کتاب، انٹر نیٹ اور کتب بینی کا زوال

(جاں نثار معین)
تاریخی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے انسان فطری طور پر کتب سےمتاثر رہا۔ غم کاذکر ہو تو نا آسودہ اورخوشی پر مسکراتا ہے۔قدیم تہذیب کے برعکس نئی تہذیب کی پذیرائی ہوتی ہے۔لیکن تجربات قدیم ہو یا جدید دونوں کی اپنی اہمیت ہے۔ اسی لیےقدیم ثقافت کی پیروی کی جاتی ہے۔بالخصوص ترجمہ شدہ تصانیف تو گنگا جمنی تہذیب کو سمجھنے میں معاون ہوتی ہے۔کہی ہوئی بات ہواؤں میں معادم ہو تی ہے۔ کتابیں ہی مستند دلیلوں کے کام آتی ہیں۔مطالعہ کی روایت سے اخلاقی، تہذیبی، معاشی ،معاشرتی، ثقافتی، نفسیاتی،سائنسی اور دیگر تمام علوم و فنونِ لطیفہ کو سنوار نے کی خدمات انجام دیتی ہیں۔کتب سے ذہن کی آبیاری ہو تی ہے۔معاشرے کو پروان چڑھانےمیں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔بہترین تہذیب کی موجد اورذہن کے ارتقاء کا موثر ذریعہ ہے۔کوئی بھی ترقی کتب بینی بغیر ناممکن ہے۔کتاب علم کا منبع و خیالات کا خزانہ ہو تی ہے۔زندگی میں ہر لمحہ معاون و مددگار رہتی ہیں۔کتابوں نے ہر دور میں مثبت و منفی کردار ادا کیے ہیں،تمام اقوام و تہذیبیں کسی نہ کسی کتاب کے تابع رہی ہیں،کسی بھی قوم ، ملک وملت کی تہذیب کا نکتہ نظر متعین کرنے میں اہم خدمات انجام دیتی ہیں۔ہر معتبر کتاب مقصدیت سے لبریز ہوتی ہے۔کتابیں کسی بھی قوم کا اساسی ورثہ ہے،علم و ہنرکااہم ذریعہ ہے،نئے خیالات سے روشناس کرواتی ہیں، دوسروں کے فہم و ادراک کوسمجھنے میں مدد گار ہوتی ہیں۔ کتابوں سے ہی طاقتور معاشرہ بنتا ہے،خواندہ معاشرہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، ملک و قوم کی تقدیر بدل سکتی ہیں ،قاری کو تا دمِ حیات زندگی آداب،نشیب و فراز، طرزِادا، بودوباش، رہن سہن میں موثر رہنما ورفیق ِمعلم ہوتی ہیں،ذہنی نشونما ئی کرتی ہیں،پریشانی میں دلچسپی کا ذریعہ بنتی ہے، اخلاق پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں،کردار نگاری کا موثر ذریعہ ہے۔ فلاح و بہبود اور ترقی و عروج کی راہیں ہموارکرتی ہیں۔کتابوں میں علوم وفنون کےلازوال خزانے ہیں، بلا امتیاز رنگ و نسل ، مذہب و ملت ہر انسان کی زندگی کے نشیب و فراز میں ساتھ دیتی ہیں۔
کتب کے فروغ میں اہم خدمات دارالترجمہ کی ہےجوتاریخی ، جغرافیہ ، اردو ادب ، طبیعیات ، کیمیا ، ریاضی ، نباتاتی ، حیوانیاتی ، جماداتی ، فلکیاتی ، عمرانیاتی غرض سارے سائنسی وغیر سائنسی علوم کو اردو میں منتقل کردیا گیا ۔ تمام علوم و فنون کی اصطلاحات کا بھی اردو میں ترجمہ کئےاوراردو میں اعلی تعلیم کے نصاب کی کتابیں بھی لکھی گئیں۔اس طرح موجودہ سماج کی بہتری کے لیے کتب بینی کلچر کو ترقی دے کر ہی معاشرے کو متحرک کیا جا سکتاہے۔ جدید علوم وفنون کی تمام کتابوں کو مقامی زبانوں میں تراجم کریں تاکہ دیگر مذاہب کی تہذیب ، علوم و فنون دنیا بھر میں عام ہوسکیں۔کتابیں ہی علم کاخزانہ ہیں جن کی نسبت سے ہی علم کا حصول ممکن ہے۔ تاریخی تجزیہ سےمعلوم ہوتا ہے ہر کامیاب انسان کا تعلق کتابوں سے ہے۔ کتب بینی کا شوق کم عمری سے ہی پیدا ہو تو بہترہے ۔پچھلی تاریخ گواہ ہےکوئی درسگاہ اور تعلیم یافتہ معاشرہ کتاب سے بے نیاز نہیں رہا۔
انٹرنیٹ کو ای لائبریری کہا جاتا ہے۔ جہاں ہر قسم کی معلومات ہر وقت موجود رہتی ہے،بڑی تعداد میں آن لائن کتب کا مطالعہ کیاجاسکتا ہے ۔لیکن ذی علم ہونااورتکنالوجی سےوقفیت ہو تب ہی یہ ممکن ہے۔ان وسائل سے بہت کم افراد فائدہ اٹھاتے ہیں۔ای لائبریری سے پڑھنے لکھنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ ابھی بیشتر افراد کی جدید تکنالوجی سے وقفیت نہیں ہے۔اسی لیےای بکس کےبرعکس روایتی انداز میں پڑھنا آسان ہے۔الیکٹرانک میڈیا کی چکا چوند کے باوجود آج بھی کتاب کی اہمیت مسلم ہے۔ انٹرنیٹ چاٹنگ کی وجہ سے کتب بینی کا شوق قصہ پارینہ بن چکا ہے۔انٹرنیٹ دنیا بھر کی ضرورت اور زندگی کاحصہ بن چکا ہے۔تقریباً تین ارب سے زائد لوگ انٹرنیٹ سے جڑے ہوئے ہیں۔اس سے برقی آموزش یعنی ای لرننگ جس سے طالب علم کو روایتی استاد سے بے نیاز کردیا ہے۔ جو ایک استاد کے ذریعہ علم حاصل کی جانے والی تعلیم ہے وہ آج برقی آموزش میں مہیا ہے۔ باریک سے باریک نکات کی وضاحت بھی موجود ہے۔
انٹرنیٹ سے براہ ِ راست کتب بینی کے رجحان میں ہر دن کمی ہو رہی ہے۔لوگ اب کتب خانوں میں پڑھنے کےبجائے انٹرنیٹ پر پڑھنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ کیوں کی نئی اور پرانی کتابیں نٹ پر موجود ہیں۔ کم وقت اورخرچ سے زیادہ استفادہ ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے معیاری کتابوں کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ چاہے برقی یا طبع شدہ کتب مہنگی ہو رہی ہیں۔ جس وجہ سےغریب طلبہ معیاری کتابوں سے محروم ہو رہے ہیں۔جدید ٹیکنالوجی سے جہاں فائدہ پہنچ رہا ہے وہیں کتابوں سے دوری بھی پیدا ہو رہی ہے۔ جدید معلوماتی طریقوں میں کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور موبائل فونز کے استعمال سے بھی کتاب کی اہمیت متاثر ہو رہی ہے ۔مگر آج بھی یہ معاشرے میں 70 فیصد افراد کے لئے معلومات اور حصول علم کا ذریعہ ہے۔
بیشتر افراد کا کتابی مطالعہ صرف ضرورت کے مطاطق ہےجس سے کتب بینی کی عادت ناپید ہوتی جارہی ہے۔پھر بھی کتب میلوں میں کتابوں کی خریدی میں اضافہ ہورہاہے۔ راقم کا خیال ہے عصر حاضر میں کتب بینی کی روایت میں کمی نہیں ہوئی بلکہ نئی نسل زیادہ ذہین اور خیالات کے اعتبار سے زیادہ فَطین ہے ۔اسی لیے انہیں بہتر موقع فراہم کیے جائیں خاص کر دانشور وں سے نئے نئے موضوعات پر Audio , ویڈیو اور مناسب انداز میں کتب طفنن و طبع کی جائیں۔ مناسب قیمت ہو، مصنفین اور کتب فروخت کوحکومتی رعایات دی جائیں۔ ہر میدان میں بلند مقام حاصل کرنےکے لیے موثر ذریعہ تعلیمی درس گاہوں میں ریڈرز کلب کا قیام کیا جائے تا کہ طلباء و طالبات میں کتابوں سے رغبت پیدا ہو سکے۔
بلند پایہ مصنفین و دانشوروں وبزرگوں کے فہم و ادراک سے خیالات،تجربات و مشاہدات اور مسائلِ حیات پر حکیمانہ فراست ملتی ہے۔جس سے قاری مستفید ہوکر بہترین زندگی گزار سکتا ہے۔اسی لیےکتب خانوں سے محبت پیدا کریں اور کتب بینی کو اپنا شعار بنائیں، اسی میں ترقی کا زینہ ہے۔ نیز ذہن کو تازگی، روح کو بالیدگی اور خیالات میں توانائی پیدا ہوتی ہے۔خدا نے بھی لوگوں کی ہدایت کے لیے کتابیں نازل کیں۔ اچھی کتاب دراصل بہترین دوست ہے ۔ کتاب سے محبت رکھنے والے کا باطن روشن ہوتا ہے ۔ اگر آپ تاریخی دامن اور تہذیب کے تناظر میں زندہ رہنا چاہتے ہیں تو پھر سے کتب بینی کی جانب سنجیدگی سے توجہ دیں تاکہ عالمگیرانسانیت، اخوت اور بھائی چارگی امن و اَمان قائم ہوسکے۔
معاشی سطح پر اہم تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں ۔ قصبوں اور شہروں میں زندگی تیزی سے بدل رہی ہے ۔ کتابیں اس تبدیلی کا جائزہ مرتب کرنے میں ہماری مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پرفورٹ ولیم کالج سے انگریز ہندوستان میں ایک زبان قائم کرنا چاہتے تھے۔ تاکہ وہ یہاں کی زبان اور علم کو سمجھ سکیں۔تو انہوں نے کتابیں لکھوائیں جن کی مدد سے برصغیر کے باشندوں ے کلچر کو کمتر اور اپنی تہذیب اور خیالات کو برتر ٹھہرایا۔اسی لیے کتب بینی ضروری ہے ۔ تاکہ ہمارے مذہب اور ہمارے بزرگوں کے لکھے ہوئے کتابوں میں کسی قسم کا خلل نہ ہو۔قاری ہی اپنی وسعتِ مطالعہ سے سچ اور جھوٹ میں فرق کو ملحوظ خاطر رکھ سکتے ہیں ۔ کسی بھی کتاب کے پیچھے مقاصد کو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہئے۔ اگر کتاب صحیح نہ ہو تو برائی کی ترغیب بھی دے سکتی ہیں۔ منحرف اخلاق اور فحش قسم کی کتابیں ہماری بدترین دشمن ہے۔ کتابیں بہترین دوست ہوتی ہیں۔جن سےہماری قومی اور ملی زندگی میں صحت مند رحجانات کو فروغ حاص ہوتا ہے۔نیز انسان اسناد سے مستندنہیں ہوتا بلکہ کتب بینی سے عالم کہلاتا ہے۔کیوں کہ انسانی قدرو منزلت صرف علم پر مبنی ہے، اور تمام ذی روح مخلوق پر انسان کی برتری صرف اور صرف علم کی مرہون منت ہے۔
کتب بینی سےقوم کا مستقبل تابناک ہو سکتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلےسرکاری ہو یا خانگی سطح پر عوام میں کتابی شعور جگا کر’ کتب بینی کلچر‘ کو فروغ دیں۔اسی لیے ہر چھوڑے بڑےشہروں اورگاؤں میں عوام الناس میں مطالعہ کی عادت پیدا کرنے سے متعلق راقم نےچند متداد نکات ، اقدامات اور تجاویز ہیں۔ کتب خانوں کی خدمات درست کی جائے۔قومی زبانوں میں معیاری کتب فراہم کی جائیں۔ تربیت یافتہ لائبریرین کی بہالی کریں۔کشادہ ماحول اور بہتر فرنیچر کا انتظام کیا جائے۔ہر شہر میں ڈائیر یکٹریٹ آف آرکائیوز اور لائبریریز قائم کی جائیں ۔ شہروں اور دیہی علاقوں میں موبائل لائبریری سروس شروع کی جائے۔ جیسے قومی کونسل برائے فروغ اردو نئی دہلی نے کی ہے۔عوامی کتب خانوں سے مابین کتابوں کے باہمی تبادلے کا نظام بھی قائم کیا جائے۔جس میں ادبی، مذہبی، ناول، ڈرامہ، لوک ادب، جاسوسی ادب،سرکاری و خانگی رسائل ا ور جرائد مہیا کیے جائیں۔
اس ضمن میں اہم اقدامات لائبریریوں کے نظام کو جامع اور کثیر الجہت بنیادوں پر استوار کریں،’ کتب بینی‘پر سمینار منعقد کیے جائیں، کتابوں کی قیمتوں میں کمی کی جائے،تمام اہم جگہوں پر پبلک لائبریریاں قائم کی جائیں،طلبہ کو سرکاری فنڈس سے ماحولیاتی، ادبی، لسانیاتی، مذہبی، اخلاقی، تہذیبی، فلسفی، سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی،امورِ خانہ داری، تعلیمِ نسواں یا کم سے کم تمام نصابی کتب مفت تقسیم کی جائیں۔جس طرح قومی کونسل برائے فروغ، اردو زبان،نئی دہلی اور دیگر سرکاری وخانگی اداروں نے کتابیں انٹر نیٹ پر مطالعہ یا ڈون لوڈ مفت آن لائن نشر کیے ہیں۔اسی طرح کم از کم ہر سرکاری ادارہ اپنی اپنی کتابوں کو مفت نشر کر دیں۔ تاکہ ہرفرد کو سستی و معیاری کتب کا حصول آسانی سے ہو۔بالخصوص غیر مککی کتابوں کی رسائی میں قیمت سے زیادہ ڈاک خانہ کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں اور وقت بھی ضائع ہوتا ہے۔ان دشواریوں کو ختم کیا جائے تو کتب بینی کلچر کو کا فروغ اور نئی نسل میں اشتیاق پیدا ہو سکتا ہے۔
ملک گیر کتب خانوں کی توسیعی خدمات فراہمی کے منصوبہ میں مالی وسائل فراہم کیے جائیں۔موجودہ اردو کی نایاب کتابیں دنیا بھر متعدد کتب خانوں میں نمائش کے طور پر رکھی ہوئی ہیں۔ عدم توجہی سے شکار ناگفتہ حالات کےتمام نایاب، وحید اور قیمتی نسخوں کی تلاش چاہے مخطوطات ہو یا کتابیں انہیں پھر سے شائع کرکے متنوع علمی و تہذیبی کتب کو سمجھنے کا نئی نسل کو موقع عنایت فرمائیں۔ورنہ جس طرح نایاب نسخے ضائع ہو چکےہیں وہ دن دور نہیں جو ساری کہاوتیں دھندلی، تاریخ و بہادوری کے حسین کارناموں سے اگلی نسل محروم ہو جائے گی۔ لحاظہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے جس طرح ’مثنوی کدم راؤ پدم راؤ‘ کی ترتیب و تدوین متن کو کھول کر نئی زندگی بخشی اسی طرح موجودہ ماہرین کی مدد سے تمام نایاب کتب کو آسان فہم انداز میں مہ مشکل الفاظ معنی کے ساتھ پھر سے کمپوزنگ کر کے شائع کیے جائیں۔
خدارا راقم کی التماس ہے ہمارے بزرگوں کی کتابیں ہماری وراثت ہے۔ ان کی حفاظت فرمامخالف زبان کےشر سے ہم حیدرآباد سینٹرل لائبریری کی نایاب کتب کو آگ کی زد سےنہیں بچا سکے۔ جو بچی تھیں انہیں غیر مسلم عملے نے کباڑیوں کو ردی کے طور پر کوڑیوں کے مول فروغ کی گئیں یا پھر دیگر ملک منتقل ہو گئیں۔ علاوہ ازیں دیگر کتب خانوں کی صورتِ حال بھی اسی طرح ہو گئیں ہیں۔ ورنہ سر زمین دکن کی نا یاب کتابیں پوری انسانیت کو ایک پلاٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے کافی تھیں۔