متوازن غذا کی کمی: بچہ کند ذہن ہوتا نہیں، ہم بنا دیتے ہیں

ایک روزن لکھاری
عرفانہ یاسر

 عرفانہ یاسر

گلوبل نیوٹریشن انڈکس کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غذائی قلت کی وجہ سے 5 سال سے کم عمر کے 43.7 فیصد بچے جسمانی کمزوری کا شکار ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں بچوں کے قد عمر کے مطابق نہیں بڑھتے اور وہ ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔

غذا کی کمی کا شکار بچے الگ سے نظر آتے ہیں۔ وہ سست سست رہتے ہیں، کم سرگرمی دکھاتے ہیں، افسردہ نظر آتے ہیں، کمزور اور نحیف سے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی نشوونما بھی مناسب انداز سے بالکل نہیں ہو رہی ہوتی اور وہ دوسرے بچوں کی نسبت بہت منفی طور پر مختلف ہوتے ہیں۔ زندگی میں کچھ اعلی کام کرنے کی صلاحیت بھی ان میں کم ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ بچے جن کا تعلق پسماندہ یا دور دراز کے علاقوں سے ہوتا ہے جہاں ان کو مناسب خوراک نہیں مل پاتی وہ بچے اپنی پڑھائی میں بھی پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اسکول میں ان کی شخصیت پر کند ذہن ہونے کا لیبل چسپاں کر دیا جا تا ہے۔ لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ان کی اس کند ذہنی کا ذمہ دار کون اور کیا چیز ہے؟

غذائی قلت کی ذمہ داری ایک طرف تو بچے کے والدین اور دوسری سطح پر ریاست کی ہوتی ہے۔ یہی ہیں جو اپنے بچوں کو تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال کرتے ہیں یا پھر ان کا کند ذہن بناتے ہیں۔ یہ کسی طور پر کسی کی نظر لگنے کا یا کوئی بد روحوں کے اثر والا معاملہ پر گز نہیں ہوتا۔ جہاں غذائی قلت کی ایک وجہ خوراک کی مناسب مقدار کا نا ملنا ہے، تو دوسری بڑی وجہ غذا میں مختلف ضروری اجزا کا عدم توازن ہے۔ خوارک لیتے ہوئے کس چیز کو اپنی خوراک میں شامل کرنا چاہئے اور کس کو نہیں، اس اہم چیز کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔ غذا کی کمی کا آخری والا معاملہ تو ان گھرانوں میں بھی ہے جو اچھی غذا فراہم کرنے کی سکت تو رکھتے ہیں لیکن انہیں متوازن غذا کے تصور سے آگاہی نہیں ہوتی، یا اس معاملے کو وہ کتابی اور فضول قسم کی سائنس پرستی سمجھتے ہیں۔ اس موخر الذکر بات کے سلسلے میں ریاست ایک درجہ اور ذمے دار بن جاتی ہے کہ وہ وسیع پیمانے پر تشہیری مہمات کے ذریعے لوگوں کے اس غیر سائنسی اور غیر علمی رویے کی روک تھام کرے۔

بچوں میں غذائی قلت کا عمل ماں کے پیٹ سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ خواتین کو امید سے ہونے کی حالت میں انہیں خاص خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی خوراک میں فولاد، پروٹین، آئیوڈین، وٹامن اے، اور دیگراشیا ضروری ہوتی ہیں۔ خصوصاً مدتِ حمل میں خوراک میں اہم اجزا کی کمی سے پیدا ہونے والے بچے میں ذہنی اور جسمانی نقائص ہوسکتے ہیں۔ ان نقائص پیدا ہونے والے بچے کی جسمانی اور ذہنی نشونما پر فرق پڑ سکتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ماں کو مناسب خوراک میسر ہو۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی مناسب نشونما کے لئے ضروری ہے کہ اس کو کم از کم چھ مہینے تک ماں کا دودھ میسر ہو۔

بد قسمتی سے پاکستان میں ماؤں کا دودھ پینے والے بچوں کی تعداد میں کمی آ رہی ہے، اور پاکستانی مائیں ایشیا میں دودھ پلانے کی شرح میں سب سے پیچھے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ ماؤں کو مناسب طور پر اپنا دودھ پلانے کی آگاہی کا نہ ہو نا ہے۔ ڈبے کے دودھ کی عام دستیابی اور مناسب تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے گھریلو مائیں اپنا دودھ نہیں پلا پاتیں۔

پاکستان میں کام کرنے والی ماوں میں بھی دودھ پلانے کی شرح کم ہے۔ اس کی ایک وجہ ان کے کام کرنے والی جگہوں پر ڈے کیئر سنیٹرز کا نا ہونا ہے۔ جس کی وجہ سے بچہ اللہ کی اس نعمت سے محروم رہتا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تعداد میں دفاتر میں بچوں کے ڈے سینٹرز کے نہ ہونے کی وجہ سے ایک طرف تو ورکنگ مدرز کے لئے کام مشکل ہوتا ہے دوسرا اس کی وجہ سے بچہ ماں کے دودھ سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ اور تو اور پاکستان کی پارلیمنٹ میں کام کرنے والی خواتین اورارکان پارلیمنٹ عمارت میں ڈے کئیر سینٹرز کے قیام کی منتظر ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے پیپلز پارٹی کی مہرین رزاق بھٹو، اپنے کم عمر بیٹے کو گود میں اٹھائے پارلیمنٹ لے کر آئیں۔ خواتین ارکان نے غفلت سے بیداری کے لیے مہرین رزاق کے اس اقدام کو اہم قرار دیا۔ لیکن مسئلہ پھر بھی وہی کہ وہی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں تمام صوبوں میں بچوں کو ماں کا دودھ پلانے کا قانون موجود ہے جس کا مقصد ڈبے کے دودھ کے استعمال کو کم کرنا ہے۔ اور ماوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ لیکن ان قوانین پر کوئی خاطر خواہ عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ماں کے دودھ میں ایسی شفا ہے کہ بچہ نہ صرف بہت ساری بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے بلکہ آنے والی زندگی میں وہ دوسرے بچوں کی نسبت ذہنی اور جسمانی طور پر زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ وقت کا تقضا ہے کہ ہمیں اپنی آنے والے نسل کو نا صرف کمزوریوں اور بیماریوں سے بچانا ہے بلکہ انہیں صحت مند اور ذہین بنانا ہے۔ یہی پاکستان کا مستقبل ہیں اور ان کے لئے ایسا ماحول فراہم کرنا ہے کہ وہ اس دنیا میں ذہین کہلا کر پکارے جائیں نہ کہ کند ذہن۔ اور سب سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ یہ ہم بڑے ہی ہیں جو ان کی اچھی جسمانی اور ذہنی صحت کے ذمے دار ہیں۔

About عرفانہ یاسر 13 Articles
عرفانہ یاسر پچھلے ایک عشرہ سے زیادہ الیکٹرانک میڈیا انڈسٹری کے سر کردہ چینلوں، جن میں جیو نیوز اور ایکسپریس نیوز شامل ہیں، سے بطور نیوز ٹی وی پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ کچھ عرصہ وفاقی وزارت پلاننگ، ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارمز میں بطور میڈیا مینیجر کے فرائض ادا کرتی رہی ہیں۔ کچھ عرصہ فری اینڈ فیئر الیکشنز نیٹ ورک (FAFEN)میں بھی آئینی ترقی، گورننس اور پارلیمانی امور پر ریسرچ رپورٹ رائٹر کے طور پر کام کرتی رہی ہیں۔ ان دنوں اے آر وائی نیوز میں شعبہ حالات حاضرہ کے ایک پرائم ٹائم پروگرام کی پروڈیوسر کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔