خالد فتح محمد کے ناول، سود و زیاں کے درمیاں، پر ایک نوٹ 

سود و زیاں کے درمیاں ناول
Photo courtesy, the writer of the article

خالد فتح محمد کے ناول، سود و زیاں کے درمیاں، پر ایک نوٹ

تبصرۂِ کتاب از، حفیظ تبسم 

اگر غور طلب طریقے سے معاصر ناول کی تخلیقی سر گرمیوں کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ناول کی خارجی اور داخلی ساخت میں تجربات ہوئے اور عموماً تجربات پر بے جا تنقید بھی ہوئی۔

تکنیک کی سطح پر کسی قسم کی پیچیدگی ہمارے لیے بے معنی ہی رہی۔ اس کی بنیادی وجہ تو شاید کہ قاری اپنے ذہن کو ڈسٹرب کیے بَہ غیر کڑی در کڑی کہانی پڑھنے کا خواہش مند تھا اور ہے۔ اس کے ساتھ پیچیدہ تکنیک ناقدین کے لیے بھی مسئلہ ہے (صرف وہ ناقدین جو کسی خاص تحریک یا نظریے کے پا بند ہیں۔)

خالد فتح محمد اکیسویں صدی کے فکشن نگار ہیں اور یہی حیران کن بات ہے کہ سفید بالوں والے گوتم نے نروان کی آخری سیڑھیوں پر قدم رکھتے لکھنا شروع کیا اور دو دَھائیوں میں 9 ناول، 5 افسانوں کے مجموعے اور 5 تراجم کی کتابیں شائع کروا دیں۔

خالد فتح محمد کا شمار اُن اِکّا دُکّا فکشن نگاروں میں ہوتا ہے جن کے افسانے اور ناول بَہ آسانی الگ الگ خانوں میں رکھے جا سکتے ہیں اور یہ غیر معمولی بات ہے۔ مگر اردو تنقید نے خالد کے ناولوں کے ساتھ نا مناسب طرزِ عمل اختیار کر رکھا ہے۔

خالد فتح محمد کا نیا ناول، سود و زیاں کے درمیاں ناول نگاری کے باب میں منفرد تجربہ ہے۔ ناول کی کہانی پہلے صفحے سے ہی جکڑ لیتی ہے مگر آگے بڑھتے ہوئے سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ایک اور کہانی شروع ہوتی ہے جو ایک خاص مقام پر آ کر رُک جاتی ہے اور وہیں سے ایک اور کہانی۔

خالد فتح محمد کا کمالِ فن یہ ہے کہ قاری پچھلا حصہ بھول کرآگے بڑھتا ہے اور ایک نئی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ ناول کے اختتام کی طرف بڑھتے ہوئے جب ساری کہانیوں کی کَڑیاں ایک دوسری سے ملتی ہیں تو حیرانی کا ایک اور دروازہ کھلتا ہے۔

خالد نے اس ناول میں نچلے اور متوسط طبقے کے لوگوں کے دکھوں، پریشانیوں اور الجھنوں کو پیش کیا ہے۔ اُن کی کام یابی کے اہم اسباب، گہرے غور و فکر سے کام لے کر اپنے موضوع اور کردار کو اس انداز سے پلاٹ میں سمویا ہے، کہ ہرمنظر، ہر مکالمہ یوں ناول کے قالب میں ڈھل جاتا ہے کہ احتجاج کا رنگ بھی نمایاں رہتا ہے اور امید کی کرن بھی دکھائی دیتی ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بغاوت اس طرح دکھائی دیتی ہے کہ مارکسی نظریات سیدھے سادے بیانیے اور عام زندگی سے اخذ کردہ ہیں، ٹھونسے نہیں گئے۔

فردوس نامی ایک کردار کے نسوانی کرب کو عورت کی نظر سے دیکھا اور ایسے تیکھے لہجے میں تفصیل اور شدت کے ساتھ پیش کردیا کہ مرد کی جابرانہ بَر تری کا بھانڈا پُھوٹ گیا۔

فردوس نامی کردار کے ذریعے ہی قدامت پرست نظریات کی جس انداز سے نفی کی گئی وہ نیا بیانیہ ہے جسے قبول کرنے میں وقت لگے گا۔

باقی ناول پڑھیں اور دیکھیں کہ خالد فتح محمد نے کیا کمال دکھایا ہے اور اس ناول میں کیا کچھ نہیں ہے۔

ناول فکشن ہاؤس، لاہور نے چھاپا ہے، کتنی انتہائی مناسب یعنی 400 روپے ہے۔