سری دیوی اور ناسٹیلجیا کی موت

گل نوخیز اختر

سری دیوی اور ناسٹیلجیا کی موت

از، گل نوخیز اختر

15 سے 25 سال تک کی عمر خوشخبریوں سے لبریز ہوتی ہے۔ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں مجموعی طور پر اس عمر میں خوشگوار اطلاعات ہی موصول ہوتی ہیں مثلاً خالہ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے، چھوٹے ماموں کی شادی ہو گئی ہے، چاچو نے نیا گھر بنایا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس عمر میں کزنز ہوتے ہیں،  شرارتیں ہوتی ہیں، بے فکری ہوتی ہے،  محدود مدت کی لڑائیاں ہوتی ہیں اور ہر وقت زندگی کے ہونے کا احساس رہتا ہے۔ جونہی عمر 40 سے زیادہ ہوتی ہے،  اطلاعات کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ دوست، احباب، پیارے، رشتے ناتے بچھڑنے کی اطلاعیں معمول بن جاتی ہیں اور آئے دن کسی نہ کسی اندوہناک سانحہ کے بارے میں سننے کو ملتا ہے۔

80 کی دہائی میں سب سے زیادہ خوش قسمت وہ بندہ شمار ہوتا تھا جس کے گھر وی سی آر اور رنگین ٹی وی ہوتا تھا۔ جن کے گھر یہ نعمت موجود نہیں تھی، وہ وڈیو سنٹر سے کرائے پر لے آتے تھے اور پورا خاندان صحن میں بیٹھ کر فلم دیکھا کرتا تھا۔ ان دنوں پاکستانی فلم کیسٹ پر بہت کم دستیاب ہوتی تھی؛ البتہ انڈین فلموں کی فراوانی تھی۔ تکنیک کے اعتبار سے بھی چونکہ انڈین فلمیں زیادہ بہتر ہوتی تھیں، اس لیے سب کی ترجیح یہی فلمیں ہوا کرتی تھیں۔ اُس وقت کی جنریشن سری دیوی کے عشق میں مبتلا تھی۔ شاید ہی کسی کو علم ہو کہ اس دھان پان سی شرارتی اور معصوم شکل اداکارہ کا اصل نام ،اما ینگر ایاپن، تھا لیکن وہ سب کے لیے سری دیوی تھی۔

چاندنی‘ لمحے‘ جدائی‘ چال باز‘ مسٹر انڈیا‘ ناگن‘ گمراہ ‘ نگینہ‘ خدا گواہ اور لاڈلا جیسی فلمیں ریلیز ہوئیں تو ‘وی سی آر جنریشن‘ پاگل ہو گئی۔ یہ تب کی بات ہے جب جمعہ کی چھٹی ہوا کرتی تھی اور اتوار کو سکول اور دفاتر کھلتے تھے۔ جمعرات کے روز کچھ دفاتر اور تمام سکولوں اور کالجوں میں آدھی چھٹی ہوا کرتی تھی‘ یعنی تعلیمی ادارے اور دفاتر عموماً بارہ ایک بجے بند کر دئیے جاتے تھے؛ چنانچہ جمعرات کے روز عموماً کسی نہ کسی گھر میں کرائے کا وی سی آر بُک ہوتا تھا اور اور ایڈوانس بُک ہوتا تھا اور پہلی ترجیح سری دیوی کی فلم ہوتی تھی۔ وہ خوبصورت بھی تھی، چلبلی بھی اور نٹ کھٹ بھی۔ مجھے یاد ہے اُس دور میں ہر دوسرا نوجوان سری دیوی کے عشق میں مبتلا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ‘نیشنل‘ کا ٹیپ ریکارڈر سب کی جان ہوا کرتا تھا۔ ایک بٹن دبانے سے اس کا کیسٹ والا حصہ آگے کو کھلتا تھا اور پھر اس میں کیسٹ ڈال کر پلے کا بٹن دباتے ہی ‘’ہوا ہوائی‘‘ چل پڑتا تھا۔ ناممکن تھا کہ بارہ گانوں والی کیسٹ میں ایک دو گانے سری دیوی کی کسی فلم کے نہ ہوں۔ یہی وہ ناسٹیلجیا ہے جس نے آج سری دیوی کی موت کی خبر سنتے ہی دکھ میں مبتلا کر دیا۔

300 سے زائد فلموں میں نظر آنے والی سری دیوی کے جانے سے ایک دم وہ سارا منظر ذہن میں گھوم گیا ہے، جب اس بات پر آپس میں تحقیق ہوا کرتی تھی کہ جب سری دیوی گانے کے دوران رومانٹک ہو رہی ہوتی ہے تو کیا اس دوران ہیرو کے جذبات کو کچھ نہیں ہوتا؟ یاد کیجیے  جب ہم سری دیوی کی فلمیں دیکھا کرتے تھے تو مجال ہے کوئی سین مِس ہو جائے۔ یہ فلمیں آج بھی پوری ترتیب کے ساتھ ہمارے ذہنوں پر نقش ہیں۔ اپنی جسامت کی طرح پتلی آواز والی سری دیوی جب کسی سین میں منہ چڑا کر بولتی تھی تو فلم دیکھنے والوں کے چہرے بھی کھل اٹھتے تھے۔

1996 میں پتا چلا کہ اُس نے فلم پروڈیوسر بونی کپور سے شادی کر لی ہے۔ اس کے ایک سال بعد اس کی فلم ‘جدائی ‘ ریلیز ہوئی اور پھر وہ فلموں سے کنارہ کش ہو گئی۔ کافی عرصے بعد جب ایک شو میں اس کی انٹری ہوئی تو اب اس کی آواز کافی بھاری ہو چکی تھی لیکن اس وقت پتا چلا کہ وہ پھر سے فلموں میں آ رہی ہے۔ پرانے شائقین کے دل پھر سے دھڑک اٹھے۔ ‘انگلش ونگلش‘ اور ‘مام‘ میں اسے دیکھا تو ساری پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔ وہ اب ویسی نہیں رہی تھی لیکن اس سے کیا فرق پڑتا تھا… دیکھنے والے بھی تو ویسے نہیں رہے تھے۔ ہیروئین کی فلمی عمر بہت کم ہوتی ہے، لیکن یہ آج کا فارمولا ہے۔ سری دیوی نے طویل عرصے تک سکرین پر حکومت کی۔

جن دنوں سری دیوی کے چرچے تھے ان دنوں متھن چکرورتی بھی بطور ہیرو سکرین پر چھائے ہوئے تھے۔ دونوں میں محبت کے چرچے عام ہونے لگے۔ فلمی دنیا میں کسی نئی ہیروئین کا اچانک کسی ہیرو کے ساتھ افیئر ہو جانا نئی بات نہیں تھی۔ متھن اس وقت کا سپر سٹار تھا اور سری دیوی بھی اسے پسند کرتی تھی۔ 1985 میں دونوں کی شادی ہوئی جو زیادہ عرصہ چل نہ سکی اور محض تین سال بعد دونوں کا دل ایک دوسرے سے بھر گیا۔ اس سانحے نے سری دیوی کو اچانک سے ‘سمجھدار‘ بنا دیا۔ اسے پتا چل گیا تھا کہ بطور ہیروئین وہ تب تک ہی چل سکتی ہے جب تک شادی جیسے بکھیڑوں میں نہ پڑے۔ اگلے آٹھ سال اس نے اسی فارمولے پر عمل کیا اور اس عرصے میں طوفانی کامیابیاں سمیٹیں…

لیکن اب سکرین بدل رہی تھی، جدت آ رہی تھی، کچھ نئی اور خوبصورت ہیروئنز یکدم نمودار ہونا شروع ہو گئی تھیں لہٰذا سری دیوی کو بھی احساس ہو گیا کہ اب اسے بہرحال کوئی نہ کوئی مضبوط سہارا ضرور تلاش کر لینا چاہیے۔ انیل کپور اور سنجے کپور کے بڑے بھائی بونی کپور اُن دنوں فلم انڈسٹری کے پروڈیوسر کے طور پر سری دیوی کے کافی قریب تھے، اور اسے پسند بھی کرتے تھے۔ چوائس بری نہیں تھی لہٰذا سری دیوی کو بھی کوئی اعتراض نہ ہوا۔ یوں میاں بیوی کے رشتے کا آغاز ہوا جو سری دیوی کی موت تک برقرار رہا ۔ بونی کپور سے سری دیوی کی دو بیٹیاں ہیں ‘جھانوی اور خوشی‘۔

55 سال کی عمر میں ہمارے ناسٹیلجیا کی موت ہو گئی۔ سری دیوی ہمارے ماضی کی خوشگوار یاد تھی۔ اس کی فلمیں ہمیں پرانے رستوں کی طرح یاد تھیں۔ یہ اُن ہیروئینز میں سے تھی جنہیں 80 کی نوجوان نسل خوابوں میں دیکھا کرتی تھی۔ تب بھی آج کی طرح جب کسی کی شادی ہوتی تھی تو لڑکی کی شکل کا حوالہ کسی فلمی ہیروئین کی مشابہت سے دیا جاتا تھا۔ جن لڑکیوں کی مشابہت سری دیوی سے ہوتی تھی وہ اپنی قسمت پر ناز کرنے لگتی تھیں۔ اُس وقت کی ‘سری دیویاں‘ آج مائیں بن چکی ہوں گی لیکن انہیں بھی اپنے عہد کی سپر سٹار کی موت پر یقینا دکھ ہوا ہو گا۔

سری دیوی کا حوالہ بھارت نہیں، فلم تھی۔ وہ فلم جو اپنے اندر ایک رومانس رکھتی ہے اور دیکھنے والوں کے دلوں کو گدگداتی رہتی ہے۔ سری دیوی کو چاہنے والے دنیا بھر میں موجود ہیں، یہ سب ‘وی سی آر‘ دور کی پیداوار ہیں۔ ان کے ناسٹیلجیا سے سری دیوی کا عکس نکالنا ناممکن ہے۔ عمر کا وہ حصہ شروع ہو چکا ہے جب پیاروں اور پسندیدہ لوگوںکے بچھڑنے کی خبریں تواتر سے آنے لگی ہیں۔ ان میں کئی لوگ ایسے ہیں جن سے ہم زندگی بھر نہیں ملے ہوتے، کبھی گفتگو نہیں کی ہوتی لیکن پھر بھی وہ ہماری زندگی کے خوبصورت دور کا ایک حصہ ہوتے ہیں۔ ان سے کئی یادیں وابستہ ہوتی ہیں، ان کے حوالے سے کئی حوالے جڑے ہوتے ہیں۔ سری دیوی سے بھی تمام تر ملاقات 14 انچ کے ٹی وی تک محدود رہی جس میں صر ف وہ بولتی تھی اور ہم سنا کرتے تھے۔ اس کے باوجود ایسا لگتا تھا جیسے ہم ایک دوسرے کو اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ آج پہچان کا یہ سلسلہ بھی ختم ہوا۔

روزنامہ دنیا