ماہ مقدس میں حکمران خاندان کی آزمائش

ملک تنویر احمد، Malik Tanvir Ahmed
ملک تنویر احمد، صاحبِ مضمون

ماہ مقدس میں حکمران خاندان کی آزمائش

(ملک تنویر احمد)

اس ماہ مقدس میں خود ساختہ پارسائی اور نیکوکاری کا مجسم حکمران خاندان ایک کڑی آزمائش سے دوچار ہے۔اس ماہ مقدس میں ایک عام شخص مجاہدے، ریاضت اور نفس کشی کے کٹھن مراحل سے گزر کر قرب الہی کے لئے جدو جہد کرتا ہے تاہم حکمران خاندان کے لئے اس ماہ میں آزمائش پانامہ لیکس کی وہ تلوار ہے جو دن بدن دو دھاری تلوار بنتی جا رہی ہے۔ بیس اپریل کے عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں جس جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کو حکمران خاندان سے تفتیش اور تحقیقات کا ٹاسک دیا گیا تھا وہ اپنے تمام تر اختیارات کے سا تھ فعال ہے۔اس فعالیت کا ہی شاخسانہ ہے کہ حکمران خاندان کے ترجمان اب اس تحقیقاتی ٹیم کے درپے ہو کر اس پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔

شریف خاندان کے لئے یہ انتہائی نازک اور سنگین صورت حال ہے ۔تین عشروں سے رمضان کا مقدس مہینہ شریف خاندان کے لئے ایک انتہائی سودمند مہینہ اس لحاظ سے رہا کہ اس مہینے میں وہ اپنی پارسائی اور پر ہیز گاری کے نئے نئے لبادوں کے ساتھ قوم کے سامنے جلوہ گر ہوتے نظر آئے۔ ہر رمضان میں مقامات مقدسہ کی حاضری بلا شبہ ایک سعادت ہے لیکن اس خاندان نے اسے بھی سیاسی مقاصد کی آبیاری کیلئے خوب استعمال کیا۔ حکمران خاندان کے افراد کی مقامات مقدسہ کی زیارت اور حاضری کی تصاویر کو جس طرح کوریج دی جاتی ہے وہ پاکستانیوں کے ذہنوں پر اثر انداز ہو کر کچھ ایسا تقدیس بھرا ماحول پید ا کریں جہاں اس خاندان کے افراد ازمنہ قدیم کی ان نیک روحوں کی طرح قرار پائیں جو سر تاپا مجسم پارسائی تھے۔

یہ صورت حال فقط حکمران خاندان کے افراد تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ حکمران جماعت کے بیشتر افراد اس ماہ میں حرمین شریفین کی پر نور فضاؤں میں سانس لینے کے لئے روانہ ہو جاتے ہیں۔ بلاشبہ مقامات مقدسہ کی زیارت ایک نیک اور ارفع عمل ہے جس کی آروز اور طلب میں ہر مسلمان کا دل مچلتا ہے تاہم حکمرانوں کے لئے ان مقامات مقدسہ کی زیارت سے بڑے امور اس مخلوق کی بھلائی اور بہبود کی صورت میں موجود ہیں جو ان کی حکمرانی میں تکالیف، مصائب اور آلام کی بھٹی میں جھلس رہے ہیں۔ گزشتہ برسوں کے برعکس اس برس ایک قطعی طور پر مختلف صورت حال شریف خاندان کو درپیش ہے۔ گزشتہ برس پانامہ لیکس سے اٹھنے والا طوفان اس خاندان کو مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔

اگرچہ بیس اپریل کے فیصلے نے انہیں فوری نااہلی کے گڑھے میں دھکیلنے سے بچ لیا ہے تاہم جس طرح تحقیقاتی ٹیم حکمران خاندان کی بیرون ملک جائیدادوں اور اثاثوں کی جانچ پڑتال کے لئے کام کر رہی ہے وہ شریف خاندان کے لئے کسی بڑی آزمائش کے پیش خیمے سے کم نہیں ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز اس ٹیم کے سامنے پیش ہو چکے ہیں اور اس ٹیم کے کنڈکٹ پر بھی اعتراض اٹھا چکے ہیں جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ شریف خاندان کے افراد کو اس ٹیم کی فعالیت سے فکر مندی دامن گیر ہو چکی ہے۔ شریف خاندان کی یہ خوش قسمتی رہی ہے کہ انہیں ماضی میں عدالتوں سے با رہا ریلیف ملتے رہے اور اس میں سب سے بڑا دخل ان کی قوت خرید تھی جس کے باعث ان کی رسائی میڈیا سے لے کر عدالت کے ججوں تک رہی۔

فرینڈلی ججز کی ایک طویل فہرست ہے جو شریف خاندان کے ہر آڑے وقت میں سد سکندری ثابت ہوئے ۔ بعد ازاں حکمران خاندان نے ان ججوں کو جہاں مالی طور پر منفعت پہنچائی تو دوسری جانب انہیں ریاست اور حکومت کے اعلیٰ ترین عہدوں پر بھی نامز د کیا۔ مملکت کے سب سے بڑے عہدے صدر پاکستان سے لے کر صوبائی گورنروں کے عہدوں پر ایسے جج صاحبان متمکن ہوئے جو شریف خاندان کے لئے ہر مشکل وقت میں ایک مسیحا کی طرح ابھرے۔ اپنے حریفوں کے خلاف فیصلے دلوانے میں بھی شریف خاندان کو جج صاحبان کی خدمات حاصل رہیں جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف فیصلہ دلوانے کے لئے ایک جج صاحب کا کردار اس خفیہ ریکارڈنگ کی صورت میں آشکار ہو چکا ہے کہ جس میں حکمران خاندان کا فرد ہر صورت میں اپنی مرضی و منشاء کا فیصلہ لینے کے لئے جج صاحب سے بے تکلفی سے مخاطب ہیں۔

بلا شبہ حکمران خاندان کے لئے پاکستان میں عدالتیں پھولوں بھری سیج ہی ثابت ہوئیں جب کہ ان کے حریفوں کے لئے یہ کانٹوں بھری راہ ثابت ہوئی جس پر چلتے چلتے نا صرف ان کے پاؤں شل ہوئے بلکہ ان کے سیاسی کیرئیر بھی نا کردہ گناہوں کے باعث داغ دا ر ہوئے۔ پانامہ کیس میں تحقیقاتی ٹیم کے خلاف بڑھتا ہوا غصہ اور اس پر عدم اعتماد کا اظہار اس بات کا برملا ثبوت ہے کہ شریف خاندان نے اس کی حدت کو محسوس کرنا شروع کر دیا ہے۔ جب نواز لیگی ترجمان بڑھ چڑھ کر اس تحقیقاتی ٹیم کے خلاف بیان دینے پر لگے ہوں تو پھر ایک سخت آزمائش کی نشاندہی ہوتی ہے جو شریف خاندان کو اس وقت درپیش ہے۔نواز لیگی ترجمان جب پانامہ کو سیاسی مسئلہ قرار دے کر اسے عدالتوں میں لے جانے کے خلاف بیان داغتے ہیں تو ان کے چہروں سے پریشانی اور فکر مترشح ہوتی ہے۔ ان کی زبان ان کی بدن بولی کا ساتھ دینے سے قاصر نظر آتی ہے اور واقعتاً ایک ایسی انہونی صورت حال کا شکار ہیں جو ماضی کے بر عکس قطی طور پر مختلف ہے۔اس ماہ مقدس میں جہاں پاکستانیوں کو لوڈ شیڈنگ، مہنگائی اوردوسری آزمائشوں کی صورت حال کا سامنا ہے، آسمانی قوتوں کے طفیل حکمران خاندان کو بھی ایک کڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑر ہا ہے۔

یہ بلاشبہ آسمان قوتوں کے دست غیبی کا ہی کرشمہ ہے کہ وہ خاندان جو اس ماہ مقدس میں خود ساختہ پارسائی کے نقوش ثبت کرنے کے لئے مقدس سرزمین کی جانب روانہ ہوتا تھا اب ایک کڑی آزمائش کی صورت میں ایک غیبی پھندے میں پھنستا چلا جا رہا ہے۔ شریف خاندان کے لئے اس گھمبیرتا صورت حال میں ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح، روایتی بجٹ کی دستاویزات، لوڈ شیڈنگ کے کھوکھلے دعوے اور معاشی ترقی کے خود ساختہ اعداد و شمار ایک بے کیف تجربات ثابت ہونے والے ہیں کیونکہ ’’سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا‘‘۔