وطن پاکستان ، پر وفاداری سعودی عرب اور ایران سے

غریب کی جورو اور قومی کم مائیگی

ملک تنویر احمد، Malik Tanvir Ahmed
ملک تنویر احمد، صاحبِ مضمون

وطن پاکستان ، پر وفاداری سعودی عرب اور ایران سے

(ملک تنویر احمد)

یہ ملک بادی النظر میں محاورے والی’’ غریب کی جورو‘‘ سے بھی شاید گیا گزرا ہے۔ اردو محاورے میں استعمال ہونے والی غریب کی جورو اس لحاظ سے قدرے بہتر کیفیت کا شکار ہو کہ یار لوگ ٹھٹھے مذاق میں ہی سہی بھابھی جیسا رشتہ تو اس غریب کی جورو سے جوڑڈالتے ہیں لیکن روئے زمین پر پاکستان نامی اس ملک کو تو شاید’’ غریب کی جورو‘‘ سے بھی کمتر کی حیثیت و مرتبہ مل چکا ہے۔ اب یہ ملک کے دگرگوں حالات کا منطقی نتیجہ ہے کہ ہمسایہ ملک ایران نے بھی پاکستان پر کھلے بندوں حملہ آور ہونے کی دھمکی دے ڈالی اور ہم گو مگو کی کیفیت کا شکار ہو کر ایرانیوں کے منہ کی طرف تکے جا رہے ہیں۔

ایران اور پاکستان کے درمیان تناؤ اور کشیدگی اقوام عالم کے تعلقات کے باب میں کوئی ایسا نیا اور عجب واقعہ نہیں کہ بندہ اس پر حیرت و استعجاب کا شکار ہو جائے۔ دو ہمسایہ ممالک کے درمیان مختلف النوع تنازعات ابھرتے رہتے ہیں اور ان کے حل کے لئے سفارت کاری اور باہمی گفت و شنید کے میکنزم بروئے کار لائے جاتے ہیں لیکن اس طرح کھلم کھلا پاکستان پر حملہ آور ہونے کی دھمکی باعث حیرت ہے۔ اس خطہ ارضی پر پاکستان ایک عجیب و غریب ملک ا ن معنوں میں ہے کہ آج تک پتا نہیں چل سکا کہ یہاں پر بسنے والے حکمران طبقات کے افراد سے لے کر مذہبی طبقے سے منسلک افراد پاکستان سے زیادہ لگاؤ رکھتے ہیں یا ان کی وفاداری کے مراکز بیرون ملک ہیں۔

اب حکمران طبقات کے کردار و عمل کو ہی دیکھ لیں۔ وزیر اعظم نوا ز شریف اور ان کا خاندان سیاست اور حکومت کے لئے اس ملک کا انتخاب کرتا ہے لیکن کاروبار سے لے کر علاج اور جائیدادوں سے لے کر اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے بیرون ممالک کا انتخاب کرتا ہے۔ اپنی سیاست اور حکومت کے دوام اور طوالت کے لئے بھی انہیں سعودی عرب جیسے ممالک کی ضرورت ہوتی ہے اور سعودی شاہی خاندان کے اشارہ ابرو پر قومی غیرت و حمیت کو بھی قربان کرنے سے بھی نہیں کتراتے۔ سعودی عرب نے اپنی سربراہی میں ایک نام نہاد اسلامی فوجی اتحاد بنایا اور ہماری بری افواج کے سابقہ سپہ سالار راحیل شریف حکومت کی آشیر باد سے اسے کے سربراہ مقرر ہو گئے۔

اب اس اتحاد سے فرقہ واریت کی بو آئے یا نا آئے نواز لیگ حکومت کی بلا سے ۔آصف علی زرداری ایران سے پینگیں لڑائیں یا متحدہ عرب امارات سے اپنے ذاتی تعلقات کو اس سطح تک پہنچا دیں کہ یک جان د د قالب ہو جائیں ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن جب یہی تعلقات کسی اور ملک کو نالاں اور ناراض کر دیں تو طرز حکمرانی کے اندر اتنی عاقبت اندیشی اور فراست پنہاں ہونی چاہئے کہ وہ پاکستان کے مفادات کو ہی مقدم جانے اور ان تعلقات کو فقط اپنی ذات تک محدود رکھ سکیں۔ زرداری دور میں ہمارے سعودی عرب سے تعلقات کچھ ایسے ہی نچلی سطح پر تھے جیسے آج نواز دور میں ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات موجودہ وقت میں پائے جاتے ہیں۔نواز اور زرداری ایک جمہوری ملک کے جمہوری حکمران ہیں یا راجواڑے اور ریاستوں کے راجے اور نواب ہیں کہ جو مزاج یار میں آئے وہی کر گزریں۔

حکمران طبقات میں سیدی پرویز مشرف بھی شامل ہیں جو سات سمندر پار بسنے والے بش جونیئر سے تعلقات میں دو ممالک کے تعلقات سے زیادہ لنگوٹ بدل دوست کے موافق دکھائی دیتے تھے۔ اب اس لنگوٹ بدل دوستی سے پاکستان نے کیا پایا یہ کوئی ڈھکی چھپی داستان تو ہے نہیں کہ اس پر مزید حاشیہ آرائی کی جائے۔ اب مذہبی طبقے پر نظر ڈالتے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کے چاہنے والے کی اتنی کثیر تعداد مذہبی طبقے سے وابستہ ہے کہ اتنی تعداد تو پاکستان کے نصیب میں بھی نہیں ہے ۔ یہ مذہبی عناصر پاکستان کا کھاتے ، پیتے ، پہنتے ہیں۔یہاں اپنے واعظوں سے چار سو زمین کا سینہ تک دہلا دیتے ہیں لیکن ان کی ساری ہمدردیاں اس وقت پاکستان سے رخ موڑ کر سعودی عرب اور ایران کی جانب مڑ جاتی ہیں جب کبھی سعودی عرب و ایران اور پاکستان میں سے ایک انتخاب کرنا پڑ جائے۔

اب ایران کے ساتھ تازہ ترین کشیدگی کو ہی لے لیں۔پاکستان میں بسنے والے ایران کے  ہمدرد سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان معمول کے سفارتی تعلقات میں بھی ذرا سی گرمجوشی پر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور اس سے ایران کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن یہی عناصر اس وقت مہر بلب رہتے ہیں جب ایران بھارت کے مابین اس نوع کی شراکت داری پروان چڑھتی جو براہ راست پاکستان کے مفادات کو زک پہنچاتی ہے۔یہ کرم فرما ایران کے معاملے میں اس قدر جانبداری سے کام لیتے ہیں کہ پاکستان کے مفادات کا دور دور تک ان کے ہاں پتا نہیں ملتا۔ ایسے عناصر اور کچھ نہیں تو کم ا ز کم ایران حکام و عمال کے گوش گزار یہ تو کر سکتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ شراکت داری اور تعلقات کو پاکستان کے ساتھ تعلقات کی قیمت پر ہر گز نہیں ہونا چاہئے۔

سعودی عرب کے بہی خواہوں کی بھی کچھ یہی صورت ہے کہ انہیں فقط مملکت سعودیہ کے حکمرانوں کی خوشنودی مطلوب و مقصود ہوتی ہے ۔پاکستان کا مفاد ان کے لئے شاید ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ جب کبھی سعودی عر ب کا معاملہ درپیش ہوتا ہے یہ اپنی وفاداری کے اظہار کے لئے میدان عمل میں نکل آتے ہیں۔ یہ سعودی عرب سے ایسی شراکت داری پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتے ہیں جو سراسر سعودی عرب کے مفاد میں ہوتی ہے اور جس سے پاکستان میں فرقہ واریت کے جذبا ت بر انگیختہ ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

ایران اور سعودی عرب کے یہ حامی جس طرح پاکستان کی سرزمین پر ان دو ممالک کی پراکسی جنگ کو لانا چاہتے ہیں وہ اس ملک کو دار الفساد بنا دے گی لیکن ان تمام تر اندیشوں اور وسوسوں کے باوجود حامیان سعودی عرب اور ایران کھلم کھلا ان دو ممالک کے مفادات کو پروان چڑھانے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ ایران کے ساتھ محبت رکھنے والے اپنی محبت کے چند قطرے اس ملک کے لبوں پر بھی ٹپکا دیں کہ کم از کم اس ایرانی دھمکی ہی مذمت کر لیں جو ایرانی افواج کے سپہ سالار نے پاکستان کو دی ہے کہ آخر اس ملک سے بھی وفاداری کے کچھ تقاضے ہیں جو زبان و کردار سے اظہار کا جواز مانگتے ہیں۔ایران سے آپ کے مذہبی و مسلکی رشتے اپنی جگہ برقرار لیکن پاکستان سے محبت و وفاداری کسی جنس کا نام ہے جو کسی بازار میں نہیں ملتی بلکہ ملک پر کڑے وقت میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے وگرنہ بابا سب کہانیاں ہیں۔