حیاتیاتی توازن کو درپیش چیلنجز: دنیا 2020 تک دو تہائی جنگلی حیات کے خاتمے کے راستے پر

حیاتیاتی توازن کو درپیش چیلنجز

حیاتیاتی توازن کو درپیش چیلنجز: دنیا 2020 تک دو تہائی جنگلی حیات کے خاتمے کے راستے پر

ترجمہ: فیاض ندیم

_______________________________________

نوٹ: ڈیمئن کیرنگٹن کا یہ مضمون معروف برطانوی اخبار گارڈین میں مورخہ  27 اکتوبر 2016 کو شائع ہوا۔ ایک روزن اس مضمون کا ترجمہ شائع کررہا ہے۔ ہم اصل مضمون کے حقوق بحق مصنف محفوظ سمجھتے ہیں، لیکن ترجمہ کے جملہ دانشی حقوق ایک روزن اور فیاض ندیم کی ملکیت ہیں۔_______________________________________

ایک نئی رپورٹ کے مطابق کرۂ ارض پر رہنے والے جانوروں کی تعداد میں 2020 تک دو تہائی کمی ہو جائے گی۔ اتنے بڑے پیمانے پر جانوروں کا معدوم ہونا، قدرتی ماحول جس پر انسان کا انحصار ہے،کی تباہی کا باعث ہوگا۔ آج تک کا سب سے جامع تجزیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ 1970 سے 2012 تک جانوروں کی تعداد میں 58% تک کمی ہوئی جو 2020 تک 67% تک کم ہو جائے گی۔

WWF زووالوجیکل سوسائٹی آف لندن کے محققین نے سائنسی اعداد و شمار پر مبنی ایک رپورٹ تشکیل دی ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ جانوروں میں اس کمی کی وجوہات قدرتی مساکن کی تباہی، شکار اور آلودگی ہیں۔ معدوم ہونے والوں میں پہاڑوں سے لے کر جنگلوں تک اور دریاؤں سے لے کر سمندروں تک کے جانور شامل ہیں۔ اور ان میں معدومیت کے خطرے سے دوچار جانے پہچانے جانور، مثلاََ ہاتھی اور گوریلے، اور کم معروف جانور جیسے گدھ اور سلیمینڈر وغیرہ شامل ہیں۔

جنگلی زندگی کی تباہی، آب و ہوا میں تبدیلی کے ساتھ، تجویز کئے گئے نئے عرضیاتی دور اینتھروپوسین، جس میں انسان ایک غالب نوع ہے، کی سب سے اہم علامت ہے۔
’’ اب ہم ایک بڑے سیارے پر چھوٹی سی دنیا نہیں ہیں، بلکہ ایک چھوٹے سے سیارے پر بڑی دنیا ہیں، جہاں ہماری آبادی نقطۂ انتہا تک پہنچ چکی ہے‘‘ سٹاکلم ریزیلی اینس سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر جان راکسٹرام نے یہ بات رپورٹ کے پیشِ لفظ میں کہی۔

مارکو لیمبرٹینی جو WWF کے ڈائریکٹر جنرل ہیں نے کہا کہ زمین پر پیچیدہ نظامِ زندگی کا انحصار یہاں پر موجود جانداروں کی بہتات اور تنوع پر ہے۔ زندگی، زندگی کو سہارا دیتی ہے۔ اور ہم بھی اسی توازن کا حصّہ ہیں۔ کمزور حیاتیاتی تنوع، فطری دنیا اور سپورٹ سسٹم، جس کا آج ہمیں سامنا ہے، تباہ ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ انسانیت کا مکمل انحصار صاف ہوا اور پانی، خوراک اور اشیائے ضروریات زندگی کے ساتھ ساتھ خوشگوار تنفس اور آسودگی پر ہے۔ رپورٹ میں کثرت سے بدلتی ہوئی 3700 فقاریہ انواع کی 14000 آبادیوں، جن کے بہترین اعداد و شمار دستیاب تھے، کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ یہ سٹاک مارکیٹ انڈیکس کی پیمائش جیسے نتائج ہیں جو دنیا کے 64000 قسم کے جانوروں کی حالت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اور سائنسدانوں نے ان اعداد و شمار کو حیاتیاتی تحفظ کی کوششوں میں پیش رفت جانچنے کے لئے استعمال کیا ہے۔

جانوروں کی کم ہوتی ہوئی تعداد کی سب سے بڑی وجہ زراعت اور لکڑی کے لئے جنگلی علاقوں کی صفائی ہے۔ اس وقت زمیں کا زیادہ تر حصہ انسان سے متاثرہ ہے۔ اس کا صرف 15% فطرت کے لئے محفوظ ہے۔ غیر قانونی شکار اور خوراک کے لئے جانوروں کا استحصال ایک اور بڑا عنصر ہے۔ حالیہ تحقیق کے مطابق غیر مستحکم ماہی گیری اور شکار کی وجہ سے 300 سے زائد جانوروں کی انواع معدومیت کا شکار ہونے جا رہی ہیں۔ آلودگی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ مثال کے طور پر یورپی سمندروں میں درندہ وہیل اور ڈالفن کو دیر تک رہنے والی صنعتی آلودگیوں سے بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔ گذشتہ 20 سالوں سے جنوب مشرقی ایشیاء میں گدھوں کا خاتمہ ہو رہا ہے، جو ایسے جانوروں کی لاشیں کھانے سے مر رہی ہیں جنہیں سوزش سے بچاؤ کی ادویات کھلائی گئی تھیں۔ تمام جانداروں میں سے جل تھلیے ایسے جانور ہیں جو سب سے زیادہ تباہی کا شکار ہیں۔ جس کا سبب ان جانوروں میں سے مینڈکوں اور رِگ ماہیوں کی پوری دنیا میں تجارت کے باعث فنجائی والی بیاریوں کا پھیلاؤ ہے جو ان جانوروں سے دوسرے جل تھلیوں میں منتقل ہو رہی ہیں۔
WWF کے ڈائریکٹر آف سائنس، مائیک باریٹ کے مطابق دریا اور جھیلیں سب سے زیادہ متاثرہ مساکن ہیں۔ جن کے اندر 1970 سے اب تک جانوروں کی 81% آبادیوں میں کمی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ ان میں سے پانی کا نکاس، آلودگی اور ڈیموں کی تعمیر ہے۔ یہ تمام دباؤ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے مزید شدّت اختیار کر رہا ہے، جو جانداروں کے زندہ رہنے کی صلاحیتی حدود کو تبدیل کر رہا ہے۔ بعض محققین کو رپورٹ میں پیش کئے گئے نقطۂ نظر پر تحفظات ہیں، جو بہت سارے مطالعات کو اس شہ سرخی میں پیش کرتے ہیں کہ ’’ بالا بالا نظر میں تو یہ ٹھیک ہے، لیکن سارا اپنے اجزاء کے مجموئے سے کم ہے‘‘۔ امریکہ کی ڈیوک یونیورسٹی میں پروفیسر سٹیورٹ پمم نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ مخصوص گروپس میں جیسا کہ ، پرندوں، وغیرہ کی الگ الگ بات کی جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔

رپورٹ نے متنبہ کیا کہ جنگلی زندگی کے زیاں کا اثر لوگوں پر ہوگا اور یہاں تک کہ اس سے چپکلشیں ابھر سکتی ہیں۔ ’’ بڑھتا ہوا انسانی دباؤ اُن وسائل کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے جن پر انسان کی بقا کا انحصار ہے اور یہ پانی اور خوراک کے تحفظ کے خطرات میں اضافے اور قدرتی وسائل کے لئے تصادم کا باعث بن سکتا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ موسمی تبدیلیوں پر تشویش پودوں اور جانوروں کی بقا کے لئے فوری نوعیت کے اقدامات پر حاوی نہیں ہونی چاہئے۔

تاہم بہت سی انواع دوبارہ بحال ہو رہی ہیں۔ جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ فوری تدابیر مسائل حل کرنے میں معاون ہو سکتی ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ٹائیگرز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور بڑے پانڈا کی نسل کو بھی حال ہی میں معدومیت کے قریب پہنچنے والے انواع کی فہرست سے نکال لیا گیا ہے۔ یورپ میں یوریشین بن بلاؤ کے مسکن کی حفاظت اور اس کے شکار پر کنٹرول کی وجہ سے 1960 سے اس کی تعداد میں پانچ گنا اضافہ ریکارڑ کیا گیا ہے۔

حالیہ عالمی وائلڈ لائف کانفرنس میں پینگوئن جو دنیا میں سب سے زیادہ سمگل ہونے والا میمل ہے اور شیشم کی لکڑی جو سب سے زیادہ سمگل ہونے والی جنگلی پیداوار ہے کی حفاظت کی لئے نئے حفاظتی اقدامات متعارف کروائے گئے ہیں۔ لیکن باریٹ کے مطابق جانوروں اور اُن کے مساکن کو تباہی سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ معاشرے میں وسائل کے جائز استعمال میں منظم و مربوط تبدیلیاں لائی جائیں۔ اس کے مطابق لوگ گوشت کا استعمال کم کر سکتے ہیں جو عام طور پر ایسے جانوروں سے حاصل ہوتا ہے جو غلّے پر انحصار کرتے ہیں، جسے زمین کو جنگلات کی کٹائی کے ذریعے صاف کر کے اگایا جاتا ہے۔ اور تجارتی اشیا مثلاً عمارتی لکڑی کی فراہمی کو ماحولیاتی استحکام کے لئے ایک تناسب سے یقینی بنا نا چاہئے۔ باریٹ نے کہا کہ اگر تاجر خام اشیاء کو اس انداز سے استعمال کرنے سے اجتناب نہیں کریں گے، جو کہ توازن کے لئے ضروری ہے، تو لا محالہ اپنے آپ کو تجارت سے باہر کر لیں گے۔ سیاستدانوں کو بھی اپنی تمام پالیسیوں کو، صرف ماحولیاتی پالیسیوں کو ہی نہیں، یقینی بنانا چاہئے کہ وہ وائلڈ لائف کے استحکام کا باعث ہوں۔

باریٹ کے مطابق ’’یہ رپورٹ ہماری موجودہ صورتِ حال کی  کافی چونکا دینے والی تصویر پیش کر رہی ہے۔ ’’ میرا خیال ہے ہمیں مایوسی میں اپنے ہاتھ کھڑے نہیں کر دینے چاہئیں۔ مایوس کبھی بھی نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیں آگے بڑھ کر عملی اقدام کرنے چاہئیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم اینتھروپوسین دور میں استحکام حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس ایسا کرنے کا مضبوط ارادہ ہونا چاہئے۔‘‘

About فیاض ندیم 14 Articles
پنجاب یونیورسٹی لاہور سے حیاتیات میں گریجویشن اور ماسٹرز کیا۔بعد ازاں انھوں نے اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ’’ تعلیمی انتظام و انصرام‘‘ میں ماسٹرز بھی کیا اور آج کل ’’تعلیمی انتظام و انصرام ‘‘(EPM) میں ایم ایس کر رہے ہیں۔فیاض ندیم کری کولم ونگ(curriculum) سے بھی گاہے گاہے وابستہ رہے ہیں۔ انھوں نے سکول اور کالج کی سطح کے حیاتیات کے مضمون کے نصاب کی تیاری میں بھی حصہ لیا اُن کی لکھی اور نظر ثانی کی ہوئی درسی کتابیں کے پی کے اور وفاقی تعلیمی اداروں میں پڑھائی جا رہی ہیں فیاض ندیم اسلام آباد کے ایک سرکاری کالج سے بطور استاد منسلک ہیں۔ اُن کا شعبہ حیاتیات اور نباتیات ہے۔