ہمارے اندر کے وہ سفر جن سے بیرون بھی وابستہ ہوتا ہے

Yasser Chattha
یاسر چٹھہ

ہمارے اندر کے وہ سفر جن سے بیرون بھی وابستہ ہوتا ہے

از، یاسر چٹھہ 

اپنے قریبی لوگوں، جو طاقت اور پیسے میں بالا تر ہیں، ان کو تھوڑے سے فاصلے پر رہ کر دیکھتا رہتا ہوں۔

کافی طریقے سمجھ آتے رہتے ہیں۔ کافی سر بستہ راز اپنے آپ کو کھولتے رہتے ہیں۔

اوَّل تو وہ طاقت و دولت میں بالا تر لوگ، اپنے ہر قسم کے فعلوں، کارگزاریوں اور سر زد حرکتوں کو خوش صورت جواز دینے والے لوگ، اپنے ارد گرد جمع کرتے ہیں۔

ہاں البتہ، اگر کبھی کوئی غلطی، احساس نام کی الجھن پیدا کرنے میں کام یاب ہو جائے، کبھی اپنے کسی ڈراونے خواب کو اپنے کسی فعل سے وابستہ کر لینے کا امکانی موقع پا لیں تو اس کا ایسے ہی detox کیا جاتا ہے جیسے کسی مروڑ کا باعث بننے والے غذا، کسی کھائے پیے کا detox کیا جاتا ہے۔ تو ان احوال میں وہ ایسا کرتے ہیں۔

لیکن  اکثر دفعہ وقت کی چند اکائیاں گزرنے پر ان کی سوچ، فکر اور عمل کی default پوزیشن یعنی عین اُسی جگہ پر واپس لوٹ آتےہیں۔ ان پر کچھ گہرا، دیرپا اور پائے دار اثر نہیں ہو پاتا۔

اب تک مشاہدے، اپنے ارد گرد اور خود کو کھنگالنے کے بعد، اس عبوری نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بھلا انسان بننا بہت جد و جہد مانگتا ہے، بہت تسلسل مانگتا ہے، بہت ریاضت مانگتا ہے، اور اس کا بدلہ یقیناً مروَّج کرنسیوں میں بھی  نہیں مل پاتا۔

ایسی کیفیتوں کا مبادلہ ماپنے اور اس کا اجر و اثر خود میں سرایت ہوتے دیکھنے کے پیمانے بھی خود وضع کرنے ہوتے ہیں، اور وقت کے گزرنے کے اس سفر کا مسافر فرد ایسا کرتا بھی جاتا ہے۔ آسے پاسے والوں کو سمجھ نہ بھی آئے تو وہ اس سے کم ہی سروکار رکھتے ہیں۔

ہمیں مختلف معاملات میں حقِّ انتخاب ضرور ملتا ہے گو کہ مشکل سے ملتا ہے۔ ہمیں بس اپنی default پوزیشن کے coordinates وضع کرنے کی اُجلتا، کھنگالتا، صفائی ستھرائی کرنے کی جہد کر لینی چاہیے، اور کرتے جانا چاہیے۔

میری بات مشکل لگے تو کم از کم اس رفتار سے پڑھنے کی کوشش کیجیے جس رفتار سے ہم تختی پر لفظ لکھتے تھے۔ مجھے ان نتیجوں پر پہنچتے پہنچتے بہت وقت لگا۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔