائے کی پہلی چسکی لیتے ہوئے میں نے سوچا کیا یہ زوال تھا؟ زوال ایسے انسانی شکل میں کب سے آنے لگا؟ اور کیا اس کو ڈانٹ کر بھگایا بھی جا سکتا ہے؟؟؟