بائیں بازو کے لائحۂ عمل کی بالیدگی

ایک روزن لکھاری
ایچ بی بلوچ، صاحب نگارش

بائیں بازو کے لائحۂ عمل کی بالیدگی

(ایچ بی بلوچ)

انسان بھی عجیب چیز ہے۔ جسے سمجھ سکنا آسان نہ ہو اس گمان کو مان لیتا ہے۔ اور جسے نہ ماننا چاہے دلیل پر دلیل گھڑتا جاتا ہے۔ ہونی کی تدبیریں اور انہونی کی تاویلیں… وہ سوچ سمجھ کر خود کو بے عیب نصیب کے حوالے سے پہچانے جانے کے روگ میں مبتلا ہے۔ لیکن سچ کو سچ سمجھنے سے سچ بولنا غیر معمولی ہوتا ہے۔ یہ یکسر حالات کو بدلنے کے لائق ہی نہیں بناتا بلکہ مزاحمت کے پس منظر کی تخلیق بھی کرتا ہے۔

یہ خیال نہایت عجیب ہے جب ہم سمجھ لیتے ہیں کہ ہم سچ کا ساتھ دے رہے ہیں، یا سچ بول رہے ہیں۔ ہم تو صرف اس سچ کے معتقد ہوتے ہیں جس کو اب تک صرف چند لوگ بول پائے ہیں۔ شاید جس کی ہم محض فکری قید کاٹ رہے ہیں۔ اگر ہم میں عملی سیاست کے شواہد ہر گز بھی نظر نہ آئیں
دور حاضر میں جس طریقے سے نسلی اور مذہبی اور قومی تفریق و منافرت کا اظہار جدید ہتھیاروں سے کیا جا رہا ہے۔

اس کے اثرات رابطے کے ذریعوں کے حوالے سے نہایت سریع الاثر ہوگئے ہیں۔ لیکن ہم عوامی طور رد عمل کے حوالے سے خالی ہوچکے ہیں۔ رابطے کے ذریعے اور ابلاغ عامہ نفسیاتی طور انسان کے جذبات کی سریعی نزول کا سبب بن جاتے ہیں۔ لوگ اپنے جذبات کی ثانوی اجارہ داری کے مرہون منت ایک تخیلاتی خلا کے اندر اپنے جذبات کا ازالہ اپنی ذاتی شخصی شعوری تربیت سے کرتے ہیں۔ جو ایک منظم سماجی جمود یا غیر ترقی یافتہ شعور کی تبلیغ و ترویج کا سبب بننا شروع کر دیتی ہے۔ یہ رجحان رجنیشی مراقبہ اور چین کے مراقبانہ طریقہ واردات کا نعم البدل محسوس ہوتا ہے جس میں انسانیت کو مجمع میں تکیہ کی طرح نوچا جاتا ہے۔

انسانوں کی وحشت جاندار سے زیادہ حیوانی اور بے ترتیب ہو چکی ہے۔ اس کے نمایاں اثرات اس کے معاشرتی زندگی میں دکھائی دیتے ہیں۔ جس کا اظہار ذاتی حاصلات مذہبی گروہی یا نسلی طور اس جبلت کا اظہار کرتے ہیں۔ جس میں انسان کے اعلی اخلاقی اقدار کی منہدم صورت کا اظہار ہوتا ہے۔ اس انسانی شکست و ریخت کے اثرات ان واقعات میں رونما ہوتے ہیں۔ جن میں ایک الگ سیاسی طور مذہبی نسلی اور گروہی دفاع کا منطق اپنے ماضی سے کچھ مختلف دعوٰی پر مبنی ہوتا ہے، جو نسلی طور ایک انتہا پسندانہ نسل کو افزائش کا سبب بنتا چلا جاتا ہے۔

جو اپنے ثقافت کا اظہار ایک نہایت جدید طرز پر استوار وحشت سے کرتا ہے۔ اور بالآخر عالمی طور پر معاشی سیاست کا جنگی آلہ بن جاتے ہیں۔ جس کا دفاع ان عالموں کی خاموشی کرتی ہے جو یا تو ان تبدیلیوں کو محسوس کرنے کے قابل نہیں ہوتے یا تو نئی نسل کی اس ثقافتی تبدیلی سے مرعوب ہوتے ہیں۔ جس میں نسلی اور مذہبی آبیاری کی خصلتیں ان کو مذہبی جمود سے باہر نکالنے کا سبب محسوس ہوتی ہیں۔

یہ کسی باشعور منظم مارکسسٹ تحریک کے عدم وجود کی بدترین وضاحت ہے۔ ہمارے پاس یا تو احتجاجی یا سالگرہ نما انقلابی رجحانات پائے جاتے ہیں۔ سیاسی حوالے سے عوامی غیر شناسائی تبدیلی پسند کا سیاست کا المیہ ہے۔ اکثریت میں ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں جن پر پردہ پوشی بہرحال ایک بدترین مصلحت کو جنم دے سکتی ہے۔

یہ ایک ایسا سوال ہے جو مقامی سطح کے لائحہ عمل کو جنم دیتا ہے۔ یہ عوامی سیاسی اداروں میں مداخلت کو فطری طور اس قابل نہیں بناتا کہ ان کی تشکیلی بورژوا بنیادوں کو اپنی انقلابی کلچر کے اثرات مجموعی طور چھوڑے۔ لیکن اس قابل ضرور ہوتا ہے یہ enterism اکثریتی کلچر کو قبول کرے۔ ہمیں یہاں پر مجموعی عوامی نفسیات کو قطعی طور پر نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ یہ بالکل اس طرح ہو کہ ان عوامی سیاسی اداروں کو اپنے اندر enterism کے مواقع تلاش کرنے چاہیں۔ مثلاً ہم کشمیر کے مسئلے کا حل انقلاب میں پیش کرتے ہیں تو ہمیں انقلاب کے مسئلے کا حل کشمیر کی تحریک میں حل کرنا چاہئے۔

دراصل بائیں بازو میں لائحہ عمل کی ساخت کلاسیک نوعیت کی ہے۔ شاید مقامی طور سیاسی لائحہ عمل کی لچک کو جدید سماجی نوعیت کی نفسیات میں ڈھونڈنے کو نامناسب یا مسلسل انقلاب کی منافی سمجھا جاتا رہا ہو۔ مگر یہ نفی اپنے اندر اثبات کی کئی فلسفیانہ دلائل ضرور رکھتی ہے۔ ہم اگر تاریخ کے حوالے سے فرد کے کردار کا انقلابی وضاحت کریں تو بہتر وضاحت یہ ہوگی کہ مجموعی طور پر فرد کے کردار کا دفاعی تعین یہی سیاسی اکثریت میں انقلابی مداخلت ہے۔ کیونکہ انقلابی تحریکیں فطری انقلابی رجحان کی حامل ضرور ہوتی ہیں مگر انقلابی شعور کی حامل ہر گز نہیں ہوتیں۔ اور انقلابی شعور کی وضاحت کو شخصیت پرستی کی حامل پارٹی میں روشناس کروانا اسی نکتے کا محرک ہوتا ہے۔

یہاں پر لیڈر شپ کے حوالے سے ایک مخصوص احتیاط سے کام لیا جاتا ہے۔ جس کا ازالہ سرمایہ دارانہ سیاست راتوں رات عوام کو بانٹنے اور بٹورنے سے کرتی ہے۔ درحقیقت یہی وہ مناسب موقع ہے جب سیاسی طور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے متبادل لیڈر شپ کی تعمیر ضرورت کا حصہ بن سکتا ہے۔

یہ ایسا سنگین خیال نہیں ہے کہ ہم انقلابی رجعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پر بحث نہ کریں، یا اس بحث کو رد انقلابی تصور کریں۔ یہ چند ایک ایسے نکات ہیں جن کو تاریخی طور پر کسی انقلابی تنظیم کا اندرونی مسئلہ تصور نہیں کرنا چاہئے۔ بلکہ کسی تنظیم کو اس قدر ذاتی نوعیت کا بھی نہیں ہونا چاہئے کہ وہ اپنے تعارف کو عوامی حدود سے پس پردہ رکھ سکے۔

جس طرح اسٹالنسٹ بیوروکریسی بنیادی طور پر خاندان سے شروع ہوتی ہے اور صرف خاندان پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ یہ مروجہ سماج کا مجموعی نفسیاتی اظہار ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح سماج سے بے حس علاحدگی کا جواز اس سے کوئی مختلف معنی نہیں رکھتا۔

ہم میں سے اکثر باشعور دوست کبھی بھی ایسی مزاحمت کے قائل نہیں رہے کہ ایک سوشلسٹ نظریات کو مقامی لائحہ عمل کے مطابق ایک سیاسی جڑت میں پرویا جا سکے۔ اکثر ہم ان سیاسی خدشات کا شکار رہتے ہیں کہ کوئی بھی سوشلسٹ سیاسی تنظیم شاید اپنے انقلابی نظریاتی محرک کا دفاع ہمیشہ نہ بھی رکھ سکے۔ اس تصور میں صرف ہمارے نظریات کے عدم اعتماد کے نفسیاتی اظہار کے علاوہ اس کی کوئی سائنسی وقعت نہیں۔ اس اندیشگی کا کوئی مثبت جواب کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔

یہ ہر دفعہ ضروری بھی نہیں کہ منصوبہ بند معیشت کسی فطری انقلابی واقعے یا تحریک کا انتظار کرے۔ ہمیں ہر اس سیاسی عمل کا خیر مقدم کرنا ہوگا جو بورژوا معیشت میں مداخلت سے عوامی شعور سے اپنا رشتہ استوار کر سکے۔ اور یہی ادراک اک منظم سیاسی اسباق کا درجہ اختیار کر جاتا ہے۔ درحقیقت فطری طور جدید لائحہ عمل کی بالیدگی اور وضاحت ایک ایسا سوال ہے جو موجودہ سیاسی پس منظر میں نئی وضاحت کا متقاضی ہے۔ اور شاید بائیں بازو کے سیاسی طور پس پردگی کی کا واضح جواب بھی۔