ہمیں ملالہ نہیں ، تعلیم عزیز ہے

ہمیں ملالہ نہیں، تعلیم عزیز ہے

از، قاسم یعقوب

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب طالبان ابھی پاکستان میں شدت پکڑ رہے تھے۔ یہاں واضح طور پر دو طرح کے نظریے جنم لے رہے تھے۔ ایک طالبان کی حمایت کر رہا تھا اور دوسرا کھلم کھلا انھیں دین اور معاشرے کی صحت مند سرگرمیوں کے خلاف ایک رکاوٹ تصور کر رہا تھا۔ پہلا طبقہ مضبوط تھا اور زیادہ بھی مگر دوسرا طبقہ ابھی کمزور تھا اور اقلیت میں بھی_____رفتہ رفتہ جب طالبان کے حمایتی طبقے کو حزیمت کا سامنا کرنا پڑا توطالبان کی فکری اور فلسفیانہ حمایت شروع کر دی گئی۔ کیوں کہ طالبان مخالف طبقہ اپنے موقف کی دلیل میں فکری اور سماجی فلسفے کو آڑ بناتا آ رہا تھا۔ انھی دنوں ایک طالبان حمایت دانش ور نے ایک تقریب میں نہایت بلند بانگ انداز سے کہا تھا کہ ’’طالبان لاکھ برے ہوں اُن کا عمل لاکھ شدت پرست ہو، اُن کی سٹریٹجی احمقانہ اور بھٹکی ہوئی ہو مگر ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ وہ خطے میں ایک سپر پاور سے لڑ رہے ہیں۔ وہ درپردہ ہمارے ہی مقاصد کے لیے اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اُنھوں نے ایک مضبوط اتحادیوں کے گروہ کو مصیبت میں ڈالا ہُوا ہے ۔ کون ہے جو اتنی بڑی طاقت سے نبرد آزما ہے۔ ہمیں کم از کم اس ایک نکتے کو سمجھتے ہوئے اُن کے اس ’کاز ‘کو اہمیت دینی چاہیے۔ اُن کی غلط حکمتِ عملی کو برا کہیں مگر اُن کے سامراج مخالف جنگ میں جاری خون کو بدنام نہ کریں۔‘‘ یہ دانش ور آج بھی اسی نظریے کے حامی ہیں اور طالبان کو صرف اسی ایک نکتے کی بنا پر ایک مقدس فرض کی تکمیل میں جاری جدو جہد کے لیے ’’رعایت‘‘ دیتے آ رہے ہیں۔ میں نے ملالہ یوسف زئی کی سولہویں سالگرہ پر اُس کی یواین او میں پُر وقار اور جرات مندانہ تقریر پر جب اُن سے پوچھاتو انھوں نے ملالہ کو Malala yousafzai bookامریکی ایجنٹ اور خطے میں سامراجی مقاصد کی ترجمان قرار دے کر ’’واجب القتل‘‘ تک قرار دے دیا۔ میں نے اُن سے سوال کیا کہ ملالہ کے ساتھ جو کاز لگاہُوا ہے وہ امریکی ایجنٹ بھی اگر کرے تو کاز کو بُراکیسے کہا جائے گا۔ یعنی تعلیم______عورتوں کی تعلیم_____تعلیم مخالف سوچ کو روکنے کی تحریک_____کیا اس کاز کوہمارے جیسے پسماندہ ملک میں ایک آواز بن کر اُٹھانا کوئی بری بات ہے۔ اگر امریکی بھی کر رہا ہے تو کیا نہیں ہونا چاہیے؟ وہ میری اس بات کو اپنی کسی دلیل سے رَد کرنا چاہ رہے تھے کہ میں نے اُن کی طالبان حمایت والی دلیل اُن کے سامنے پھیلا کر رکھ دی تاکہ وہ واضح طور پر اپنی بات کو یاد کر سکیں۔ مگر وہ ٹال مٹول کر کے رخصت ہو گئے۔
بات اصل میں یہ ہے کہ ملالہ یوسف زئی اتنی اہم نہیں جتنی اہم اُس کے ساتھ وابستہ ’کاز ‘ہے۔ خدا کے لیے ہم اس کاز کی اہمیت اور اس کو درپیش رکاوٹوں کو سمجھیں۔ تعلیم کی بنیادی اہمیت کا اندازہ جدید معاشروں سے پوچھیں۔ ہمیں اس کا اندازہ تب ہو گا جب ہم اس منزل سے آگے گزر جائیں گے۔ جس طرح کسی گاؤں میں کچی سڑک جب پختہ ہو جاتی ہے تو پھر اندازہ ہوتا ہے کہ کچی سڑک پر چلنا واقعی کتنا دشوار تھا اور کتنی دیر اُس مصیبت کے ساتھ بسر کر چکے ہیں۔ ملالہ یوسف زئی نے اُس وقت تعلیم اور اُس کی ضرورت پر آواز اُٹھائی جب سوات شدت پسندوں کے نرغے میں تھا۔ ملک کی افواج کو بھی مشکل وقت کا سامنا تھا۔ پورا ملک انتشار کا شکار تھا۔ طالبان تو کسی افراد کی طاقت سے زیادہ ایک سوچ کا نام ہے وہ تو کہیں بھی ، کسی کے ہاں بھی اور کسی وقت بھی پیداہو سکتی ہے۔ مگر ملالہ نے اس سوچ کے خلاف آواز اُٹھائی۔ سوات میں ملا فضل اللہ کا مکمل ہولڈ ہو چکا تھا۔ حتٰی کہ طالبان عدالتیں بھی کام کر رہی تھیں۔ سوات کے سکولوں کو رفتہ رفتہ تباہ کیا جانے لگاتھا۔ اگر ملا فضل اللہ امریکی ایجنٹ نہیں تھا تو انھیں ان سکولوں کی تباہی کو برملا اور سامنے آ کر تردید کرنی چاہیے تھی۔ وہ تو ایک سکول تباہ کرنے کے بعد اپنا اگلا پروگرام بتاتے رہے۔ایک ایک کر کے سینکڑوں سکول تباہ ہو گئے۔ تعلیم اور عورت کی تعلیم ممنوع قرار دے دی گئی۔ طالبان امریکہ کے دشمن ہیں ۔امریکہ نے ہر اُس آواز کو خوش آمدید کہا جو اُن کے مفادات کو بھی سہارا دے رہی تھی۔ اگر تعلیم کے خلاف کام کرنے والوں کے خلاف لڑنا ہمارامفاد تھا اورطالبان امریکہ کے بھی دشمن تھے تو ہماراکیا قصور نکلا؟ کیا ہم اُن بچوں ، اُن افراد اور اُن کی حمایت نہ کرتے جوہمارے سکولوں کی حمایت کر رہا تھا؟ یہیں سے فرق واضح ہوجاتا ہے کہ ہمیں اپنا کاز نہیں ہمیں وہ (طالبان) عزیز تھے جنھیں ہم ہی نے ایک عرصے تک بنائے اور سنوارے رکھا۔
کیا آپ اندازہ کر سکتے ہیں جب 30لاکھ مقامی آبادی ہجرت کر گئی ۔ آرمی کے سینکڑوں مجاہد سوات کے پُر خار پہاڑوں میں شہید ہو گئے۔ ملک میں بم دھماکوں کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا اور قتل و غارت کی اس جنگ میں کوئی بھی سکول اور تعلیم کو یاد نہیں کر رہا تھا۔ اُس وقت ایک بارہ ، تیرہ سال کی بچی اپنی تعلیم کے لیے ملک گیر تحریک کا آغاز کرتی ہے۔ موت اور شدت پسندوں کے خوفناک انجام سے بے خبر ہو کے وہ سوات کی بارود بھری گلیوں میں ٹی وی پروگرامز کے لیے انٹرویو دیتی ہے۔ اب آپ ایک دفعہ پھراُسے امریکی ایجنٹ تصور کر لیں مگر آپ کو بتانا ہو گا کہ کیا اُس کا کاز ٹھیک نہیں تھا؟ سکول کیوں تباہ ہوئے اور اُن کو تباہ کرنے والے مزید سکولوں کی تباہی کا عندیہ دے رہے تھے۔ وہ کوئی تردید نہیں کر رہے۔مگر ہم اُن کی صفائی پیش کر رہے تھے کہ وہ تو ایسا کام کر ہی نہیں سکتے۔ اس خوفناک فضامیں کون جنگ پر اپنے بچوں کو بھیجتا ہے اور کون سا بچہ اس جنگ میں توپ کا رُخا اپنی طرف کرتا ہے۔ ہم نے تو بڑے بڑے مل مالکان بھی دیکھے ہیں جو ایک دھمکی والی فون کال پر اپنے دفاتر بند کر کے روپوش ہو جاتے ہیں۔
ہمیں ملالہ سے زیادہ اُس کے ساتھ وابستہ تعلیم کا’ کاز‘ عزیز ہے۔ اُس کاز کی وجہ سے ہی ملالہ عزیز ہو گئی ہے۔ ہمیں سب کو تعلیم کے لیے باہر نکلنا ہو گا۔ وہ ماحول بنانا ہوگا جس میں کم از کم بنیادی تعلیم ہر بچے تک پہنچے۔ ہر بچہ اپنے حق اور فرض سے آگاہ ہو اور معاشرے کا کار آمد فرد بن کر ملک اور ان سوچوں کی آبیاری کر سکے جو محبت اور احترام کا درس دیتی ہیں۔ ہم کب تک ان چند افراد کے ہاتھوں انسان اور اُس کی انسانیت کی ’توہین ہوتے دیکھتے رہیں گے۔ ملالہ نے یواین او میں جو تقریر کی ہے آ ئیے ان نکات کو ایک بار پھر سن لیں:
۰ ’’ملالہ ڈے‘‘ صرف میرا دن نہیں بلکہ ہر اُس فرد کا دن ہے جس نے اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھائی۔ میں ان لوگوں کی آواز ہوں جن کی آواز کوئی نہیں سن رہا، وہ جو پُر امن ماحول میں رہنے اور تعلیم کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
۰ہمیں قلم اور کتاب کی اہمیت کا اندازہ بندوق دیکھ کر ہوتا ہے۔شدت پسند قلم کی طاقت، خواتین اور تبدیلی سے ڈرتے ہیں۔
۰طالبان ہماری آواز دبانے میں ناکام ہو گئے، اگر مجھے گولی مارنے والا سامنے بھی آیا تو میں اسے گولی نہیں ماروں گی، قلم اور کتاب دنیا کے سب سے طاقت ور ہتھیار ہیں۔
۰ایک طالب علم، ایک استاد، اور ایک کتاب دنیا بدل سکتی ہے۔ تمام بچوں کے لیے لازمی مفت تعلیم ہونی چاہیے۔میں ہر بچے کی تعلیم کے حق میں بات کرنے آئی ہوں۔ طالبان اور شدت پسندوں کے بچوں کو بھی تعلیم دینے کے حق میں ہوں۔ تعلیم ہی سب مسائل کا حل ہے۔ تعلیم ہی ہماری ترجیح ہو نی چاہیے۔
ان باتوں سے کس کو اختلاف ہو سکتا ہے۔ کیا ملالہ کے ساتھ وابستہ اس’ کاز‘ کو نظر انداز کردینا چاہیے؟ اور اپنے امریکہ مخالف جذبات کو تشفی دینے کے لیے اس کاز کو بھی رد کر دیں؟ ملالہ یوسف زئی نے اپنے چہرے کی قیمت دے کر تعلیم کو ایک ناگزیر ضرورت کے طور پر دنیا بھر میں اجاگر کر دیا ہے مگر ہم نے اس اہم مسئلے کو قومی سطح پر کسی اہم پیش رفت کے طور پر اپنانے کی بجائے طالبان حمایت فکر کے مقاصد کی تکمیل کو ضروری سمجھا۔ سوال یہ ہے کہ طالبان نے اگر سکول نہیں گرائے اور اگر یہ سکول امریکی ایجنڈوں نے گرائے ہیں تو اس کی تعمیر میں کتنے طالبان حمایتی نکلے ہیں اور کتنی تحریکیں امریکہ کے اس دوغلی پایسی کے خلاف نکالی گئی ہیں۔کتنے سکولوں کو طالبان حمایت فکر نے دوبارہ تعمیر کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا ہے۔ کیوں کہ تعلیم کا مسئلہ تو طالبان حمایت اور طالبان مخالف، دونوں کے لیے یکساں اہمیت رکھتا ہے۔
اصل میں یہ سارا مسئلہ ہماری فکری کج روی کے ساتھ جڑا ہُوا ہے۔ ہم ہر واقعہ کے پیچھے کسی نامعلوم اور کبھی معلوم عناصر کی سازش کو تلاش کرتے ہیں۔ ہمیں اس میں ایک اطمینان کا احساس ہوتا ہے اور یوں ہم اپنے آپ کو مظلوم قرار دے کر اپنی ذمے داریوں سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ہمیں ابھی تک یہ بھی نہیں پتا کہ سازش کیوں اور کیسے ہمیں انتخاب کرتی ہے۔ ہم ہی ہر سازش کا شکار کیوں ہوتے ہیں۔؟ملامہ کو بھول بھی جائیں تو تعلیم اور تباہ حال سکولوں کا نوحہ کون پڑھے گا؟ ادب، سیاست،دانش، سماجیت ، صحافت_____سب سے یہ سوال کیا جا رہا ہے اور سب خاموش ہیں۔شاید ہم ہی کسی سازش کا شکار تو نہیں۔ملالہ کے ساتھ بھی ہم نے اسی قسم کی سازش کر رکھی ہے اور اُس کے ’کاز ‘کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ مگر اُس کی ذات سے وابستہ یہ کاز ’تعلیم‘ کی ضرورت کا ’کاز ‘ہے اگر ہم نے اسے بھی اپنی ’’مذہبی جذباتیت‘‘ سے مملو فکر سے وابستہ کئے رکھا اور توجہ نہ دی تو دیر ہو جائے گی۔ اپنے اذہان کو جذباتی اور فکری تشفی سے بہرہ مند کرنے سے ہم تو مطمئن ہو جائیں گے مگر تاریخ اپنے فیصلے اپنی عدالت میں خود کرتی ہے۔

About قاسم یعقوب 69 Articles
قاسم یعقوب نے اُردو ادب اور لسانیات میں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے ماسٹرز کیا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل کے لیے ’’اُردو شاعری پہ جنگوں کے اثرات‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھا۔ آج کل پی ایچ ڈی کے لیے ادبی تھیوری پر مقالہ لکھ رہے ہیں۔۔ اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کے لیے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ قاسم یعقوب ایک ادبی مجلے ’’نقاط‘‘ کے مدیر ہیں۔ قاسم یعقوب اسلام آباد کے ایک کالج سے بطور استاد منسلک ہیں۔اس کے علاوہ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے وزٹنگ فیکلٹی کے طور پر بھی وابستہ ہیں۔

2 Comments

  1. قاسم آپ نے بہت اچھا لکھا ہے۔ آپ کی یہ تحریر نہاہت واضح موقف کو پیش کرتی ہے۔ بلاشبہ یہ تحریر ابہام سے پاک ہے۔ آپ نے درست کہا کہ ملالہ محض ایک کردار نہیں رہی بلکہ تعلیم اور فروغ تعلیم کی علامت بن گئی ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایک تنگ نظر طبقہ ملالہ پر ہونے والے حملے کو ڈرامہ کہتا ہے اور اسے مغربی طاقتوں کا ایجنٹ۔ حد تو یہ ہے اس طبقے کو جہالت، حقوق کی پامالی، جلائی گئی عورتوں کی لاشیں، کروڑوں کی تعداد میں تعلیم سے محروم بچے، منافقت، مذہب کے نام پر قتل عام اور نجانے کیا کیا کچھ قطعی نظر نہیں آتا۔ ہر ترقی ہر عقل پسندی کی بات حتی کہ سائنس کے پھیلتے آفاق، ٹکنالوجی کا انقلاب، نت نئے نظریات و خیالات کا فکری دائرہ سب کا سب مغرب کی سازش ہے۔ اب ہمارے پلے کیا ہے؟؟؟ یہ سب جانتے ہیں۔

Comments are closed.