جب اردو زبان کے نابغے کو وہ نوبل انعام دے بیٹھیں گے

ابو بکر

جب اردو زبان کے نابغے کو وہ نوبل انعام دے بیٹھیں گے

از، ابو بکر

”میں اس زبان کا ادیب ہوں جس میں گدھے کلام کرتے ہیں۔ جب میں ان گدھوں سے کہتا ہوں کہ اپنے اولین نابغے  کا احترام کرو تو وہ سب با جماعت ہینگنے لگتے ہیں۔ اگر میں ان گونگوں کی زبان پر مالش کرنا چاہوں تو یہ میرے مُنھ پر تھوکتے ہیں۔

غیر مقبول گدھوں میں رہ کر کسی زبان دان کے لیے قبولیت کی منزل پانا کتنا مشکل ہے یہ مجھ سے پوچھیے، نوبل انعام کمیٹی کے  اراکین کی قسمت پر رشک آتا ہے جنہیں قدرت نے جوہر شناسی کی دولت سے مالا مال کیا ہے (اگر چِہ مجھے آپ حضرات کی معاملہ فہمی  پر بھی سنجیدہ شکوک ہیں۔)

میں کہانی نویس ہوں اور اگر اب بھی مجھے یہ بتانے کی ضرورت ہے تو اس سارے اہتمام پر لعنت بے شمار۔  یوں تو میں شاعر بھی ہوں لیکن ہماری زمین نے مجھ سے پہلے ایک بھی کام کا شاعر پیدا نہیں کیا سو میں اسے اپنے تعارف کا حصہ نہیں سمجھتا۔ میں جس ملک سے آیا  ہوں وہاں کی مشہور ترین شے مذہب ہے۔ اس لیے آپ بے دھڑک مجھے وہاں کا سب سے بڑا مولوی کہہ سکتے ہیں۔

پھر وہاں کے مولوی بھی ایسے جاہل ہیں کہ  میری یہ تقریر کبھی ان تک نہ پہنچ پائے گی سو ایسا دعویٰ کرنے میں کچھ مضائقہ نہیں۔ میں آپ کو پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ میں گدھوں کی زبان کا سب سے بڑا کہانی نگار ہوں۔


مزید دیکھیے: اردو پڑھیے، اردو بولیے  از، قاسم یعقوب

نطشے اگر خود یہ پڑھ رہا ہو تو گھر آ جائے  از، ابو بکر


میں انہیں خبر دار کرتا آیا ہوں کہ ایک دن میں نوبل جیت کر دکھاؤں گا اس پر وہ کہتے تھے کہ جب یہ ہوا تو ہم تجھے گدھوں کا سردار تسلیم کرلیں گے جو انسانوں سے کلام کا دعوے دار ہے۔ خدا جانتا ہے کہ میں اس دن سے اپنے آپ کو ان سے بر تَر سمجھتا ہوں۔
جین پال سارتر نے یہ کہہ کر نوبل انعام لینے سے انکار کر دیا تھا کہ میں کسی قید میں نہیں رہنا چاہتا۔ آج میں آپ پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ گدھوں کا کوئی وطن نہیں ہوتا؛ یہ لاہور میں بھی ہوسکتے ہیں اور فرانس میں بھی۔ شاید احمق سارتر  کہانی نویسوں کے حالات سے با خبر نہ تھا۔

یوں تو میں نے  ناول بھی لکھے ہیں اور شاید تاریخ  کا واحد ناول نگار ہوں جو نا صرف ناول لکھنا جانتا ہے بَل کہ اپنے کرداروں  کو بھی لگام ڈالے رکھتا ہے۔ میں نے اپنے اس دعویٰ کی تائید میں بھی ایک عدد ناول لکھ رکھا ہے کہ ناول لکھنے کے لیے فلسفہ جاننا  ہر گز ضروری نہیں۔

میں  طبعاً نقاد بھی ہوں تاہم ہماری قوم میں تنقید کی روایت مضبوط نہیں۔ لوگ میرے تبصرے برداشت نہیں کر پاتے تو کئی طرح کے سوالات کرتے ہیں۔ میں اس جہالت کا سامنا اسی دلیری سے کرتا ہوں جو گالی دیتے ہوئے لازم ہے۔ یہ لوگ ایک دن میرا مقام جان ہی جائیں گے۔”

اردو کے ایک معاصر کہانی نگار کی نوبل انعام وصول کرتے ہوئے تقریر  سے اقتباس (عالم رویا کی واردات)