ہَمہ جہت تعلیم: کُل کے سیاق میں جُزو کا شُعُور 

شہر یار خان

ہَمہ جہت تعلیم: کُل کے سیاق میں جُزو کا شُعُور

از، شہر یار خان

جب انیسویں صدی کے جرمن فلسفی اور سفارت کار ولہم وان ہمبولٹ کو جدید یونی ورسٹی کی فلسفیانہ اساس پر رپورٹ لکھنے کو کہا گیا تو انہوں نے اپنی رپورٹ کا آغاز اس دلیل سے کیا کہ علم کے تین پہلو ہیں جو آپس میں منطبق ہیں:

اوّل، کائنات کی حقیقت کو جاننے کی جستجو (یہ پہلو سائنسی علوم سے متعلقہ ہے۔)

دوم، ایک انصاف پسند معاشرے کا قیام (اس کا ربط اخلاقیات اور سیاسیات سے ہے۔)

سوم، پہلے دونوں پہلوؤں کا کسی اعلیٰ سطح پر انضمام۔

ہمبولٹ کے خیال میں، یہ انضمام حاصل کرنے کے لیے اس امر کا یقینی بنانا ضروری ہے کہ سائنس کی سچائی کی تلاش، معاشرتی اور سماجی انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔ سائنس اور معاشرے کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا اور ان کو ضم کیے جانے کی ضرورت ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ انضمام کیسے ممکن بنایا جائے؟ہمبولٹ کہتے ہیں کہ ابتدائی اور ثانوی درجے کی تعلیم صرف بنیادی مہارت اور ہُنر سکھاتی ہے، اور علم کی مختلف شاخوں کے ما بین ربط کی وضاحت نہیں کرتی۔ ایک ایسا ادارہ ہونا چاہیے جو یہ ربط پیدا کر سکے، اور اس ربط کی نوعیت کی تشریح بھی کر سکے۔

اِن کے خیال میں یونی ورسٹی وہ ادارہ ہے جو علم کی مُتَنوِّع جِہتوں کو یک جا کرتا ہے، اور مُتَعلِّم کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ زندگی کی کوئی جامِع تعریف کر سکے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہمبولٹ کے خیال میں یونی ورسٹی کا کردار فکری، یا فلسفیانہ ہے جو علم کی مختلف شاخوں کا اعلیٰ سطح پر انضمام کرتی ہے، اور ان کے ما بین تعلق کی تشریح کرتی ہے۔

علم محض سچائی کی دریافت نہیں اور نہ ہی یہ صرف انصاف اور اخلاقیات کے ضابطوں کی تشکیل ہے؛ بَل کہ، ان دونوں کا اس طرح سے الحاق ہے کہ ایک کی جستجو دوسرے کا انکار نہیں۔ علم کی یہ تعریف سچائی کی تلاش اور افراد کی کردار سازی کو لازم و ملزوم قرار دیتی ہے۔

علم وہ ہے جو کائنات کی تشریح کرنے کے ساتھ ساتھ، مُتَعلِّم کو اس قابل بنائے کہ وہ انصاف اور اخلاقیات پہ مبنی معاشرے کے قیام میں اپنا کردار ادا کر سکے۔

 بیسویں صدی میں ٹالکاٹ پارسن کے معاشرتی ماڈل نے ہمبولٹ کے نظریے کی جگہ لے لی۔ ٹالکاٹ پارسن امریکی ماہرِ عمرانیات تھے جنہوں نے معاشرتی عَوامِل کی میکانیاتی تشریح کی۔ اِن کے خیال میں معاشرہ ایک مشین کی مانند ہے، اور اس کو میکانیاتی اصولوں پہ چلایا جانا چاہیے۔ ایک مشین کو ہمیشہ کار کردگی کے لحاظ سے پرکھا جاتا ہے اور کار کردگی کم سے کم input اور زیادہ سے زیادہ output کا نام ہے۔ یعنی ایک مشین کی کار کردگی اس وقت تسلی بخش قرار پائے گی اگر وہ کم وسائل کو استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ پیداوار دے۔

اگر معاشرہ ایک مشینی نظام ہے تو فرد کا کردار ایک پرزے کا ہے۔ جس طرح ایک مشین میں مختلف پرزے اپنا اپنا مخصوص فعل سَر انجام دیتے ہیں، اسی طرح افراد کا بھی معاشرے میں ایک محدود اور مخصوص کردار ہے۔ مشین کو کار کردگی کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے، اسی طرح ایک معاشرے کو بھی اسی پیمانے پر جانچا جائے۔

کار کردگی کا یہ اصول اخلاقیات اور انصاف سے متعلق نہیں، اور نہ ہی افراد کے کردار کی تشکیل اس کا مقصد ہے۔ اس طرزِ فکر کے حامل معاشرے میں علم، سچائی اور انصاف کے انضمام کا نام نہیں۔ اس کے بر عکس اس معاشرے میں دونوں کو ایک دوسرے سے الگ سمجھا جاتا ہے۔

تعلیم کا مقصد ہنر اور تکنیکی مہارت سکھانے تک محدود ہے، اور کردار سازی اس کے دائرۂِ کار سے باہر ہے۔ سچائی کی جستجو کا ما حاصل بھی معاشرتی مشین کی کار کردگی بہتر کرنا ہے۔ کوئی بھی سچائی جو کار کردگی کو متاثر کرے، اسے رد کر دیا جاتا ہے۔ ٹالکاٹ پارسن کے اس ماڈل کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام کی منطق ہے، اور یہ انہِی اصولوں پر قائم ہے۔

ہم ٹالکاٹ پارسن کے معاشرتی ماڈل میں زندہ ہیں جس میں علم کسی مخصوص شعبہ میں مہارت کا نام ہے۔ یونی ورسٹی اب ایک ایسا ادارہ نہیں رہا جو علم و ہنر کی متَنوِّع شاخوں کو ایک فلسفیانہ اکائی میں ڈھال سکے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا علم کو مہارت، یا ہنر تک محدود کیا جا سکتا ہے یا کیا جانا چاہیے؟ علم کی اصل روح کیا ہے؟ کیا ہم کسی ایسے شخص کو صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ کہہ سکتے ہیں جس نے تعلیمی اداروں میں چند نصابی کتب کا امتحان پاس کیا، یا کسی مضمون کی کسی ایک جِہت پہ تحقیق کی؟ علم کو مہارت اور ہنر تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔

کسی فرد کا وُجُود اس کے سماجی، تاریخی، سیاسی اور ثقافتی پسِ منظر سے جڑا ہوتا ہے، اور اس کے علم کو ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنا چاہیے۔ جب علم کو چھوٹی چھوٹی اکائیوں میں تقسیم کر دیا جائے تو متَعلِّم اس پسِ منظر سے کٹ جاتا ہے۔ اس کے اندر متَنوِّع عَناصِر و عوامِل کے ما بین ربط قائم کرنے کی اہلیت پیدا نہیں ہوتی اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ چیزوں کو ان کے صحیح تناظر میں نہیں دیکھ پاتا۔

جب ہم معاشرے کو ایک مشین کے استعارے کے طور پہ دیکھتے ہیں اور علم کو مہارت و ہنر تک محدود کر دیتے ہیں تو ہم تاریخی، سماجی، معاشی اور ثقافتی شعور سے بے بہرہ ہو جاتے ہیں۔ لیبارٹری میں کام کرنے والا سائنس دان یہ سمجھنا شروع کر دیتا ہے کہ اس کا مقصد صرف سائنسی تحقیق ہے، اور سماجیات و سیاسیات سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں۔ لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟ مثال کے طور پر اگر کوئی معاشرہ مادیت پرستی کے اصول پر قائم ہو تو ایک ایسا سیاسی نظام تشکیل پائے گا جس میں سیاسی طاقت کارپوریٹ طبقے کے ہاتھ آ جائے گی۔ یہ طبقہ سائنس کی اس تحقیق میں سرمایہ کاری کرے گا جس سے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کیا جا سکے۔

لیبارٹری میں کام کرنے والا سائنس دان یہ نہیں جان پائے گا کہ اس کی تحقیق علم کے فروغ، یا انسانیت کی فلاح کے لیے نہیں، بَل کہ، ایک مخصوص طبقے کے مفادات کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ جیسا کہ سائنس دان کی مہارت اس کے متعلقہ شعبے تک محدود ہے چُناں چِہ وہ اپنی تحقیق کے سیاسی، سماجی اور اخلاقی پہلوؤں سے یَک سَر نا واقف ہو گا۔ اس کی محدود مہارت نے اسے اس قابل نہیں بنایا کہ وہ اپنی تحقیق کو سماجی، سیاسی، تاریخی اور اخلاقی تناظر میں دیکھ سکے۔

اس کا نتیجہ سچائی (سائنس) اور انصاف (سیاست اور اخلاقیات) کی علیحدگی کی صورت میں سامنے آئے گا؛ کیوں کہ اب سائنس دان کا سماجیات و اخلاقیات سے کوئی سر و کار نہیں، چُناں چِہ وہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنائے گا۔ یہ نہیں سوچے گا کہ اس کی تحقیقات ماحول کو کیسے نقصان پہنچا رہی ہیں۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھ میں ایک کَٹھ پُتلی بن کے رہ جائے گا۔ غرض یہ کہ اس کا علم انسانیت کی فلاح کی بَہ جائے، اس کے خلاف استعمال ہو گا۔

کار کردگی کے اصول پر قائم تعلیمی نظام کے دو مقاصد ہیں۔

اوّل، اس طرح کی تعلیم کسی مخصوص شعبے کے ماہرین پیدا کر کے نظام کی کار کردگی کو بہتر بناتی ہے۔

دوئم، اس طرزِ تعلیم میں تعلیم حاصل کرنے والا اپنے سماجی، تاریخی، سیاسی اور ثقافتی پسِ منظر کا شُعُور نہیں رکھے گا، اور نظام کی نظریاتی اساس پہ کبھی سوال نہیں اٹھائے گا۔ سیاسی اور تاریخی شُعُور سے بے بہرہ افراد ہی اس نظام کے لیے ہر لحاظ سے فائدہ مند ہیں۔

ہمبولٹ اور پارسن کے نظریات کے تقابلی جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ علم کی موزوں تعریف ہمبولٹ نے کی ہے۔ علم ہَمہ گیر اور جامِع ہے نہ کہ جُزویاتی۔ صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ شخص وہ ہے جو اپنے شعبے کے ساتھ ساتھ اپنے سماجی، معاشی، تاریخی، سیاسی اور اخلاقی پسِ منظر سے بھی آگاہی رکھتا ہے۔ وہ بَہ ظاہر متضاد نظر آنے والے عوامِل میں چھپا ربط دیکھ سکتا ہے۔ وہ نہ صرف اپنے معاشرے کی تاریخ کا شُعُور رکھتا ہے، بَل کہ، اس کی نظر ساری انسانیت کے ارتقاء پر بھی ہے۔

اس طر ح کا علم اس کے اندر تنقیدی طرزِ فکر پیدا کرتا ہے اور اس کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ پروپیگنڈہ اور حقائق میں امتیاز کر سکے۔ اس سے یہ مُراد نہیں کہ طالبِ علم اپنا شعبہ چھوڑ کر دوسرے شعبہ جات کا مطالَعَہ شروع کر دیں۔

برٹرینڈ رسل کے مطابق تعلیم کے دو پہلو ہیں: پیشہ ورانہ دل چسپی اور ثقافتی قدر۔

پیشہ ورانہ دل چسپی سے مراد اس مضمون کو با قاعدہ طور پر ڈگری کے حصول کے لیے پڑھنا ہے؛ جب کہ ثقافتی قدر سے مراد اس شعبے کا بنیادی علم ہے۔ طالبِ علم کی پیشہ ورانہ دل چسپی کا شعبہ کوئی بھی ہو، اس کے لیے دوسرے مضامین کا بنیادی سطح کا علم بھی حاصل کرنا ضروری ہے؛ یعنی ایک طالبِ علم اپنے مضمون کے ساتھ ساتھ دوسرے مضامین کا بنیادی علم بھی حاصل کرے۔ اسی صورت کسی کو تعلیم یافتہ اور با شعور کہا جا سکتا ہے۔

ہمارے تعلیمی نظام کا یہی مقصد ہونا چاہیے۔ لیکن اگر نظام موجود نہیں تو ہمیں خود کوشش کر کے اپنے اندر یہ تنقیدی طرزِ فکر پیدا کرنی چاہیے۔ ایک طرح کے با شُعُور اور با خبر عوام ہی دنیا کو ظلم اور جبر سے بچا سکتی ہیں۔


شہر یار خان، انگریزی ادب کے استاد ہیں اور نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگیویجِز میں پی ایچ ڈی سکالر ہیں۔