امام غزالیؒ اور چار طبقات انسانی: ہم کس گروہ سے ہیں؟

ملک تنویر احمد، Malik Tanvir Ahmed
ملک تنویر احمد، صاحبِ مضمون

تنویر احمد

امام غزالیؒ نے کرہ ارض پر بسنے والے انسانوں کو چا ر گروہوں میں تقسیم کیا۔اپنی مشہور زمانہ تصنیف ’’کیمیائے سعادت‘‘ میں وہ ان چار انسانی گروہوں کے بارے میں وہ رقم طراز ہیں کہ انسانوں کے پہلے گروہ میں وہ افراد شامل ہیں جو سوائے کھانے، پینے اور دنیاوی عیاشیوں کے زندگی میں کچھ نہیں کر پاتے، ان کے بقول بنی نوع انسان میں دوسرا گروپ ایسے افراد پر مشتمل ہے جو جارح ہوتے ہیں، لوگوں کو دبانا اور ان پر ظلم ڈھانا ان کا شیوہ ہوتا ہے۔امام غزالیؒ کے مطابق انسانوں کا تیسرا گرو ہ ایسے افراد پر مشتمل ہے جن کا شعار فقط دھوکا دہی اور مکرو فریب ہے،امام غزالیؒ چوتھے گروہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ ایسے افراد پر مشتمل ہوتا ہے جو اعلی اخلاقی آدرشوں پر کاربند ہوتے ہیں جو اخلاقیات اور شائستگی کا پیکر ہوتے ہیں۔

امام غزالیؒ کی تشریح کردہ انسانی گروہوں پر پہلے ذرا نظر دوڑاتے ہیں۔پہلا گروہ جو کھانے پینے اور دنیاوی لہو و لعب میں مبتلا رہتا ہے ۔اگر ہم اپنے اوپر اس گروہ کی تعریف کو منطبق کریں تو پوری صادق آئے گی لیکن ’’یاران وطن‘‘ کی ناگواری سے بچنے کے لئے اسے غیروں پر ڈال دیتے ہیں حالانکہ اس سے یہود و ہنود اور غیر مسلموں کی صحت پر چنداں اثر نہ ہو گا۔ امریکی کلچر میں ایک محاورہ بہت عام ہے وہ ہے drink, dance & die ۔ امریکی بہت ہی ’’گندے لوگ‘‘ ہیں دنیاوی آلائشوں سے ان کا دامن داغدار ہے۔

کچھ ایسا یورپین کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ جو ’’مادیت پسندی‘‘ کی گندگی میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ دوسرے گروہ کو بھی ہم غیروں کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں ،امریکہ اور اس کے حواری ظالم اور جارح ہیں، ان کی جارحیت پسندی نے مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے، صیہونی اور ہندو سازشیں بھی اسی جارحیت پسندی کا شاخسانہ ہیں جو آئے روز ہمارے خلاف ٹنوں کے حساب سے مینوفیکچر ہو رہی ہیں(یہود و ہنود کے پاس شاید کوئی اور کام نہیں یا اتنے ہی ویہلے ہیں کہ ہم جیسی ’’قوم ‘‘ کے خلاف سازشیں بنتے رہتے ہیں)۔امامؒ نے تیسرے گروہ کے بارے میں لکھا کہ وہ دھوکا دہی اور مکر و فریب کے ہتھیاروں سے لیس ہوتا ہے ۔ اس تعریف کا اطلاق بھی ہم غیروں پر کر دیتے ہیں اور بقول ہمارے ’’محبان ملک و ملت‘‘ کے ان کے مکر و فریب کے تازیانے ہمارے وجود کو زخموں سے چورکر چکے ہیں۔اب آتے ہیں آخری گروہ پر جو بقول امام غزالیؒ کے اعلیٰ اخلاقی اصولوں اور نظریات کے علمبردار ہوتے ہیں۔یہ اعلیٰ اخلاقی اصول کیا ہیں پہلے ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

پیغمبر اسلامؐ کا ارشاد عا لیہ ہے کہ جیسے گرم پانی برف کو پگھلا دیتا ہے کچھ ایسے ہی خوش مزاجی گناہوں بندے کے گناہوں کو پگھلا دیتی ہے(طبرانی)
اللہ تعالی نرم مزاج بندوں سے محبت کرتا ہے اور ان کی مدد فرماتا ہے جبکہ غصیلے اور سخت مزاج اس کی مدد سے محروم رہتے ہیں (طبرانی)
ارشاد نبیؐ ہے کہ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں جو مسلمان کسی دوسرے شخص سے نہیں لڑتا، جو دوسروں کو اپنی زبان اور ہاتھ سے گزند نہیں پہنچاتاچاہے وہ اپنے موقف میں صحیح ہو وہ جنت میں جائے گا۔میں تم سے وعدہ کرتا ہوں جو شخص جھوٹ نہیں بولتاچاہے مذاق میں ہی یا دوسروں کو خوش کرنے کے لئے جنت میں جائے گااور میں تم سے وعدہ کرتاہوں کہ جو شخص خوش مزاج ہوگا اس کے لئے جنت میں اعلیٰ مقام ہوگا(ترمذی)
فرمایاؐ گیا مسلمان بھائی کو دیکھ کر خوشی سے چہرے پر تبسم لانا،اسے اچھائی کی باتیں بتانا،اسے برائی کے کاموں سے روکنا، اجنبیوں کو راہ دکھانے میں مدد دینا، راستوں سے پتھر ، کانٹے اور دوسری ایسی چیزیں ہٹانا جوچلنے والوں کے لئے آزار کا سبب بن سکتی ہیں یا گندی پھیلاتی ہیں اور پیاسوں کو پانی پلانایہ سب صدقہ ہیں(ترمذی)
مذکورہ بالا کچھ احادیث اس لئے یہاں رقم کی گئی ہیں کہ اسلام کے عظیم اخلاقی اصولوں کی کچھ جھلک دکھائی جائے اور امام غزالیؒ نے ایسے افراد کو ہی چوتھے گروہ میں ڈالا تھا جو ان اصولوں کی پاسداری کرتے ہوں۔ اب آےئے مملکت خداداد پاکستان کے مسلمانوں کی حالت پر جنہیں اس بات کو تو بہت زعم ہے کہ ’’ہم سا ہوتو سامنے آئے‘‘ ۔ زبانی جمع خرچ میں مستعد اور اسلام کے بول بالا کے لئے ہر وقت نعرہ زن اور،شریعت کا نفاذ جن کا مطالبہ اول ٹھہرتا ہے چاہے اس کے لئے ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے۔پاکستان کے معاشرے پر فقط نگاہ طائرانہ ڈالنے سے ہمارے دعوؤں کی قلعی کھل جاتی ہے کہ ہم مسلمانیت کے کتنے پانی میں ہیں۔ریاست کے شہری ہونے سے لے کر گھرتک انسانی رشتوں کے اخلاقی تقاضوں کو ہم کس حد تک نبھا رہے ہیں،بڑوں سے ادب اور بچوں سے شفقت کس حد تک ہمارے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اس کے تماشے چار سو بکھرے ہوئے ہیں،لڑائی جھگڑے، سر پھٹول، جوتم پیزار اب اس معاشرے کا خاصہ بن چکا ہے،مروت اور خوش مزاجی اب قصہ پارینہ بن چکے ہیں، سوک سینس (civic sense) اس معاشرے میں متروک ہو چکی ہے اس لئے ہمارے بازار، گلی، محلے، چوک، چوراہے گندگی اور تعفن کے ڈھیر بن چکے ہیں جب کہ فرمایا گیا کہ صفائی نصف ایمان ہے،جھوٹ۔ملاوٹ، بناوٹ، نمو د و نمائش، ریاکاری،غیبت گوئی، بہتان تراشی، چوری اور ان جیسی قباحتوں میں ہم بجا طور پر ید طولی رکھتے ہیں۔جو افراد ہر وقت شریعت کے نفاذ کے بخار میں مبتلا رہتے ہیں۔

ان کی فقط زندگیوں پر نظر دوڑا لیں تو ان کی اخلاص کے قلعی کھل جاتی ہے، اسلام اتحاد و اتفاق کی ترویج کرتا ہے یہ مسلک اور فرقے کی بنیاد پر مسلمانوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں، ان کی تحریر کردہ کتابیں اور لٹریچر فرقہ وارانہ نوع کا ہوتا ہے اور ایک دوسرے کے خلاف بغض و عناد ان کی تحریروں سے صاف چھلکتا نظر آتاہے۔ان کا کام فقط غیروں کو کوسنا ہے اور اپنی غلطیوں سے صرف نظر کرنا ہے ۔ہم پاکستانی مسلمان ااپنے ان رویوں سے مقدس تہواروں تک کو بخشنے کے لئے تیار نہیں۔ رمضان میں ان کی رگ لالچ و ہو س عروج پر ہوتی ہے۔ ماہ محرم میں ان کے رگ و پے میں فرقہ واریت کے جراثیم کلبلانے لگتے ہیں۔ سماجی برائیوں پر ہماری زبانیں گنگ اور معاشرے کو بدلنے کے لئے عزم و ہمت سے ہمارے روح و بدن عاری۔فقط دعوے جن سے آج تک کوئی بام عروج پر نہیں پہنچا تو ہم کیونکر اسے چھو لیں۔
امام غزالیؒ کے تعریف کردہ چوتھے گروہ کے معیار پر تو ہم پورا نہیں اترتے، باقی تین گروہوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ جو ہماری پارسائی کا بھرم کھولنے کے لئے اپنے بازو ہمارے لئے وا کئے ہوئے ہیں۔