جگہیں،چہرے ، یادیں اور خیال(سفر نامہ۔ تیسری قسط)

(نجیبہ عارف)

پہلی پہلی شامیں:
پروازہیتھرو ائر پورٹ پر اتری تو موسم ابر آلود تھا۔ پرواز بالکل وقت پر پہنچ گئی تھی،امیگریشن کاؤنٹرپر ایک مسکراتے ہوئے شخص نے استقبال کیا۔
یہاں کیوں آئی ہیں؟
ریسرچ کرنے۔
کہاں؟
لندن یونی ورسٹی میں،
اور رہیں گی کہاں؟
میں نے پتا بتایا۔
کس موضوع پر ریسرچ کر رہی ہیں؟
وہ بھی بتایا۔ میرا خیال تھا یوں ہی رسمی سوال ہوگا لیکن وہ تو موضوع میں دلچسپی لینے لگا۔
’’سفر نامے۔۔؟ مغرب کے؟۔۔۔۔ اور جو یہاں سے تمھارے ہاں گئے تھے، ان کے؟
میں نے ہنس کر کہا،’’ پھر تو اسکندر اعظم سے شروع کرنا ہو گا‘‘۔
’’جو بھی وہاں جاتا تھا واپس آنے کا نام نہیں لیتا تھا۔آخر کیا کشش تھی اس ملک میں؟‘‘
اس نے میرے پاسپورٹ پر مہر لگائی اور پھر مسکرا کر اردو میں بولا،
’’خدا حافظ‘‘۔
میں نے چونک کر اسے دیکھا اور اگلے مسافر کے لیے جگہ خالی کر دی۔
ٰ زینہ اتر کے نیچے آئی تو سامان بھی اپنی مخصوص بیلٹ پر پہنچ چکاتھا۔ سامان ٹرالی میں رکھا اور باہر کی راہ لی۔
لندن میں یہ میری پہلی شام تھی، بادلوں سے ڈھکی ہوئی، بھیگتی اور گہری پڑتی۔ گاڑی ایک گھنٹہ لندن کی شاہراہوں پر دوڑتی رہی اور میں اس شام کی خاموشی سے محوِ کلام رہی۔ طرح طرح کے خیال دل میں آتے رہے، نئی نئی تصویریں ذہن کے پردوں پر بنتی اور بگڑتی رہیں۔ Porsche کا شو روم دیکھا تو محمد یاد آگیا۔ وہ ہوتا تو کس قدر بے تاب ہو جاتا۔ بل بورڈ پرجدید فیشن کے لباس کا اشتہار دیکھا تو مومنہ کا خیال آیا، شاید اسے پسند آئے، سڑکوں کے کنارے فٹ پاتھ پر لگی سلیٹی رنگ کی بڑی بڑی ٹائلیں دیکھیں تو عارف کی وہ تصویر یاد آگئی جو شادی سے پہلے انھوں نے لندن سے بھیجی تھی ، جس میں وہ ایسے ہی ایک فٹ پاتھ پر کھڑے تھے، اور میں نے اس فرش کو کتنی محبت سے دیکھا تھا۔ پھر جب امی ابو کا گھر بننے لگا تو پورچ میں اسی اندازکی ٹائلیں لگوانے کے لیے مستری کو پنسل سے نقشہ بنا کر دیا تھا ۔ انسانی جذبات کیسے اس کی زندگی کا نقشہ بدل دیتے ہیں۔
یہ وہ لندن نہیں ہے جسے میرے تخیل نے ان دنوں تراش رکھا تھا جب عارف یہاں تھے اور میں اسے ان کی نظروں سے دیکھنے کی کوشش کیا کرتی تھی۔
وہ بھی نہیں ہے، جو میں نے اٹھارویں اور انیسویں صدی کے سفر نامے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔
لندن اب کوئی ایسا شہر نہیں لگ رہا جسے دیکھ کر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں۔ عام سا، درمیانے درجے کا شہر ہے،نہ نیویارک جیسے اونچے اونچے سکائی سکریپر ہیں، نہ جرمنی کی طرح غیر معمولی صفائی ستھرائی، نہ سٹاک ہوم کی طرح گلیوں میں بہتا ہوا سمندر، نہ استبنول کی طرح اونچی نیچی ، بل کھاتی سڑکیں۔ جدید عمارتیں کوئی ایسی خاص قابلِ دید نہیں ہیں کیوں کہ ایسی عمارتیں اب ہر ترقی یافتہ ملک کی سکائی لائن کاحصہ بن چکی ہیں اور پتھروں سے بنی ہوئی پرانی عمارتیں، گرجے، کیتھڈرل، حویلیاں کسی بھی اہتمام کے بغیر یوں کھڑی ہیں جیسے ا ب ان کی کوئی اہمیت نہ ہو، جیسے بعض جدید گھروں میں بزرگ، جو اپنی جائیداد بچوں کے نام کر چکے ہوں یا ریٹائرمنٹ کا سارا پیسہ استعمال کر بیٹھے ہوں ، اپنے شاندار ماضی کی یادگار کی صورت موجود تو ہوتے ہیں لیکن اپنی تمام تر دانش، تجربے اور علم کے باوجود، غیر اہم، متروک اور کونے سے لگے ہوئے۔ان پرانی عمارتوں کے سامنے، آس پاس، چوکوں میں سجے ہوئے مجسمے البتہ ابھی بھی اپنی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں۔ لیکن یہ سب تو سنٹرل لندن کی باتیں ہیں، جہاں مجھے کل جانا ہے۔
ابھی تو میں ہیتھرو ائر پورٹ سے نکل کر ایسٹ لندن کی طرف جا رہی ہوں۔ عارف کے دوست شاہد بھائی اور ان کی بیگم سمیرا بھابھی نے مجھے ائر پورٹ سے لے کرمیری رہائش گاہ تک پہنچانے کی ذمہ داری اٹھا رکھی ہے۔ بیچ بیچ میں وہ دونوں مجھے اپنے کسی سوال سے متوجہ کرتے ہیں تو میں چونک جاتی ہوں۔ میرے دل و دماغ میں خیالات اور جذبات کا ہجوم ہے۔ آنے والے تین ساڑھے تین ماہ کے بارے میں امیدیں، خواب اور اندیشے، پیچھے رہ جانے والوں کی یاد، موسم کے اثرات اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تنہائی کا خوف اور کشش دونوں بیک وقت مجھے گھیر لیتے ہیں۔کئی برس بعد پہلی بار اتنے دن کی تنہائی میسر آرہی ہے، اچھا بھی لگ رہا ہے اور تکلیف دہ بھی۔
ابھی بار دگر یہ تجربہ ہونا باقی ہے کہ تنہائی انسان کے اندر ہوتی ہے، باہر نہیں۔یوسفی صاحب نے کتنی اچھی بات لکھی ہے، کہ انسان دراصل اتنا ہی تنہا ہوتا ہے جتنا تنہا وہ خود کوسمجھتا ہے۔ اور بعد کے تجربے کا حاصل یہ نکلاکہ لندن میں سب کچھ مجھے ملا ، اگر نہیں ملی تو تنہائی نہیں ملی۔بس خود اپنے ساتھ ہونے کی لذت حاصل نہ ہوئی۔ لندن ہروقت ایک آسیبی موجودگی کی طرح میری زندگی اور سوچ میں گونجتا رہا۔
دراصل لندن محض شہر نہیں، ایک طرزِ حیات ہے، ایک اندازِ فکر ہے، ایک قرینۂ زندگی ہے۔جب آپ لندن میں رہنے لگتے ہیں تو لندن بھی آپ میں آکر رہنے لگتا ہے۔کبھی لگتا ہے اس سے محبت ہو گئی ہے، کبھی لگتا ہے، محبت نہیں ہے، وقتی ابال ہے، دور جاتے ہی ٹھنڈا پڑ جائے گا اور کبھی لگتا ہے کہ یہ آپ کے وجود کا حصہ بن گیا ہے۔
لیکن یہ سب بھی بعد کی باتیں ہیں۔
پہلی رات دل کا گھبرانا اورکرنا فون ٹورنٹو سے ریحانہ کا، دونوں ہی باتیں عجیب تھیں۔ مجھے ہمیشہ سے اپنے نئے نئے تجربے کرتے رہنے کی عادت پر کچھ ایسا اعتماد سا رہا ہے کہ دل گھبرانے جیسی باتوں کی مجھے خود سے توقع ہی نہیں ہوتی، مگر واقعہ یہ ہے کہ لندن کی پہلی رات میرا بہت دل گھبرایا۔ جی چاہا کہ اڑ کر واپس اپنے کمرے میں، اپنے بستر پر پہنچ جاؤں۔ اسی گھبراہٹ میں میں نے’ فیس بک ‘ پر لکھ دیا کہ گھر یاد آرہا ہے اور چند لمحے بھی نہیں گزرے تھے کہ ٹورنٹو سے ریحانہ احمد کا فون آگیا۔ ریحانہ سے میری صرف ایک ملاقات ہوئی ہے اور بھی دو مہنے پہلے خیرپور کی کانفرنس میں۔ وہ ٹورنٹو سے اس کانفرنس میں شریک ہونے آئی تھیں۔ ان کے علاوہ ڈنمارک سے صدف مرزا، گلاسگو سے راحت زاہد اور ڈیوزبری سے غزل انصاری بھی تھیں۔ سب سے مل کر بہت اچھا لگا۔ ایک دوسرے کے فون نمبر لیے اور دوبارہ ملنے کے وعدے کیے۔ حالاں کہ سبھی کو معلوم تھا کہ اتنی دور دور رہنے والوں کا بار بار اتفاق سے ملنا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن اس روزفیس بک پر میرا پیغام پڑھتے ہی، ریحانہ نے مجھ سے لندن کانمبر لیا اور فوراً فون کر دیا۔ پھر دیر تک وہ میرا دل بہلاتی رہیں۔ ان کی یہ ادا اتنی اچھی اور غیر معمولی لگی، کہ دل واقعی بہل گیا۔بعض اوقات کسی کی چھوٹی سی مہربانی، ذرا سی دلداری بھی کتنی تقویت دیتی ہے، انسان انسان کا کتنا محتاج ہے اورخود مکتفی ہونا کتنی ناقابلِ رشک بات ہے، حالاں کہ ہم اکثر اسی منزل کی تگ و دو میں رہتے ہیں۔

نیو ائر نائٹ:
اکتیس دسمبر کی رات سرد اور تاریک تھی۔ لندن آئی (London Eye) کے ارد گرد متوالوں کا ہجوم دوپہر ہی سے جمع ہو رہا تھا۔ اسد، میرا خالہ زاد بھائی جو عمر میں مجھ سے اتنا چھوٹا ہے کہ مجھے بیٹوں کی طرح معلوم ہوتا ہے، اپنے نوجوان دوستوں کے ساتھ مجھے لینے آگیا۔
چلیں باجی، کہیں گھوم آتے ہیں۔
مگر اتنی سرد رات میں سنٹرل لندن جانے کی ہمت نہیں پڑی۔ اس لیے وہیں کسی قریبی ریستوران میں جا کر کھانا کھانے پر اکتفا کیا۔ اس کے دوستوں سے ملی، ان سے باتیں کیں، ان کے مستقبل کے پروگرام سنے اور پاکستان کی سیاست میں ان کی دلچسپی ملاحظہ کی۔ ان میں سے ایک دو تو آنے والے الیکشن میں عمران خان کی پارٹی کو وو ٹ دینے کے لیے خصوصی طور پر پاکستان جانے کا ارادہ رکھتے تھے۔وہ سب کے سب عمران خان کے پرجوش حامی تھے اور پاکستان کے مستقبل سے گہری وابستگی محسوس کرتے تھے۔ ان کی یہ امید ٹوٹ نہ جائے۔دل کی گہرائیوں سے میں نے دعا کی۔
یہ تمام نوجوان ذہین اور قابل ہیں۔ ان میں سے بیشتر اٹھارہ انیس برس کی عمر میں ایف اے ؍ ایف ایس سی کرنے کے بعد یہاں آئے تھے اور انھوں نے اپنی یونی ورسٹی کی تعلیم خود اپنی محنت کی کمائی سے حاصلؒ کی ہے۔مگر اس سفر کے دوران وہ مغربی معاشروں کی تہذیبی فضا سے اس قدر مانوس ہو گئے ہیں کہ اب پاکستانی معاشرے میں جذب ہونا انھیں ناممکن نظر آتا ہے۔
یہ نہیں کہ وہ اپنی تہذیب ، اپنی زبان، اپنی روایات سے باغی ہیں۔یہ بھی نہیں کہ ان کے خون سفید ہو گئے ہیں یا وہ دہریے یا کرسٹان ہو گئے ہیں، مگر انھیں پاکستان میں شادی کرنے سے خوف آتا ہے، وہ پاکستان کی معاشرتی زندگی کے جھمیلوں سے بیزار ہیں۔
اسدکی امی نے مجھے یہ ذمہ داری سونپی تھی کہ اسے گھر آباد کرنے کے فوائد پر لیکچر دیتی رہوں اور ہو سکے تو کہیں شاد ی کرنے پر بھی آمادہ کر لوں۔ اس لیے میں بار بار ان کے سامنے یہ موضوع چھیڑ دیتی تھی۔ مگرچند ایک کے سوا وہ سب کے سب اس معاملے پر متفق نظر آئے کہ شادی ضرور کریں گے مگر ضروری نہیں کہ کسی پاکستانی لڑکی ہی سے کریں۔ پاکستان جا کر بیاہ کرنے پر وہ ہرگز راضی نہیں ہوئے۔ ان میں سے کچھ کے سابقہ تجربات تلخ تھے، کچھ انھیں دیکھ کر عبرت پکڑے ہوئے تھے اور کچھ اصولی طور پر یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کی خاندانی زندگی میں کچھ فوائد بھی یقیناً ہوں گے لیکن منافقت، دکھاوا، بناوٹ اور ایک دوسرے کے معاملات میں غیر ضروری دخل اندازی نے زندگی کو جو رنگ دے دیا ہے وہ انھیں منظور نہیں۔
اس بارے میں ان سے خوب بحث مباحثہ ہوتا رہا۔لیکن یہ نوجوان بالغ نظر اور سمجھ دار نظر آئے۔ اگر چہ اپنی عمر کے تقاضوں کے تحت وہ ابھی مستقبل کے نقشوں کو پوری طرح سمجھنے پر تیا ر نہیں تھے۔ انھیں ابھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ ایک دو دہائیاں اور گزر جائیں گی تو انہیں اپنی زبان اور تہذیبی مظاہر کی یاد کچوکے لگانے لگی۔ وہ اجنبی ثقافت سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کرتے کرتے نڈھال ہو جائیں گے۔ زبان اور کلچر کی ہم آہنگی جو اس وقت انھیں بالکل بے معنی معلوم ہو رہی ہے، بڑھاپے میں لازمۂ حیات لگنے لگے گی۔
نوجوان اور خوش باش بے فکرے نوجوانوں کی اس ٹولی کے ساتھ ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر کھانا کھانے کا تجربہ بھی دلچسپ رہا۔ وہ کبھی کسی ویٹرس کو چھیڑتے، کبھی ادھر ادھر کے ماحول پر کوئی شوخ فقرہ کستے یا مجھ سے نظر بچاکر ایک دوسرے کو اشارہ کرتے تو میں بھی پردیسی ہونے کا میٹھا میٹھا غم بھول جاتی۔ رات گئے انھوں نے مجھے گھر چھوڑا اور خود شاید کسی اور پروگرام کی تکمیل کے لیے روانہ ہو گئے۔ بے چارے نیو ایر نائٹ کے اتنے گھنٹے مجھے کمپنی دینے میں برباد کر چکے تھے۔ مگر ان کی شائستگی اور خندہ پیشانی قابلِ داد تھی۔